خاموشی راہ نجات ہے
عقل مند انسان وہ ہے جو دنیا پر بقدر ضرورت اور آخرت پر پوری توجہ مرکوز رکھے۔
''جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا۔''(مسنداحمد۔ داری، ترمذی)
عام گناہوں کی نسبت زبان کے گناہوں سے بچنا حد درجہ مشکل ہے اور اس کے فسادات بھی دوسرے گناہوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں زبان کی حفاظت کی بے حد تاکید آئی ہے۔
ارشاد ربانی ہے: '' اور آپ میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ ایسی بات کہا کریں جو بہتر ہو۔ شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ واقعتاً شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔'' (بنی اسرائیل:53)
قرآن مجید نے جہاں اچھی بات کرنے کی تلقین کی وہیں بُری باتیں سننے سے بھی منع فرمایا، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' اورجب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے (گویا ان کی برائی کے عوض ہم اپنی اچھائی کیوں چھوڑیں)۔'' ( القصص:55)
نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ ''زبان کا غلط استعمال ہی لوگوں کو سب سے زیادہ جہنم میں لے جائے گا۔''
(ترمذی 89/2)
زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان ایک کلمہ بولتا ہے، جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، مگر وہی کلمہ نہایت بُرا اور ناپسندیدہ ہوتا ہے، جیسے مذاق میں کسی کو گالی دینا یا دوستوں کا آپس میں گالی کے ذریعے اظہار اُلفت و محبت کرنا۔ آج دوستی کا معیار اس قدر پست ہوگیا ہے کہ بغیر لغویات کے دوستی کا تصور بھی محال ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ: ''جو بندہ مومن گالی دیتا ہے وہ اﷲ عزوجل کی نظروں سے گرجاتا ہے۔''
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: '' اے ایمان والوں ! اﷲ سے ڈرو اور صحیح بات کہو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کام یابی کو پہنچے گا۔'' ( الاحزاب:70,71)
ان متبرک قرآنی دلائل اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ وہ شخص جسے اپنی زبان پر قابو نہیں اُسے دنیا میں بھی رسوائی ملتی ہے اور وہ آخرت میں بھی مشکلات سے دوچار ہوگا۔
''حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں کہ '' اپنے نفس کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والا وہ ہے جو اپنی زبان کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والا ہے۔ آج ہم بے لگام ہوچکے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے اسلام، جہاد، فقہ، مدارس، علماء، صلحاء پر تنقید کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے۔ جو منہ میں آیا بغیر تحقیق کے بے دریغ کہہ دیا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ''انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بات سنے اور بغیر تحقیق کے آگے پہنچادے۔'' (ترمذی)
یاد رہے کہ خاموشی عقل مندی کی علامت ہے اور بے مقصد گفتگو کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ مقصد پر نظر رکھیں، خوب اچھی طرح سوچ سمجھ کراور ناپ تول کر بات کیجیے۔ خاموشی کی بدولت بے شمار پریشانیاں، رنج و ملال آپ کے قریب نہیں آتے۔ جوں ہی آپ بے جا لب کشائی کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ غلطی سرزد ہوجاتی ہے اور اسی لغزش کی پاداش میں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یاد رکھیے ! اﷲ عزوجل کی نافرمانی کا سب سے بڑا ہتھیار زبان ہے، جس کی وجہ سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ اگر زبان قابو میں آجائے تو دیگر اعضائے بدن کی اصلاح خود بخود ہونے لگتی ہے۔
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ بات کرے تو اچھی کرے ورنہ خاموش رہے۔''(متفق علیہ)
امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ''اگر کوئی اچھی بات نہیں سوجھتی تو خاموش رہنا بہتر ہے۔''
چند برے معمولات ایسے ہیں جو ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں اور نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ہم انہیں بُرا ہی نہیں سمجھتے، مثلاً '' لوگوں کا مذاق اڑانا، طعنہ دینا، بُرے القابات سے کسی کو پکارنا، حقیر سمجھنا، کسی کو جاہل یا کم علم سمجھنا، بدگمانی کرنا، تجسس کرنا، غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، گالی گلوچ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ان گناہوں کو فی زمانہ ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے، جب کہ پورے مسلم معاشرے کا بگاڑ اور اس کے حسن کو پامال کرنے والے یہی اعمال ہیں۔ بس! ہمیں انھیں ترک کرنے اور اپنے اقرباء سے ترک کروانے کی حددرجہ کوشش کرنی ہے۔ اگر ہم کام یاب ہوگئے تو اس سے بڑھ کر ہمارے لیے صدقہ جاریہ اور کوئی نہیں ہوسکے گا۔ ایک انسان کا سدھار پورے معاشرے کے سدھار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے'' بے شک ایمان والے مراد پا گئے۔ جو لوگ اپنی نمازوں میں عجز و نیاز کر تے ہیں ۔ اور جو بے ہودہ باتوں سے ( ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔'' ( المومنون: 1-3)
عقل مند انسان وہ ہے جو دنیا پر بقدر ضرورت اور آخرت پر پوری توجہ مرکوز رکھے۔ نمازوں اور دیگر فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پاسداری کرے اور خود کو زبان کے ہر گناہ سے بچانے کی کوشش کرے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: ''مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار چیزوں کو ترک کردے۔''
حضرت ابوذرؓ سے مروی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ ''عقل مند آدمی کی شان ہے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے۔'' (شرح زرقانی317/4)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عام گناہوں کی نسبت زبان کے گناہوں سے بچنا حد درجہ مشکل ہے اور اس کے فسادات بھی دوسرے گناہوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں زبان کی حفاظت کی بے حد تاکید آئی ہے۔
ارشاد ربانی ہے: '' اور آپ میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ ایسی بات کہا کریں جو بہتر ہو۔ شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ واقعتاً شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔'' (بنی اسرائیل:53)
قرآن مجید نے جہاں اچھی بات کرنے کی تلقین کی وہیں بُری باتیں سننے سے بھی منع فرمایا، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' اورجب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے (گویا ان کی برائی کے عوض ہم اپنی اچھائی کیوں چھوڑیں)۔'' ( القصص:55)
نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ ''زبان کا غلط استعمال ہی لوگوں کو سب سے زیادہ جہنم میں لے جائے گا۔''
(ترمذی 89/2)
زبان کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان ایک کلمہ بولتا ہے، جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، مگر وہی کلمہ نہایت بُرا اور ناپسندیدہ ہوتا ہے، جیسے مذاق میں کسی کو گالی دینا یا دوستوں کا آپس میں گالی کے ذریعے اظہار اُلفت و محبت کرنا۔ آج دوستی کا معیار اس قدر پست ہوگیا ہے کہ بغیر لغویات کے دوستی کا تصور بھی محال ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ: ''جو بندہ مومن گالی دیتا ہے وہ اﷲ عزوجل کی نظروں سے گرجاتا ہے۔''
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: '' اے ایمان والوں ! اﷲ سے ڈرو اور صحیح بات کہو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کام یابی کو پہنچے گا۔'' ( الاحزاب:70,71)
ان متبرک قرآنی دلائل اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ وہ شخص جسے اپنی زبان پر قابو نہیں اُسے دنیا میں بھی رسوائی ملتی ہے اور وہ آخرت میں بھی مشکلات سے دوچار ہوگا۔
''حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں کہ '' اپنے نفس کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والا وہ ہے جو اپنی زبان کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والا ہے۔ آج ہم بے لگام ہوچکے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے اسلام، جہاد، فقہ، مدارس، علماء، صلحاء پر تنقید کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے۔ جو منہ میں آیا بغیر تحقیق کے بے دریغ کہہ دیا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ''انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بات سنے اور بغیر تحقیق کے آگے پہنچادے۔'' (ترمذی)
یاد رہے کہ خاموشی عقل مندی کی علامت ہے اور بے مقصد گفتگو کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ مقصد پر نظر رکھیں، خوب اچھی طرح سوچ سمجھ کراور ناپ تول کر بات کیجیے۔ خاموشی کی بدولت بے شمار پریشانیاں، رنج و ملال آپ کے قریب نہیں آتے۔ جوں ہی آپ بے جا لب کشائی کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ غلطی سرزد ہوجاتی ہے اور اسی لغزش کی پاداش میں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یاد رکھیے ! اﷲ عزوجل کی نافرمانی کا سب سے بڑا ہتھیار زبان ہے، جس کی وجہ سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ اگر زبان قابو میں آجائے تو دیگر اعضائے بدن کی اصلاح خود بخود ہونے لگتی ہے۔
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ بات کرے تو اچھی کرے ورنہ خاموش رہے۔''(متفق علیہ)
امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ''اگر کوئی اچھی بات نہیں سوجھتی تو خاموش رہنا بہتر ہے۔''
چند برے معمولات ایسے ہیں جو ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں اور نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ہم انہیں بُرا ہی نہیں سمجھتے، مثلاً '' لوگوں کا مذاق اڑانا، طعنہ دینا، بُرے القابات سے کسی کو پکارنا، حقیر سمجھنا، کسی کو جاہل یا کم علم سمجھنا، بدگمانی کرنا، تجسس کرنا، غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، گالی گلوچ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ان گناہوں کو فی زمانہ ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے، جب کہ پورے مسلم معاشرے کا بگاڑ اور اس کے حسن کو پامال کرنے والے یہی اعمال ہیں۔ بس! ہمیں انھیں ترک کرنے اور اپنے اقرباء سے ترک کروانے کی حددرجہ کوشش کرنی ہے۔ اگر ہم کام یاب ہوگئے تو اس سے بڑھ کر ہمارے لیے صدقہ جاریہ اور کوئی نہیں ہوسکے گا۔ ایک انسان کا سدھار پورے معاشرے کے سدھار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے'' بے شک ایمان والے مراد پا گئے۔ جو لوگ اپنی نمازوں میں عجز و نیاز کر تے ہیں ۔ اور جو بے ہودہ باتوں سے ( ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔'' ( المومنون: 1-3)
عقل مند انسان وہ ہے جو دنیا پر بقدر ضرورت اور آخرت پر پوری توجہ مرکوز رکھے۔ نمازوں اور دیگر فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پاسداری کرے اور خود کو زبان کے ہر گناہ سے بچانے کی کوشش کرے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: ''مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار چیزوں کو ترک کردے۔''
حضرت ابوذرؓ سے مروی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ ''عقل مند آدمی کی شان ہے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے۔'' (شرح زرقانی317/4)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)