میں کس کو ووٹ دوں مودی یا راہول کو
مودی اقلیت کے خلاف اپنی نفرت کو اپنے صوبے کی ترقی کے خواب دکھا کر چھپا لیتا ہے۔
میں اس ناگوار صورتحال کا تصور کر رہا ہوں جہاں میرے پاس گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی یا کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے سوا کسی اور کو ووٹ دینے کا اختیار ہی نہ رہے۔
دونوں نے اپنی امیدواری کا عندیہ دیدیا ہے۔ یہ درست ہے کہ نہ تو بی جے پی نے رسمی طور پر مودی کو وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی کانگریس نے راہول کے 2014ء کے انتخابات کے لیے وزیراعظم کے طور پر حصہ لینے کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ دونوں پارٹیوں کے ذہن میں کیا ہے۔ میری رائے میں ان دونوں میں سے کوئی بھی وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے موزوں نہیں۔ ممکن ہے جس مقام پر وہ اس وقت ہیں اس کے لیے وہ مناسب ہوں مگر ان میں سے کوئی بھی مزید رفعت پانے کے قابل نہیں ہے۔
تاہم دونوں نے اپنی تعارفی تقریریں کر دی ہیں۔ مودی نے اس ہفتے نئی دہلی میں خطاب کیا اور راہول نے جے پور میں کانگریس کے انتخابی جلسہ میں۔ دونوں میں کسی اعتبار سے بھی کوئی مماثلت نہیں ہے۔ لیکن دونوں نے لوگوں کو نئے، متحرک اور فعال ملک کی تعمیر کے خواب کی جھلکیاں دکھائیں اور دعویٰ کیا کہ بھارت کو سر سبز پہاڑوں کی روشن، سنہری وادیوں کا ملک بنا دیا جائے گا۔ ان دونوں کا باہمی تقابل یہاں مکمل ہو جاتا ہے۔ وہ اس قدر مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے اتنے طویل فاصلے پر ہیں کہ ان کے کردار یا طرز عمل میں کوئی مماثلت ہی نہیں۔
مودی اقلیت کے خلاف اپنی نفرت کو اپنے صوبے کی ترقی کے خواب دکھا کر چھپا لیتا ہے۔ لیکن اس کے خلاف اب بھی عدالتی مقدمات قائم ہیں۔ وہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے نسلی قتل عام میں بدستور ملوث ہے اور کوئی بعید نہیں کہ آیندہ بھی وہ ایسا ہی کرتا رہے۔ لہٰذا ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے کے لیے تو وہ کسی بھی اعتبار سے اہل نہیں۔ راہول جنگل میں گھومنے والے ایک بچے کی مانند ہے جسے کانگریس ایک شیر ببر بنا کر پیش کر رہی ہے کیونکہ اس جماعت کی صدر اس کی ماں سونیا گاندھی ہیں۔ اس سے جب بھی کسی سنجیدہ معاملہ میں بات کی جائے تو اس کے جواب میں گہرائی مفقود ہوتی ہے۔ اسے بجٹ کی تقریر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی چنانچہ وہ درمیان میں ہی اٹھ کر چلا گیا حالانکہ وہ پہنچا بھی خاصی تاخیر سے تھا۔ اس کا ریاستی پالیسیوں کے بارے میں علم ناقص ہے اور اس کا کسی اہم معاملے پر ردعمل بھی بچگانہ ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے حوالے سے اس کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان نے جب بھی کوئی معرکہ سر کرنے کا ارادہ کیا اس میں ہمیشہ امتیازی کامیابی حاصل کی۔ حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیشیوں نے خود آزاد کرایا تھا۔ بھارت نے مدد ضرور کی مگر اس کا کردار ثانوی نوعیت کا تھا۔
راہول اور مودی کو چھوڑیے، اصل میں آنے والے انتخابات کا بدقسمت پہلو یہ ہے کہ وہ آج تک بھارت میں ہونے والے تمام انتخابات سے زیادہ متشدد، خون آشام اور معاشرتی تقسیم کو اور زیادہ گہرا کرنے والے ہوں گے۔ قوم کو مذہب اور ذات پات کے نام پر گمراہ کر دیا جائے گا۔ ایک ملک جو پہلے ہی سر بہ سر کرپشن کے اسکینڈلوں میں ڈوبا ہوا ہو تو اس میں انتخابی امید وار ووٹ حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی انتہا تک جا سکتے ہیں۔ لگتا ہے بی جے پی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ملک پہلے ہی ہندوتوا کے فلسفے کا اسیر ہو چکا ہے۔
بصورت دیگر بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کمبھ میلے کے دوران ہر دوار میں اجلاس میں شرکت کے لیے نہ جاتے جہاں سنگھ پریوار اور انتہا پسند سادھوئوں نے رام مندر کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا۔ واضح رہے رام مندر ہندوتوا کی علامت ہے۔ یہ قابل فہم ہے کہ سنگھ پریوار کو بابری مسجد کے انہدام کے الزام میں بی جے پی کے لیڈروں پر بنائے گئے مقدمات کی کوئی پروا نہیں۔
کانگریس حکومت کی بھی ان مقدمات کے جلد فیصلے کرانے پر کوئی توجہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ پارٹی بیک وقت دو گھوڑوں پر سوار ہونا چاہتی ہے۔ وہ سیکولر ازم پر کوئی واضح پالیسی اختیار کرنا نہیں چاہتی، شاید اس ڈر سے کہ ایسا کرنے سے مذہبی ہندو کانگریس سے متنفر ہو جائیں گے۔ دوسری طرف کانگریس کو یہ بھی یقین ہے کہ اگر مودی بی جے پی کا امیدوار بنا دیا گیا تو آزاد خیال (لبرل) لوگوں کا کانگریس کے سوا کسی اور کو ووٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔
لیکن کانگریس اور خاص طور پر بی جے پی ملک کے موڈ کا صحیح اندازہ نہیں لگا رہیں۔ ایک عام آدمی اپنے مزاج کے لحاظ سے سیکولر ہے۔ وہ مذہبی جنونیوں کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتا کیونکہ اس کا خیال ہے کہ وہ انتخابات کے موقع پر انھیں شکست دیدے گا۔ قبل ازیں 2004ء میں ایسا ہو چکا ہے جب بی جے پی ''انڈیا شائننگ'' یا چمکدار بھارت کا نعرہ دے کر یہ یقین کیے بیٹھی تھی کہ وہ لازماً دوبارہ اقتدار میں آ جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی طرف سے ہندوتوا کے نعروں سے الٹا کانگریس ہی کو فائدہ ہو گا کیونکہ ہندوئوں کو بھارت میں اپنے مذہب کے حوالے سے کسی قسم کے عدم تحفظ کا احساس نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ بہت پہلے ہی ہندو راشٹرا قائم کر دیتے کیونکہ ملک کی 80 فیصد آبادی ہندو ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آرہا ہے کہ کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 543 رکنی لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لیے کم از کم 273 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر بی جے پی مودی کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کرتی ہے تو اس کی اتحادی جماعتیں ڈر کر دور بھاگ جائیں گی اور بی جے پی حکومت نہیں بنا سکے گی۔ جنتا دل (یونائیٹڈ) بی جے پی کی ایک اہم اتحادی جماعت ہے جو بی جے پی کی قیادت میں بننے والے نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) میں شامل ہے۔ اس نے پہلے ہی واشگاف طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ مودی کی بطور وزیراعظم امیدواری کو ہر گز قبول نہیں کرے گی۔ ان حالات میں اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ بی جے پی جو کہ اقتدار میں واپس آنے کے لیے بہت بیتاب ہے' اب بھی مودی کی نامزدگی کا اعلان کر دے گی۔
اس کے باوجود مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ آخر ہم بی جے پی اور کانگریس میں ہی کسی ایک کو منتخب کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔ دونوں کو آزمایا اور پرکھا جا چکا ہے اور دونوں بری طرح ناکارہ ثابت ہوئی ہیں۔ پہلی پارٹی میں زعفرانی رنگ (یعنی ہندوتوا) ہر سطح پر اثر دکھا رہا ہے، دوسری پارٹی میں کرپشن حکومت کی ہر کارکردگی پر غلبہ حاصل کر چکی ہے۔ اور اس پارٹی میں سیکولر ازم کی بنیادیں بھی باقی نہیں رہیں جن پر اس پارٹی کو استوار کیا گیا تھا۔
شاید کہ ایسا ہو جائے کہ کانگریس اور بی جے پی کے بغیر ایک تیسرا اتحاد وجود میں آ جائے جس سے ملک کو ایک متبادل قیادت میسر آ سکے۔ کیا تیسرے اتحاد کی تشکیل کے لیے کوئی رسمی کوشش کی جا رہی ہے یا نہیں، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ لیکن عام تاثر یہی ہے کہ ملک کو کانگریس یا بی جے پی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ووٹروں کو ایسی چوائس درکار نہیں کہ یا تو وہ سمندر میں غرق ہوں یا دریا میں چھلانگ لگائیں۔ آخر قوم ماضی کی غلطیاں دہرانے پر ہی کیوں تلی ہوئی ہے؟
(ترجمہ: مظہر منہاس)