الیکشن اور زمینی حقائق
وہ جنگ جو کابل میں لڑی جارہی تھی اب ہماری گلیوں تک آن پہنچی ہے
ISLAMABAD:
جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے اور انتخابات کی تاریخ قریب تر ہوتی جارہی ہے فضا سوگ میں ڈوبتی جارہی ہے اور جمہور کشی میں جمہوریت کا چہرہ نمایاں تر ہوتا جارہا ہے۔ انتخابات کے بعد آخر اس بلاخیز چہرے کے اور کون کون کون سے پہلو دیکھنے ہوںگے۔ کراچی سے خیبر تک بس کہیں نظریات کی بنیاد پر اور کہیں مسالک کی بنیاد پر پاکستانی لہو لہو، جھلسے چہرے، کٹی ٹانگیں، کٹے بازو، اپاہج اور بے روزگار لوگوں کا ایک جم غفیر تیار ہورہا ہے۔
کیا ان خانماں خرابوں پر جمہوریت کے دعوے دار کوئی کرم کرنے پر تیار ہیں۔ کہیں بلا سود قرضے، یہ سب سیاسی ہتھکنڈے پاکستانیوں کے نصیب میں ہیں، جمہوری حکومت سے قبل بھی پاکستانی قوم آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی مقروض تھی، اس وقت کے اعداد وشمار کے مطابق 35 ہزار فی کس کا ہر فرد زیر بار تھا مگر اب 80 ہزار فی کس تک یہ قرض جا پہنچا ہے، پھر اس پر سود۔
ان سب چیزوں کو پاکستانی جمہور کو ہی برداشت کرنا ہے، وہ جنگ جو کابل میں لڑی جارہی تھی اب ہماری گلیوں تک آن پہنچی ہے، ان سب کی ذمے داری عوام پر عائد نہیں ہوتی یہ تو خواص کے کھیل تھے، آگ اور خون کے کھیل اور اب ان خواص نے درندہ صفت لوگوں کی پرورش شروع کردی ہے اور آئے دن یہ شور برپا ہوتا ہے کہ کم ازکم جو مسالک کی بنیاد پر قتل کررہے ہیں ان کا سدباب ہوگا، قانون حرکت میں آئے گا اور عوام کو سکھ اور چین کا سانس نصیب ہوگا۔
مگر یہ الفاظ کی ٹافیاں ہیں جو میڈیا کے ذریعے تقسیم کی جارہی ہیں۔ اصل حقیقت سے پردہ پوشی میں کوئی آل پارٹیز کانفرنس 5 برسوں بعد بلا رہا ہے تو کوئی گفت وشنید کی بات کررہا ہے، گفت وشنید کا تو کوئی بھی مخالف نہیں، گفت وشنید تو دو سیاسی اور عسکری قوتوں کے مابین ہوتا ہے، امریکا اور ویتنام میں جنگ جاری تھی اور مذاکرات ہورہے تھے جب کہ جنوبی ویتنام پر امریکی حکومت کا قبضہ تھا اور یہ بات چیت تقریباً نصف دہائی پر محیط تھی۔
امریکا اور اس کے اتحادی ایک سمت تھے تو دوسری سمت روس اور چین تھے مگر سب سے پہلے دونوں متصادم قوتوں کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوتا ہے اور ان کے عسکری اور سیاسی عزائم کا تجزیہ کرنا ہوتاہے جس کا کوئی تذکرہ اس اے پی سی میں شامل نہیں، اس کے علاوہ جس پارٹی سے بات چیت کی جاتی ہے اس کے بھی مطالبات ہوتے ہیں، وہ بھی میز پر یا جرگہ میں رکھے جاتے ہیں۔ رہ گیا ویتنام، تو امریکا کو ویتنام کے جنرل گیاپ نے فوجی شکست دی تھی۔ یہ معاملہ بالکل مختلف ہے۔
طالبان کی کئی تنظیمیں ہیں، ان کا کوئی مرکزی قائد تو ہوگا جو جرگہ میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا۔ بات چیت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مخالف تنظیم کو تسلیم کیا جائے، طالبان کے عسکری نقطہ نظر اور مقاصد کا واضح ہونا بھی ایک عمل ہوتا ہے جس کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ملتا، یہ تمام عمل آخر جاتی ہوئی حکومت کیوں کررہی ہے، کیونکہ اس کے مینڈیٹ کی عمر پوری ہوچکی ہے، ظاہر ہے یہ الیکشن کے کھیل کود ہیں۔ جب کہ بی بی سی کی ایک اطلاع کے مطابق طالبان نے فوج کی شمولیت کو ایک اہم جز قرار دیا ہے اور اب اس پرگفتگو بند ہوچکی ہے۔
غرض پاکستانی لیڈر میں اخلاص کی کمی نظر آتی ہے اور وہ ہر مسئلے کو سیاسی طور پر خبر میں نمایاں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، نہ کوئی ہوم ورک کرتے ہیں اور نہ دفاعی عرق ریزی، کہ ہم جو کام کرنے جارہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہوگی اور اس کے دیر پا اثرات کیا ہوںگے۔ کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ کمزور ہے اور وہ ہر نئی بات پر کان دھرتے ہیں۔ ا سی طرح جمہور کے 5 برس گزر گئے اور جمہوریت کی ریل رواں دواں ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا تھا کہ صدر پاکستان کے پاس 2 عہدے نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ صدر مملکت پورے ملک کا صدر ہوتا ہے اور وہ پارٹی سے بالاتر ہے، ظاہر ہے اس انتخاب میں بھی صدر مملکت ہی نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیں گے اور بہت ممکن ہے کہ سیاسی افق پر کوئی خاص تبدیلی واقع نہ ہو اور پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی تعداد میں مزید اضافہ ہو اور قومی سطح پر بھی کچھ مزید سیٹیں آجائیں تو پھر موجودہ صدر بدستور صدر رہ سکتے ہیں۔ انتخابات سے قبل صدر زرداری نے دو بہت دور رس معاہدے کیے ہیں جن کی بازگشت میڈیا پر زور و شور سے سنی جاسکتی ہے۔
ایک گوادر پورٹ کا، دوسرا ایران سے گیس پائپ لائن کا، اور ان دونوں معاہدوں کو ملک میں ایسا پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے یہ کوئی فوجی معاہدہ تھا جس پر امریکا چراغ پا ہوجائے گا جب کہ ایسا ہرگز نہیں۔ امریکا کو کوئی خاص تشویش نہیں کیونکہ امریکا جانتا ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس کے قرض بمعہ سود کی رقم آسانی سے واپس ہوسکے گی اور انرجی کا معاملہ پاکستان پر منفی اثرات مرتب کرے گا، جو آگے چل کر اتنا شدید ہوسکتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی حکومت معرض وجود میں آسکتی ہے جو ایران نواز ہو، لہٰذا اس لیے جان کیری کے بیان کو کوئی ایسی اہمیت حاصل نہیں ہے جس پر پاکستان کو تشویش ہو۔
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور سیاسی تبدیلی سے امریکا بخوبی واقف ہے اور اس کا رویہ ایران کے خلاف اتنا معاندانہ نہیں جس پر پاکستان کو وہ بلیک لسٹ کردے، لہٰذا جان کیری کا بیان محض بیان برائے بیان ہے، التبہ اس نے اس عمل سے ایران کے معا شی پھیلائو پر ہلکی تشویش کا اظہار کیا ہے جس کا رخ سوئے ایران ہے نہ کہ پاکستان۔ اگر امریکی انتخابات پر ہم نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہوجائے گا کہ امریکی انتخاب سے قبل اسرائیل نے امریکا سے کہا تھا کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیات پر حملہ کردے مگر اسرائیلی زور کے باوجود اوباما نے نظر انداز کردیا۔
کیونکہ امریکا مستقبل قریب میں ایران سے بہتر تعلقات بنانے پر غور کررہا ہے، وہ عرب ممالک پر دبائو کے لیے ایران کو استعمال کرسکتا ہے، خصوصاً بعض گلف اسٹیٹس پر اس کی نظر ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف حماس کی حمایت میں مصروف ہیں اور محمود عباس کی حمایت ترک کرچکے ہیں، لہٰذا ایران اور پاکستان کے تعلقات اتنے گہرے نہیں ہیں جو امریکا کے لیے تشویش کا باعث ہوں۔ پاکستان عالمی سطح پر ایران کی سیاسی لائن پر عمل پیرا نہیں، اس کی مثال شام کا مسئلہ ہے جس میں روس، چین اور ایران کا موقف یکساں ہے، جب کہ پاکستان اس مسئلے پر ایران کا ہمنوا نہیں ہے۔
دوسرا اہم پہلو چین کا گوادر پورٹ بنانے کا مسئلہ ہے وہ بھی کوئی ایسا پیچیدہ نہیں کیونکہ گوادر کی گزرگاہ وسطی ایشیا کے لیے رسد اور خود مستقبل میں افغانستان کی رسد کا مسئلہ ہے، پھر ایندھن بھی درکار ہے، خود چین کو ایندھن سے دھن کمانے کا موقع ملے گا، کیونکہ امریکا کی کمپنیاں اپنی بیشتر مصنوعات چین سے بنواتی ہیں، یہ امریکا کو سستی پڑتی ہیں۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ راہداری اور ایندھن کی بدولت پاکستان میں بہتر معاشی حالات پیدا ہوجائیںگے، لہٰذا اس کو یہ سمجھنا کہ یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ امریکا کے عالمی مقاصد میں کوئی رکاوٹ ہے یہ سراسر غلط تجزیے کا نتیجہ ہے، اگر ایسا ہوتا تو وہ اس مسئلے کو ڈرون حملے کے مساوی درجہ دے دیتا، فوجی اور اقتصادی امداد پر رکاوٹ کے بل منظور کرواتا۔
جان کیری نے محض ایک ایسا بیان دیا جیسا کہ پاکستانی سیاست دان ڈرون حملوں پر دیتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اس وقت پاکستان کے لیے انرجی سے زیادہ اہم امن و امان کا ہے، انتخابات کی تاریخیں قریب آرہی ہیں اور الیکشن کمیشن کاغذات نامزدگی کے لیے وہ اقدامات کرنے میں سرعت سے کام نہیں لے رہا ہے جو جعلی ڈگریوں اور آئین کی شق 62/63 سے متعلق ہے، اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر سرے سے کوئی بات ہی ممکن نہیں۔ الیکشن ہوں یا نہ ہوں صورت حال میں بہتری کی توقع نہیں، البتہ الیکشن ہونے کی شکل میں کچھ نئے لوگوں کی قسمت بدل جائے گی اور اگر انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کی وارداتیں ہوئیں جیسا کہ عباس ٹاؤن کا سانحہ ہے، تو اس بات کی پوری توقع ہے کہ پورے پاکستان میں دھرنوں کا آغاز ہوگا اور انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہوسکیں گے۔
لہٰذا گھروں کے چراغوں کو بجھنے سے روکنا ہوگا اور امن وامان کو اولیت دینی ہوگی۔ رہنماؤں کی تقریروں اور مذمتی بیانات سے شرپسندوں کی کارروائی رکنے کی نہیں اور لوگ ریاست سے مایوس ہونے کو ہیں۔ حکومت کا بے بسوں کے خلاف کارروائی کرنا، موٹرسائیکل کی سواری پر پابندی لگا کر عام شہریوں کو ہدف بنانے کے سوا کوئی علاج ہے اور نہ ہوگا، جمہور کو وعدوں پر جینا اور مرنا ہوگا، یہی ہماری جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے۔