خواب شرمندہ تعبیر ہوگا…
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب سے نکلنے کا کیا راستہ ہوسکتا ہے؟
ہمارے ملک میں، روز اول سے ہی سرکاری سرپرستی میں قدامت پسندی کو مضبوط بنانے کا رجحان موجود رہا ہے۔ ریاست پر حاوی طاقتور غیر جمہوری عناصر نے ریاستی امور پر اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد رجعت پرست قوتوں کے اتحاد سے نہ صرف پورے معاشرے پر اپنی گرفت کو مضبوط بنایا بلکہ عوام کے جمہوری حقوق سلب کرنے اور صوبوں کی لسانی، علاقائی اور ثقافتی شناخت کو ختم کرنے کے لیے سرکاری وسائل کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔
انھوں نے مذہب کو غلط طور پر استعمال کرکے زبان، ادب اور صدیوں پر پھیلی ہوئی تہذیب و ثقافت اور روایات کو جبراً تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی۔ ریاستی جبر کواس حد تک اختیارکیا گیا کہ قومی حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنے والے بعض جمہوریت پسند عناصر وفاق سے مکمل طور پر مایوس ہوگئے۔ سیاست جو درحقیقت سماجی اور معاشرتی اقدار کی عکاسی کرتی ہے اسے نوزائیدہ ریاست میں عملاً شجر ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا گیا کہ جن معاشروں میں جمہوریت نہیں ہوتی وہاں سماج کے تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں مختلف نوع کے بحران پیدا ہوئے اور ان میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی، سماجی، معاشی و ثقافتی بحرانوں اور وجود کو لاحق سنگین خطرات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان مغائرت، اہم ریاستی اداروں پر نااہل افراد کے تسلط، سول سوسائٹی کی تباہی، آئین کی پامالی، نمایندہ اداروں کی بربادی، بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری، عدم مساوات، معاشرے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد اور وحشیانہ جرائم، قانون کی حکمرانی کے خاتمے اور فوجی آمریت کے تلے پسے ہوئے عوام کی مشکلات اور مصائب کے نتیجے میں ہمارا ملک آج مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب سے نکلنے کا کیا راستہ ہوسکتا ہے؟ یقینی طور پر یہ ایک پیچیدہ سوال ہے لیکن اس کا جواب بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ اگر صوبوں کے ساتھ کشیدگی کے رویوں کو ختم کرکے یگانگت کو بڑھایا جائے، ہر زبان، لسان اور ثقافت کو قومی یکجہتی کے فروغ کا ذریعہ بنایا جائے، ان سب سے محبت کی جائے، انھیں اپنایا جائے۔ ملک میں رہنے والے تمام عوام خواہ ان کا تعلق لسانی طور پر کسی بھی جگہ سے ہو، کوئی بھی زبان بولنے والے ہوں یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، ان کی حب الوطنی پر شک کرنے کے رویوں کو تر ک کیا جائے۔ سب کو اپنے جیسا ہی محب وطن سمجھا جائے۔
ملک میں حقیقی جمہوریت کو مستحکم اور فروغ دیا جائے۔ آئین کے احترام کی روایت کو مستحکم بنایا جائے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے اور عوام کے حق حکمرانی کے آگے سر تسلیم خم کردیا جائے تو اس مشکل اور مایوس کن صورتحال سے نکلا جاسکتا ہے۔ تاہم، المیہ یہ رہا ہے کہ اقتدار پر بالادست طبقات نے ہمیشہ اس کے برعکس عمل کیا۔ انھوں نے اپنے مخالف افراد اور سیاسی جماعتوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیا اور ان کے خلاف نبرد آزما رہے۔ ملک میں بسنے والی کئی لسانی اکائیوں کے خلاف آپریشن بھی ہوا جو کسی ایک علاقے تک ہی محدود نہیں رہا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی لسانی اکائی نے کبھی ملک سے علیحدگی کے جذبات کو فروغ دینے والی قوتوں کا ساتھ نہیں دیا۔ ان بالادست طبقوں نے ماضی میں پختونوں کو غدار قرار دیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ پختون غدار نہیں بلکہ پاکستان کے وفادار ہیں، آج پاکستان کے مفاد میں وہ سب سے بڑھ کر اپنی جانوں کی قربانی پیش کررہے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں بھٹو حکومت کے خاتمے اور فوجی آمریت کے نفاذ کے خلاف جب سندھ کے عوام نے زبردست جمہوری جدوجہد شروع کی تو انھیں بھی غدار قرار دے کر ان کی سیاسی جدوجہد کو بدترین ریاستی طاقت سے کچلا گیا۔ درجنوں سیاسی کارکن شہید ہوئے جب کہ سیکڑوں نے قیدوبند کی سختیاں جھیلیں لیکن انھوں نے اپنی جمہوری جدوجہد کو پُرامن رکھا۔
2007 میں جب محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی امکانی سازش کو ناکام بنادیا۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے بھی عوام کے غم میں شریک ہوکر ملک میں قومی اور سیاسی یکجہتی کو تقویت فراہم کی۔ حد تو یہ کہ اکبر بگٹی جیسے محب وطن سیاستدان کو بھی شہید کردیا اور ان سے جو مذاکرات کیے گئے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس صورتحال کے باوجود بلوچ عوام کی اکثریت آج بھی پاکستان میں رہ کر اپنے قومی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔
قیام پاکستان کے 65 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرلینا چاہیے کہ ریاستی اقتدار پر غیر جمہوری عناصر کی بالادستی کی وجہ سے عوام کی فلاح اور بہبود کو کبھی ترجیح نہیںدی گئی، کیونکہ ایسا کرنا صرف جمہوری قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کو جواب دہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم 65 سال میں اپنے ملک کے دیہی علاقوں میں صاف پانی تک مہیا نہیں کرسکے ہیں۔ آج تک ملک میں جدید انفرا اسٹرکچر نہیں بنا سکے ہیں۔ سرکاری سطح پر تعلیم کا کوئی موثر و جدید نظام موجود نہیں ہے۔ ہمارے یہاں آج تک عوام کو ریاست کی جانب سے بہتر طبی سہولیات میسر نہیں کی جاسکیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کو فلاحی اور سماجی ریاست بنانے کا خواب آج بھی محض ایک خواب ہی ہے۔ ہم بحیثیت قوم اپنی اس خواہش کی تکمیل میں آج تک ناکام رہے ہیں۔ تاہم، اب منتخب پارلیمنٹ، آزاد عدلیہ اور میڈیا کے قیام کے بعد سماجی انصاف پر مبنی ایک فلاحی ریاست کا خواب ضرور پورا ہوسکے گا اور ہم پاکستان کو ایک ایسی خوشحال اور مستحکم ریاست بنانے میں کامیاب ہوں گے جہاں سماجی اور معاشی انصاف کا بول بالا ہوگا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ اور جدید دنیا میں ایک ایسی جمہوری ریاست ترقی کرسکتی ہے جہاں سیاسی استحکام ہو، سماجی اور معاشی انصاف ہو، ہر شہری کو ملکی وسائل میں اس کا پورا حصہ مل رہا ہو اور جہاں جبر کا راج نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہو۔ پاکستان میں اگر جمہوری انتقال اقتدار کا مرحلہ کامیاب ہوجاتا ہے تو ایک ایسی ہی فلاحی و جمہوری ریاست کے خواب کی تعبیر کے امکانات ضرور روشن ہوجائیں گے۔
انھوں نے مذہب کو غلط طور پر استعمال کرکے زبان، ادب اور صدیوں پر پھیلی ہوئی تہذیب و ثقافت اور روایات کو جبراً تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی۔ ریاستی جبر کواس حد تک اختیارکیا گیا کہ قومی حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنے والے بعض جمہوریت پسند عناصر وفاق سے مکمل طور پر مایوس ہوگئے۔ سیاست جو درحقیقت سماجی اور معاشرتی اقدار کی عکاسی کرتی ہے اسے نوزائیدہ ریاست میں عملاً شجر ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا گیا کہ جن معاشروں میں جمہوریت نہیں ہوتی وہاں سماج کے تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں مختلف نوع کے بحران پیدا ہوئے اور ان میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی، سماجی، معاشی و ثقافتی بحرانوں اور وجود کو لاحق سنگین خطرات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان مغائرت، اہم ریاستی اداروں پر نااہل افراد کے تسلط، سول سوسائٹی کی تباہی، آئین کی پامالی، نمایندہ اداروں کی بربادی، بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری، عدم مساوات، معاشرے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد اور وحشیانہ جرائم، قانون کی حکمرانی کے خاتمے اور فوجی آمریت کے تلے پسے ہوئے عوام کی مشکلات اور مصائب کے نتیجے میں ہمارا ملک آج مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب سے نکلنے کا کیا راستہ ہوسکتا ہے؟ یقینی طور پر یہ ایک پیچیدہ سوال ہے لیکن اس کا جواب بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ اگر صوبوں کے ساتھ کشیدگی کے رویوں کو ختم کرکے یگانگت کو بڑھایا جائے، ہر زبان، لسان اور ثقافت کو قومی یکجہتی کے فروغ کا ذریعہ بنایا جائے، ان سب سے محبت کی جائے، انھیں اپنایا جائے۔ ملک میں رہنے والے تمام عوام خواہ ان کا تعلق لسانی طور پر کسی بھی جگہ سے ہو، کوئی بھی زبان بولنے والے ہوں یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، ان کی حب الوطنی پر شک کرنے کے رویوں کو تر ک کیا جائے۔ سب کو اپنے جیسا ہی محب وطن سمجھا جائے۔
ملک میں حقیقی جمہوریت کو مستحکم اور فروغ دیا جائے۔ آئین کے احترام کی روایت کو مستحکم بنایا جائے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے اور عوام کے حق حکمرانی کے آگے سر تسلیم خم کردیا جائے تو اس مشکل اور مایوس کن صورتحال سے نکلا جاسکتا ہے۔ تاہم، المیہ یہ رہا ہے کہ اقتدار پر بالادست طبقات نے ہمیشہ اس کے برعکس عمل کیا۔ انھوں نے اپنے مخالف افراد اور سیاسی جماعتوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیا اور ان کے خلاف نبرد آزما رہے۔ ملک میں بسنے والی کئی لسانی اکائیوں کے خلاف آپریشن بھی ہوا جو کسی ایک علاقے تک ہی محدود نہیں رہا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی لسانی اکائی نے کبھی ملک سے علیحدگی کے جذبات کو فروغ دینے والی قوتوں کا ساتھ نہیں دیا۔ ان بالادست طبقوں نے ماضی میں پختونوں کو غدار قرار دیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ پختون غدار نہیں بلکہ پاکستان کے وفادار ہیں، آج پاکستان کے مفاد میں وہ سب سے بڑھ کر اپنی جانوں کی قربانی پیش کررہے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں بھٹو حکومت کے خاتمے اور فوجی آمریت کے نفاذ کے خلاف جب سندھ کے عوام نے زبردست جمہوری جدوجہد شروع کی تو انھیں بھی غدار قرار دے کر ان کی سیاسی جدوجہد کو بدترین ریاستی طاقت سے کچلا گیا۔ درجنوں سیاسی کارکن شہید ہوئے جب کہ سیکڑوں نے قیدوبند کی سختیاں جھیلیں لیکن انھوں نے اپنی جمہوری جدوجہد کو پُرامن رکھا۔
2007 میں جب محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی امکانی سازش کو ناکام بنادیا۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے بھی عوام کے غم میں شریک ہوکر ملک میں قومی اور سیاسی یکجہتی کو تقویت فراہم کی۔ حد تو یہ کہ اکبر بگٹی جیسے محب وطن سیاستدان کو بھی شہید کردیا اور ان سے جو مذاکرات کیے گئے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس صورتحال کے باوجود بلوچ عوام کی اکثریت آج بھی پاکستان میں رہ کر اپنے قومی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔
قیام پاکستان کے 65 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرلینا چاہیے کہ ریاستی اقتدار پر غیر جمہوری عناصر کی بالادستی کی وجہ سے عوام کی فلاح اور بہبود کو کبھی ترجیح نہیںدی گئی، کیونکہ ایسا کرنا صرف جمہوری قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کو جواب دہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم 65 سال میں اپنے ملک کے دیہی علاقوں میں صاف پانی تک مہیا نہیں کرسکے ہیں۔ آج تک ملک میں جدید انفرا اسٹرکچر نہیں بنا سکے ہیں۔ سرکاری سطح پر تعلیم کا کوئی موثر و جدید نظام موجود نہیں ہے۔ ہمارے یہاں آج تک عوام کو ریاست کی جانب سے بہتر طبی سہولیات میسر نہیں کی جاسکیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کو فلاحی اور سماجی ریاست بنانے کا خواب آج بھی محض ایک خواب ہی ہے۔ ہم بحیثیت قوم اپنی اس خواہش کی تکمیل میں آج تک ناکام رہے ہیں۔ تاہم، اب منتخب پارلیمنٹ، آزاد عدلیہ اور میڈیا کے قیام کے بعد سماجی انصاف پر مبنی ایک فلاحی ریاست کا خواب ضرور پورا ہوسکے گا اور ہم پاکستان کو ایک ایسی خوشحال اور مستحکم ریاست بنانے میں کامیاب ہوں گے جہاں سماجی اور معاشی انصاف کا بول بالا ہوگا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ اور جدید دنیا میں ایک ایسی جمہوری ریاست ترقی کرسکتی ہے جہاں سیاسی استحکام ہو، سماجی اور معاشی انصاف ہو، ہر شہری کو ملکی وسائل میں اس کا پورا حصہ مل رہا ہو اور جہاں جبر کا راج نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہو۔ پاکستان میں اگر جمہوری انتقال اقتدار کا مرحلہ کامیاب ہوجاتا ہے تو ایک ایسی ہی فلاحی و جمہوری ریاست کے خواب کی تعبیر کے امکانات ضرور روشن ہوجائیں گے۔