پیپلز پارٹی اور انتخابات
گزشتہ پانچ سال میں بھی مفاہمت جیسے غیر واضح مبہم اور دھندلے تصور کے ساتھ حکومتیں بنائی گئیں
پاکستان کی موجودہ حکومت کے خاتمے میں چند باقی رہ گئے ہیں، آئین کے مطابق نگراں حکومت کا قیام ہوگا اور اس نگراں حکومت کے زیرانتظام مئی 2013 تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے جس کے بعد نئی حکومت 5 سال کے لیے تشکیل پائے گی۔ نئی حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے، مفاہمت کی پی پی پی کی پالیسی مستقبل کی حکومت کے لیے اہم ہوگی یا کچھ اور ہوگا، اس وقت یہ سب کچھ کہنا بھی قبل ازوقت ہے تاہم جو بات سب سے بڑی حقیقت بن کر ابھر رہی ہے وہ یہ سوچ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے سیاسی اصول پس پشت ڈال دیے جائیں اور پارٹیوں کی عددی قوت کو سیاسی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اتحاد برائے حکومتی تشکیل کیا جائے۔
گزشتہ پانچ سال میں بھی مفاہمت جیسے غیر واضح مبہم اور دھندلے تصور کے ساتھ حکومتیں بنائی گئیں اور تقریباً ان تمام جماعتوں کو جو وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی رکھتی تھیں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں اور حزب اختلاف تقریباً نہ ہونے کے برابر رہا۔ اقتدار کی بندربانٹ میں تو تمام سیاسی قوتیں ساتھ رہی ہیں اس کے باوجود پاکستان کے عوام کے معاشی مسائل جوں کے توں رہے۔ نہ روٹی ملی، نہ کپڑا، نہ مکان اور نہ ہی امن وامان۔ یہ ساری توقعات عوام نے پی پی پی کے ساتھ باندھ رکھی تھیں کیونکہ پی پی پی کی ہی عوامی بنیادیں ہیں۔
دیگر پارٹیاں یا تو درمیانہ طبقہ، تاجروں یا اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں لیکن پی پی پی نے بھی عوام کو مایوس کیا، اس کی بنیادی وجہ پی پی پی کی قیادت پر موقع پرست جاگیردارانہ طبقہ اور نو دولتیے قابض ہوگئے اور عوام سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا۔ پی پی پی کے حوالے سے عوام مایوس ضرور ہیں لیکن ابھی تک عوام اس پارٹی سے قطع تعلق نہیں ہوئے۔
ماضی میں آمریتیں نیک ناموں کو تلاش کرنے کے لیے کافی شہرت رکھتے تھے، لہٰذا عوام اور سیاسی فضا میں ایک خوف سا ہے کہ کہیں ان نیک ناموں کی عدم دستیابی غیر جمہوری قوتوں کے لیے کوئی اقتدار میں آنے کا جواز نہ بن جائے۔ سیاسی پارٹیاں ایسے امیدواروں کے تمام اوصاف پر کسی بھی رائے زنی سے احتراز کر رہی ہیں۔ انھیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو جیت سکیں خواہ وہ کسی بھی کردار کے حامل ہوں، تاہم پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انتخابات سے چند ہفتے پہلے یہ بیان دے کر کہ وہ کارکنوں کو بھی ٹکٹ دیں گے، پی پی پی میں غریب کارکنوں کے لیے امید کی صورت پیدا کردی ہے۔
آصف علی زرداری کے لیے دیہی حلقوں میں شاید یہ ممکن نہ ہو، لیکن پاکستان کے شہری حلقے اس پالیسی اعلان سے متاثر ہوں گے۔ ویسے بھی جاگیردار اور سرمایہ دار کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے لہٰذا وہ ایسے حلقوں میں قسمت آزمائی سے گریز کرتے ہیں جہاں پر ان کے جیتنے کے امکانات کم ہوں یا ان کا ذاتی ووٹ بینک کم ہو کیونکہ ان کی جیت کے بعد کسی نہ کسی طرح سیاست کی اس منڈی میں اپنی قیمت لگانی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اس طرح کے جوکھم میں نہیں پڑتا۔
پی پی پی کے کارکن آمریت کا دور ہو یا نیم جمہوری، ہر وقت نہ صرف پارٹی سے وفاداری کی بلکہ بے تحاشا قربانیاں بھی دیں، مگر مروجہ سیاست نے ان کو مایوس کیا، اس کے باوجود انھوں نے ذاتی مایوسیوں کو پس پشت ڈال کر عوام کے حقوق اور جمہوریت کے لیے پارٹی کے جھنڈے کو تھامے رکھا، کراچی میں ایسے کئی امیدوار ہیں جنہوں نے 2008 کا الیکشن جیت بھی لیا تھا ان کو اس وقت کی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام کیا گیا۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے موقف پر قائم رہے اور جدوجہد جاری رکھی۔
ضلع ملیر کے عوام ہمیشہ پی پی پی کے ساتھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لیاری کے بعد دوسرا بڑا پی پی پی کا سیاسی قلعہ ہے جہاں سے ایک قومی اسمبلی، دو صوبائی اسمبلی اور ایک خواتین کی مخصوص نشست پر صوبائی اسمبلی کے کارکن اور ایک وزیر اعلیٰ کے خصوصی معاون کے ساتھ حکومت میں بڑا حصہ ہے اور حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس ضلع کے ترقیاتی منصوبوں پر دو ارب روپے خرچ کیے ہیں لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آئے، آج بھی سڑکوں، سیوریج، صحت اور تعلیم جیسی سہولیات اس ضلع کا خواب ہے، جس کی بنیادی وجہ عوامی نمائندوں کی لوٹ مار اور اقربا پروری ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بددلی انتہا پر ہے۔
کہتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کا 30 فیصد حصہ ضلعی صدور کے ذریعے خرچ ہوتا ہے۔ لہٰذا ضلعی صدور کو اس انتخابات میں شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ عوام کو اس بات پر بھی شدید غصہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری فنڈز کے نامناسب استعمال نے پارٹی کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو ٹکٹ نہ جاری کیے جائیں جو کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ اس طرح صوبائی حکومت تنقید سے خود کو بچاتے ہوئے نئے امیدوار میدان میں لاکر ان امیدواروں سے پارٹی کی حفاظت کے عزم اور مایوس کارکنوں کو متحرک کرنے کا کام لیا جاسکتاہے۔
اس صورت حال میں جہاں پی پی پی ماضی کے برعکس حکومت کے 5 سال پورے کرنے کے بعد عوام میں جارہی ہے اس کو ایسے امیدواروں کا چناؤ انتہائی ضروری ہے جو بے داغ اور ماضی میں کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام سے دور ہوں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے مقابلتاً بہتر لوگ منتخب کرنے کی ایک نحیف تجویز اور تجزیہ ہے۔ اگر انتخابات کے ذریعے عوام کے مسائل حل ہوتے تو دنیا کے حکمران انتخابات پر کب کی پابندی لگاچکے ہوتے۔ ہر چند کہ ان انتخابات میں بہتری کی کوشش صرف نقش بر آب ثابت ہوں گے۔ مسائل کا مکمل اور حتمی حل محنت کشوں اور عام شہریوں کے انقلاب میں مضمر ہے، جہاں طبقات اور نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے ایک فطری امداد باہمی کا ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں کوئی صاحب جائیداد ہو اور نہ کوئی بھوکا مرے۔
گزشتہ پانچ سال میں بھی مفاہمت جیسے غیر واضح مبہم اور دھندلے تصور کے ساتھ حکومتیں بنائی گئیں اور تقریباً ان تمام جماعتوں کو جو وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی رکھتی تھیں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں اور حزب اختلاف تقریباً نہ ہونے کے برابر رہا۔ اقتدار کی بندربانٹ میں تو تمام سیاسی قوتیں ساتھ رہی ہیں اس کے باوجود پاکستان کے عوام کے معاشی مسائل جوں کے توں رہے۔ نہ روٹی ملی، نہ کپڑا، نہ مکان اور نہ ہی امن وامان۔ یہ ساری توقعات عوام نے پی پی پی کے ساتھ باندھ رکھی تھیں کیونکہ پی پی پی کی ہی عوامی بنیادیں ہیں۔
دیگر پارٹیاں یا تو درمیانہ طبقہ، تاجروں یا اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں لیکن پی پی پی نے بھی عوام کو مایوس کیا، اس کی بنیادی وجہ پی پی پی کی قیادت پر موقع پرست جاگیردارانہ طبقہ اور نو دولتیے قابض ہوگئے اور عوام سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا۔ پی پی پی کے حوالے سے عوام مایوس ضرور ہیں لیکن ابھی تک عوام اس پارٹی سے قطع تعلق نہیں ہوئے۔
ماضی میں آمریتیں نیک ناموں کو تلاش کرنے کے لیے کافی شہرت رکھتے تھے، لہٰذا عوام اور سیاسی فضا میں ایک خوف سا ہے کہ کہیں ان نیک ناموں کی عدم دستیابی غیر جمہوری قوتوں کے لیے کوئی اقتدار میں آنے کا جواز نہ بن جائے۔ سیاسی پارٹیاں ایسے امیدواروں کے تمام اوصاف پر کسی بھی رائے زنی سے احتراز کر رہی ہیں۔ انھیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو جیت سکیں خواہ وہ کسی بھی کردار کے حامل ہوں، تاہم پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انتخابات سے چند ہفتے پہلے یہ بیان دے کر کہ وہ کارکنوں کو بھی ٹکٹ دیں گے، پی پی پی میں غریب کارکنوں کے لیے امید کی صورت پیدا کردی ہے۔
آصف علی زرداری کے لیے دیہی حلقوں میں شاید یہ ممکن نہ ہو، لیکن پاکستان کے شہری حلقے اس پالیسی اعلان سے متاثر ہوں گے۔ ویسے بھی جاگیردار اور سرمایہ دار کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے لہٰذا وہ ایسے حلقوں میں قسمت آزمائی سے گریز کرتے ہیں جہاں پر ان کے جیتنے کے امکانات کم ہوں یا ان کا ذاتی ووٹ بینک کم ہو کیونکہ ان کی جیت کے بعد کسی نہ کسی طرح سیاست کی اس منڈی میں اپنی قیمت لگانی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اس طرح کے جوکھم میں نہیں پڑتا۔
پی پی پی کے کارکن آمریت کا دور ہو یا نیم جمہوری، ہر وقت نہ صرف پارٹی سے وفاداری کی بلکہ بے تحاشا قربانیاں بھی دیں، مگر مروجہ سیاست نے ان کو مایوس کیا، اس کے باوجود انھوں نے ذاتی مایوسیوں کو پس پشت ڈال کر عوام کے حقوق اور جمہوریت کے لیے پارٹی کے جھنڈے کو تھامے رکھا، کراچی میں ایسے کئی امیدوار ہیں جنہوں نے 2008 کا الیکشن جیت بھی لیا تھا ان کو اس وقت کی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام کیا گیا۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے موقف پر قائم رہے اور جدوجہد جاری رکھی۔
ضلع ملیر کے عوام ہمیشہ پی پی پی کے ساتھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لیاری کے بعد دوسرا بڑا پی پی پی کا سیاسی قلعہ ہے جہاں سے ایک قومی اسمبلی، دو صوبائی اسمبلی اور ایک خواتین کی مخصوص نشست پر صوبائی اسمبلی کے کارکن اور ایک وزیر اعلیٰ کے خصوصی معاون کے ساتھ حکومت میں بڑا حصہ ہے اور حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس ضلع کے ترقیاتی منصوبوں پر دو ارب روپے خرچ کیے ہیں لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آئے، آج بھی سڑکوں، سیوریج، صحت اور تعلیم جیسی سہولیات اس ضلع کا خواب ہے، جس کی بنیادی وجہ عوامی نمائندوں کی لوٹ مار اور اقربا پروری ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بددلی انتہا پر ہے۔
کہتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کا 30 فیصد حصہ ضلعی صدور کے ذریعے خرچ ہوتا ہے۔ لہٰذا ضلعی صدور کو اس انتخابات میں شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ عوام کو اس بات پر بھی شدید غصہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری فنڈز کے نامناسب استعمال نے پارٹی کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو ٹکٹ نہ جاری کیے جائیں جو کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ اس طرح صوبائی حکومت تنقید سے خود کو بچاتے ہوئے نئے امیدوار میدان میں لاکر ان امیدواروں سے پارٹی کی حفاظت کے عزم اور مایوس کارکنوں کو متحرک کرنے کا کام لیا جاسکتاہے۔
اس صورت حال میں جہاں پی پی پی ماضی کے برعکس حکومت کے 5 سال پورے کرنے کے بعد عوام میں جارہی ہے اس کو ایسے امیدواروں کا چناؤ انتہائی ضروری ہے جو بے داغ اور ماضی میں کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام سے دور ہوں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے مقابلتاً بہتر لوگ منتخب کرنے کی ایک نحیف تجویز اور تجزیہ ہے۔ اگر انتخابات کے ذریعے عوام کے مسائل حل ہوتے تو دنیا کے حکمران انتخابات پر کب کی پابندی لگاچکے ہوتے۔ ہر چند کہ ان انتخابات میں بہتری کی کوشش صرف نقش بر آب ثابت ہوں گے۔ مسائل کا مکمل اور حتمی حل محنت کشوں اور عام شہریوں کے انقلاب میں مضمر ہے، جہاں طبقات اور نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے ایک فطری امداد باہمی کا ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں کوئی صاحب جائیداد ہو اور نہ کوئی بھوکا مرے۔