سرگزشت
ایک طرف کچھ طوائفیں جمع ہو رہی تھیں، ان میں سب سے نمایاں نجو تھی۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے لکھا ہے کہ ''انسان کو سب سے زیادہ لگاؤ اپنی زندگی کے واقعات سے ہوتا ہے، بڑے سے بڑا ذہین انسان بھی دوسروں کی زندگی سے، ان کے خیالات اور ان کی سوچ سے اس قدر واقف نہیں ہوسکتا جتنا کہ وہ اپنی زندگی اور اپنی سوچ سے ہوتا ہے۔ جس انسان کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں اسے زندگی کی پیشکش سے واسطہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی توجہ اپنی زندگی ہی کی طرف مبذول ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کو پیش کرنا چاہتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی دباؤ کی بنا پر کچھ چھپانا بھی چاہتا ہے''۔
عبدالمجید سالک نے ''سرگزشت'' کے عنوان سے جب اپنی زندگی کے حالات لکھنے شروع کیے ہوں گے تو انھیں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا ہوگا۔ تاہم ان کی اس کتاب سے جو درحقیقت ایک دور کی معاشرتی، ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں ان کے ذاتی تاثرات ہیں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔ بقول چراغ حسن حسرت ''مصنف نے جو تحریکیں دیکھی ہیں، جن محفلوں میں بیٹھا ہے، جن لوگوں سے ملا ہے، ان کے حالات بڑے سیدھے سادے انداز میں بیان کرتا چلا گیا ہے، وہ اشارے کنائے کا سہارا بھی نہیں لیتا، جو کہتا ہے بڑی بے تکلفی سے کہتا ہے''۔
بعض لوگوں نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں اناد لاغیری کا نغمہ اس زور سے الاپا ہے کہ وہ جس زمانے کا حال بیان کرتے ہیں اس پر بظاہر چھائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ سالک کے ہاں نہ تو یہ کیفیت ہے کہ انھوں نے جن محفلوں اور صحبتوں کے نقشے کھینچے ہیں ان میں وہی صدر نشین نظر آئیں، نہ انھوں نے اتنا انکسار برتا ہے کہ ایک کونے میں دبکے بیٹھے رہیں اور کہیں دکھائی نہ دیں''۔لاہور میں مستقل طور پر آنے سے پہلے ہی سالک کی حکیم فقیر محمد چشتی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس دن سے ان کے جو تعلقات حکیم صاحب سے قائم ہوئے وہ ان کے انتقال کے دن تک قائم ہی نہیں روزافزوں بڑھتے رہے۔
حکیم نہایت حاذق اور ماہر طبیب تھے۔ اس کے ساتھ اعلیٰ درجے کے خطاط، خوش بیان شاعر اور انشاء پرداز تھے۔ سالک لکھتے ہیں ''ایک دفعہ میں اور حکیم صاحب موچی دروازے لاہور کے اندر ایک تقریب میں گئے، ابھی تقریب شروع نہیں ہوئی تھی، ایک طرف کچھ طوائفیں جمع ہو رہی تھیں، ان میں سب سے نمایاں نجو تھی۔ کھلا ہوا چمپئی رنگ، سر پر ایک سفید دوپٹہ جس کے کنارے پر چوڑا نقرئی لپا لگا تھا، حکیم صاحب نے اسے دیکھا اور مجھ سے کہنے لگے 'ذرا دیکھیے خمیرہ گاؤ زباں بہ ورق نقرہ پیچیدہ'۔ میں اس اچھوتی تشبیہہ پر پھڑک گیا''۔
سالک سید ممتاز علی کے ادارے ''دارالاشاعت'' میں کام کررہے تھے کہ ایک دن مولانا ظفر علی خاں نے انھیں بلوایا اور ان سے کہا کہ آپ ''زمیندار'' میں آجائیے، یہ ان کا اخبار تھا، سالک نے قبول کرلیا۔ انھوں نے مولانا ظفر علی خاں سے کہا کہ آج سے سات سال پہلے جب آپ انگلستان سے واپس آئے تھے اور آپ کا عظیم الشان جلوس نکلا تھا تو میں نے اﷲ سے دعا مانگی تھی کہ یا اﷲ! کوئی ایسا وقت آئے میں اس شخص کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کام کروں، آج وہ دعا قبول ہوئی۔ مولانا ظفر علی خاں یہ سن کر ہنس دیے، کہنے لگے ''لاحول ولا قوۃ۔ سالک صاحب! آپ نے قبول دعا کرنے کا ایک قیمتی لمحہ کس بے معنی خواہش کے لیے ضایع کردیا۔
اگر آپ انھی دنوں میرے پاس آجاتے تو میں آپ کو سات سال پہلے اپنی میز پر بٹھاکر اخبار مرتب کرانا شروع کردیتا''۔عبدالمجید سالک ''زمیندار'' کے چیف ایڈیٹر تھے، لیکن بڑے بڑے لیڈروں کے جلسے کی رپورٹنگ خود کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کے خیالات کو خوش اسلوبی کے ساتھ مسلمانوں تک پہنچانے کا فرض صرف ''زمیندار'' پر عائد ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ''بارہا ایسا ہوا کہ میں نے رات کے ایک بجے تک جلسے کی رپورٹ لی، اس کے بعد گھر پہنچ کر اس کو اخبار کے لیے مرتب کیا اور صبح چار بجے تک آٹھ نو کالم روداد مرتب کرکے رکھ دی۔ ان دنوں ''زمیندار'' صبح کو نہیں بلکہ تیسرے پہر شایع ہوا کرتا تھا کیونکہ رائٹر اور ایسوسی ایٹڈ کی خبریں براہ راست مہیا نہ کی جاتی تھیں بلکہ سول اینڈ ملٹری گزٹ سے لی جاتی تھیں، گویا جلسے کی کارروائی دوسرے دن دو تین بجے شایع ہوجاتی تھی''۔
تحریک آزادی کے دوران ایک موقع پر جب دہلی میں کانگریس کے تمام بڑے بڑے لیڈر جمع تھے وہاں مسز سر وجنی نائیڈو بھی تھیں، علامہ اقبال بھی تھے۔ انھیں علامہ اقبال سے خاص لگاؤ تھا۔ جب دہلی میں گاندھی جی اور علامہ کی ملاقات ہوئی تو سر وجنی دونوں کے تاثرات معلوم کرنے کے لیے بے چین تھیں کہ دیکھیں مشرق کے یہ دو عظیم انسان ایک دوسرے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں۔
سالک لکھتے ہیں ''جونہی ڈاکٹر اقبال گاندھی کے کمرے سے نکلے، سروجنی لپک کر ان کے پاس پہنچیں اور پوچھا کیوں ڈاکٹر صاحب! مہاتما جی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ ڈاکٹر اقبال کہنے لگے ہاں، گاندھی جی اچھے آدمی ہیں، کھانے پینے میں احتیاط کرتے ہیں اور تندرست رہتے ہیں، اپنی عمر کے اعتبار سے توانا ہیں، سروجنی بہت بھنائیں اور کہنے لگیں کہ میں نے تو ایک بڑے آدمی کے متعلق ایک بڑے آدمی کی رائے دریافت کی تھی لیکن آپ نے ہنسی میں اڑادیا، ڈاکٹر اقبال نے کہا ''سروجنی، گاندھی جی کے متعلق میری رائے یہی ہے جو میں نے تم کو بتادی''۔
سالک نے ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور سے اپنی ملاقات کا حال بھی لکھا ہے۔ ٹیگور فروری 1935 میں پنجاب آئے، ایک دن انھوں نے لاہور کے اخبار نویسوں کو ملاقات کے لیے بلایا۔ سالک سے غلام رسول مہر اور چراغ حسن حسرت بھی ملنے گئے۔ ڈاکٹر ٹیگور نے اخبار نویسوں سے الگ الگ ملاقات کی اور ان کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی۔ ڈاکٹر ٹیگور کے بارے میں سالک کے تاثرات یہ تھے کہ ''شاعر بے نظیر ہے، لیکن خیالات بالکل سطحی ہیں۔ اپنے سر اور داڑھی کے برف جیسے سفید بالوں، وجیہہ چہرے، کشیدہ قد اور جبہ و کلاہ کی وجہ سے شخصیت میں ایک خاص جاذبیت پیدا ہوگئی ہے''۔
نومبر 1921 میں عبدالمجید سالک گرفتار ہوکر جیل پہنچ گئے، ان پر مقدمہ چلا، الزام تھا کہ انھوں نے ''زمیندار'' کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ایسا مضمون لکھا جس سے ملکہ معظم کی رعایا کے دو طبقوں (ہندوستان اور انگریزوں) کے درمیان نفرت اور حقارت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی گرفتاری کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ''تھانہ نو لکھا میں انسپکٹر صاحب نے اپنے کمرے میں ہمیں بٹھایا، چائے اور پیسٹری منگوائی، کوئی دو گھنٹے بعد جب دوست احباب رخصت ہوگئے تو مجھے حوالات کی کوٹھری میں بند کردیا گیا، میرے دوست شفاعت اﷲ خاں نے میرا بستر، چند کتابیں، کچھ پان اور سگریٹ میرے لیے مہیا کردیے اور میں اس تنگ و تاریک کوٹھری میں بستر بچھا کر غافل سویا کہ اس سے قبل ایسی غفلت اور بے فکری کی نیند کبھی نہ آئی تھی، کوئی آدھی رات تک اخبار پڑھنے اور مضامین لکھنے کی مشقت سے نجات ہوگئی تھی۔
ایک آدھ دفعہ گھر والوں کی پریشانی اور آیندہ مشکلات کا خیال آیا لیکن دل نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اﷲ ان کا مالک اور رازق ہے وہ خود ہی بندوبست کرے گا''۔عبدالمجید سالک نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خاں کے اخبار ''زمیندار'' سے لیا۔ غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اپنا اخبار ''انقلاب'' جاری کیا جو برسوں ''چاند بن کر فضائے صحافت پر چمکتا رہا''۔ ان کی شہرت ان کے مزاحیہ کالم ''افکار و حوادث'' کی بدولت زیادہ ہوئی۔ سالک کا مطالعہ وسیع تھا۔ وہ جس محفل میں جا بیٹھتے اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے اسے باغ و بہار بنا دیتے، وہ اچھے شاعر تھے اور یہ شعر ان ہی کا ہے:
ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے
اپنے اس چالیس سالہ دور کی سرگزشت ختم کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''14 اگست کو پاکستان قائم ہوگیا، اس کے بعد کی سرگزشت لکھنا بے حد دشوار ہے، میں ابھی اپنے دل و دماغ اور اپنے قلم میں اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا اور بساط سیاست پر شاطرین نے جو چالیں چلیں ان کو قلم بند کرسکوں اور شاید اس سرگزشت کو فاش انداز سے لکھنا ممکن بھی نہیں''۔
عبدالمجید سالک نے ''سرگزشت'' کے عنوان سے جب اپنی زندگی کے حالات لکھنے شروع کیے ہوں گے تو انھیں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا ہوگا۔ تاہم ان کی اس کتاب سے جو درحقیقت ایک دور کی معاشرتی، ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں ان کے ذاتی تاثرات ہیں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔ بقول چراغ حسن حسرت ''مصنف نے جو تحریکیں دیکھی ہیں، جن محفلوں میں بیٹھا ہے، جن لوگوں سے ملا ہے، ان کے حالات بڑے سیدھے سادے انداز میں بیان کرتا چلا گیا ہے، وہ اشارے کنائے کا سہارا بھی نہیں لیتا، جو کہتا ہے بڑی بے تکلفی سے کہتا ہے''۔
بعض لوگوں نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں اناد لاغیری کا نغمہ اس زور سے الاپا ہے کہ وہ جس زمانے کا حال بیان کرتے ہیں اس پر بظاہر چھائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ سالک کے ہاں نہ تو یہ کیفیت ہے کہ انھوں نے جن محفلوں اور صحبتوں کے نقشے کھینچے ہیں ان میں وہی صدر نشین نظر آئیں، نہ انھوں نے اتنا انکسار برتا ہے کہ ایک کونے میں دبکے بیٹھے رہیں اور کہیں دکھائی نہ دیں''۔لاہور میں مستقل طور پر آنے سے پہلے ہی سالک کی حکیم فقیر محمد چشتی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس دن سے ان کے جو تعلقات حکیم صاحب سے قائم ہوئے وہ ان کے انتقال کے دن تک قائم ہی نہیں روزافزوں بڑھتے رہے۔
حکیم نہایت حاذق اور ماہر طبیب تھے۔ اس کے ساتھ اعلیٰ درجے کے خطاط، خوش بیان شاعر اور انشاء پرداز تھے۔ سالک لکھتے ہیں ''ایک دفعہ میں اور حکیم صاحب موچی دروازے لاہور کے اندر ایک تقریب میں گئے، ابھی تقریب شروع نہیں ہوئی تھی، ایک طرف کچھ طوائفیں جمع ہو رہی تھیں، ان میں سب سے نمایاں نجو تھی۔ کھلا ہوا چمپئی رنگ، سر پر ایک سفید دوپٹہ جس کے کنارے پر چوڑا نقرئی لپا لگا تھا، حکیم صاحب نے اسے دیکھا اور مجھ سے کہنے لگے 'ذرا دیکھیے خمیرہ گاؤ زباں بہ ورق نقرہ پیچیدہ'۔ میں اس اچھوتی تشبیہہ پر پھڑک گیا''۔
سالک سید ممتاز علی کے ادارے ''دارالاشاعت'' میں کام کررہے تھے کہ ایک دن مولانا ظفر علی خاں نے انھیں بلوایا اور ان سے کہا کہ آپ ''زمیندار'' میں آجائیے، یہ ان کا اخبار تھا، سالک نے قبول کرلیا۔ انھوں نے مولانا ظفر علی خاں سے کہا کہ آج سے سات سال پہلے جب آپ انگلستان سے واپس آئے تھے اور آپ کا عظیم الشان جلوس نکلا تھا تو میں نے اﷲ سے دعا مانگی تھی کہ یا اﷲ! کوئی ایسا وقت آئے میں اس شخص کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کام کروں، آج وہ دعا قبول ہوئی۔ مولانا ظفر علی خاں یہ سن کر ہنس دیے، کہنے لگے ''لاحول ولا قوۃ۔ سالک صاحب! آپ نے قبول دعا کرنے کا ایک قیمتی لمحہ کس بے معنی خواہش کے لیے ضایع کردیا۔
اگر آپ انھی دنوں میرے پاس آجاتے تو میں آپ کو سات سال پہلے اپنی میز پر بٹھاکر اخبار مرتب کرانا شروع کردیتا''۔عبدالمجید سالک ''زمیندار'' کے چیف ایڈیٹر تھے، لیکن بڑے بڑے لیڈروں کے جلسے کی رپورٹنگ خود کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کے خیالات کو خوش اسلوبی کے ساتھ مسلمانوں تک پہنچانے کا فرض صرف ''زمیندار'' پر عائد ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ''بارہا ایسا ہوا کہ میں نے رات کے ایک بجے تک جلسے کی رپورٹ لی، اس کے بعد گھر پہنچ کر اس کو اخبار کے لیے مرتب کیا اور صبح چار بجے تک آٹھ نو کالم روداد مرتب کرکے رکھ دی۔ ان دنوں ''زمیندار'' صبح کو نہیں بلکہ تیسرے پہر شایع ہوا کرتا تھا کیونکہ رائٹر اور ایسوسی ایٹڈ کی خبریں براہ راست مہیا نہ کی جاتی تھیں بلکہ سول اینڈ ملٹری گزٹ سے لی جاتی تھیں، گویا جلسے کی کارروائی دوسرے دن دو تین بجے شایع ہوجاتی تھی''۔
تحریک آزادی کے دوران ایک موقع پر جب دہلی میں کانگریس کے تمام بڑے بڑے لیڈر جمع تھے وہاں مسز سر وجنی نائیڈو بھی تھیں، علامہ اقبال بھی تھے۔ انھیں علامہ اقبال سے خاص لگاؤ تھا۔ جب دہلی میں گاندھی جی اور علامہ کی ملاقات ہوئی تو سر وجنی دونوں کے تاثرات معلوم کرنے کے لیے بے چین تھیں کہ دیکھیں مشرق کے یہ دو عظیم انسان ایک دوسرے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں۔
سالک لکھتے ہیں ''جونہی ڈاکٹر اقبال گاندھی کے کمرے سے نکلے، سروجنی لپک کر ان کے پاس پہنچیں اور پوچھا کیوں ڈاکٹر صاحب! مہاتما جی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ ڈاکٹر اقبال کہنے لگے ہاں، گاندھی جی اچھے آدمی ہیں، کھانے پینے میں احتیاط کرتے ہیں اور تندرست رہتے ہیں، اپنی عمر کے اعتبار سے توانا ہیں، سروجنی بہت بھنائیں اور کہنے لگیں کہ میں نے تو ایک بڑے آدمی کے متعلق ایک بڑے آدمی کی رائے دریافت کی تھی لیکن آپ نے ہنسی میں اڑادیا، ڈاکٹر اقبال نے کہا ''سروجنی، گاندھی جی کے متعلق میری رائے یہی ہے جو میں نے تم کو بتادی''۔
سالک نے ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور سے اپنی ملاقات کا حال بھی لکھا ہے۔ ٹیگور فروری 1935 میں پنجاب آئے، ایک دن انھوں نے لاہور کے اخبار نویسوں کو ملاقات کے لیے بلایا۔ سالک سے غلام رسول مہر اور چراغ حسن حسرت بھی ملنے گئے۔ ڈاکٹر ٹیگور نے اخبار نویسوں سے الگ الگ ملاقات کی اور ان کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی۔ ڈاکٹر ٹیگور کے بارے میں سالک کے تاثرات یہ تھے کہ ''شاعر بے نظیر ہے، لیکن خیالات بالکل سطحی ہیں۔ اپنے سر اور داڑھی کے برف جیسے سفید بالوں، وجیہہ چہرے، کشیدہ قد اور جبہ و کلاہ کی وجہ سے شخصیت میں ایک خاص جاذبیت پیدا ہوگئی ہے''۔
نومبر 1921 میں عبدالمجید سالک گرفتار ہوکر جیل پہنچ گئے، ان پر مقدمہ چلا، الزام تھا کہ انھوں نے ''زمیندار'' کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ایسا مضمون لکھا جس سے ملکہ معظم کی رعایا کے دو طبقوں (ہندوستان اور انگریزوں) کے درمیان نفرت اور حقارت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی گرفتاری کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ''تھانہ نو لکھا میں انسپکٹر صاحب نے اپنے کمرے میں ہمیں بٹھایا، چائے اور پیسٹری منگوائی، کوئی دو گھنٹے بعد جب دوست احباب رخصت ہوگئے تو مجھے حوالات کی کوٹھری میں بند کردیا گیا، میرے دوست شفاعت اﷲ خاں نے میرا بستر، چند کتابیں، کچھ پان اور سگریٹ میرے لیے مہیا کردیے اور میں اس تنگ و تاریک کوٹھری میں بستر بچھا کر غافل سویا کہ اس سے قبل ایسی غفلت اور بے فکری کی نیند کبھی نہ آئی تھی، کوئی آدھی رات تک اخبار پڑھنے اور مضامین لکھنے کی مشقت سے نجات ہوگئی تھی۔
ایک آدھ دفعہ گھر والوں کی پریشانی اور آیندہ مشکلات کا خیال آیا لیکن دل نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اﷲ ان کا مالک اور رازق ہے وہ خود ہی بندوبست کرے گا''۔عبدالمجید سالک نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خاں کے اخبار ''زمیندار'' سے لیا۔ غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اپنا اخبار ''انقلاب'' جاری کیا جو برسوں ''چاند بن کر فضائے صحافت پر چمکتا رہا''۔ ان کی شہرت ان کے مزاحیہ کالم ''افکار و حوادث'' کی بدولت زیادہ ہوئی۔ سالک کا مطالعہ وسیع تھا۔ وہ جس محفل میں جا بیٹھتے اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے اسے باغ و بہار بنا دیتے، وہ اچھے شاعر تھے اور یہ شعر ان ہی کا ہے:
ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے
اپنے اس چالیس سالہ دور کی سرگزشت ختم کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''14 اگست کو پاکستان قائم ہوگیا، اس کے بعد کی سرگزشت لکھنا بے حد دشوار ہے، میں ابھی اپنے دل و دماغ اور اپنے قلم میں اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا اور بساط سیاست پر شاطرین نے جو چالیں چلیں ان کو قلم بند کرسکوں اور شاید اس سرگزشت کو فاش انداز سے لکھنا ممکن بھی نہیں''۔