بادشاہیاں بدل رہی ہیں
مسلمان ملکوں کی بادشاہیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو کہ بدلتے وقت کے ساتھ بدلتی جا رہی ہے
نہ منزل کی خبر نہ ہی سمت کا کوئی اندازہ پھر بھی چلے جا رہے ہیں اس موہوم سی امید کے ساتھ کہ کہیں نہ کہیں تو پہنچ ہی جائیں گے لیکن ہوش و خرد والے تو یوں نہیں کرتے۔
آغاز سفر سے پہلے منزل کا تعین اور زاد راہ بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں کہ نہ جانے راستے میں حالات کیا ہو جائیں اور کس چیز کی ضرورت پڑ جائے لیکن ہمارے ہاں کسی کو کسی بھی چیز کا کوئی ہوش نہیں بس ہم سب ایک نامعلوم منزل کے مسافر ہیں اور وہ نامعلوم منزل پچھلے ستر برس سے آہی نہیں رہی بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہم منزل تک پہنچنا ہی نہیں چاہ رہے ورنہ اتنی بھی کوئی مشکل نہیں تھی کہ کئی دہائیاں گزارنے کے بعد بھی منزل کا پتہ پوچھا جاتا، بات صرف مصمم ارادے کی ہے، اگر ارادے پختہ اور نیت ٹھیک ہو تومنزل کا مشکل حصول بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن ہم منزل کے بجائے اپنی بادشاہیاں بچانے میں لگے رہتے ہیں اور منزل کو دور کر بیٹھتے ہیں۔ پتہ تب چلتا ہے جب نہ منزل تک پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی بادشاہی قائم رہتی ہے یعنی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
جب بھی ہماری کوئی حکومت ڈولنے یا کمزور پڑنے لگتی ہے تو ملک میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے یا کر دی جاتی ہے تاکہ اسی گو مگو کی کیفیت میں حکومت کو رخصت کر دیا جائے۔ ہمارے دیہاتی بزرگ جو کہ پرانے وقتوں کی حکومتوں کے آنے جانے کے گواہ رہے ہیں ان کی زبانی بعض اوقات بڑی دلچسپ معلومات ملتی ہیں یہ یقین نہیں آتا کہ دور افتادہ علاقوںکے مکین بھی اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں گے یا ان کی معلومات تک اتنی زیادہ رسائی بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی فقیرانہ باتیں ہمارے آج کل کے حالات کے عین مطابق ہوتی ہیں ۔ انھی دیہاتی بزر گوں کا کہنا ہے کہ جب حکومت بدلنے کا وقت آتا ہے تو زبر دست ہڑبونگ مچتا ہے کیونکہ حکومت نے اتنے زیادہ پر پُرزے پھیلا رکھے ہوتے ہیں کہ آنے والے کے لیے انھیں سمیٹنا مشکل ہوتا ہے اور جب کوئی انھیں سمیٹتا ہے تو اس کھینچا تانی میں تکلیف بہت ہوتی ہے۔ بادشاہیاں بدلنے کے وقت بڑی افراتفری مچتی ہے اور خون خرابا بھی ہوتا ہے یہ ان بزرگوں کی باتیں ہیں جنہوں نے اپنے ہاں سکھوں کی بادشاہی آتے جاتے دیکھی تھی اور سکھا شاہی کے مزے چکھے تھے ۔
بادشاہیاں بدلنے کے لیے اس اذیت ناک عمل کو آسان اور پُرامن بنانے کے لیے انسانوں نے اپنے زندگی بھر کے تجربوں سے جو طریقے وضع کیے ان میں جمہوریت اور اس کے تحت انتخابات ایک آزمودہ اور پُرامن طریقہ قرار پایا ہے جس میں عوام اپنی مرضی سے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ایک معینہ مدت کے لیے ان اچھے برے حکمرانوں کو آزماتے ہیں۔ بادشاہی کی تبدیلی کا یہ عمل ایک زندگی بخش اور عوام دوست عمل ہے، شرط یہ ہے کہ اس پر جمہوری طریقے سے عمل کیا جائے۔
بات اس ہڑبونگ سے شروع ہوئی تھی جو کہ بادشاہی بدلنے کے وقت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو وقت سے پہلے ہی بادشاہی کی تبدیلیوں کا ایسا رواج چل نکلا ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنی معینہ آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہو تو ملک بھر میں ایک بے چینی سی پھیل جاتی ہے اور چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس بار بھی حکومت کو درپیش ہے حالانکہ ہماری موجودہ حکومت ایک بار پھر دوتہائی اکثریت کے ساتھ بر سر اقتدار آئی تھی لیکن یہ اکثریت ہضم نہیں کر پائی اور اپنے ہی پیدا کردہ مسائل میں اپنے آپ کو مشکلات کا شکار کر لیا ہے اور ان گوناگوں نئے مسائل کے ساتھ پرانے مسائل نے بھی سراٹھانا شروع کر دیا ہے جو کہ موجودہ مسائل سے زیادہ گھمبیر نظر آتے ہیں۔ ایسے میں بیرونی خطرات بھی لاحق ہوگئے ہیں اور جب پڑوسی بادشاہ کمزوریاں دیکھتے ہیں تو ان کو بھی اکساہٹ ہوتی ہے وہ بھی اپنے ہمسائے کے خلاف مہم جوئی کا سوچنے لگتے ہیں۔
مسلمان ملکوں کی بادشاہیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو کہ بدلتے وقت کے ساتھ بدلتی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران کئی مسلمان ممالک سے امریکا بہادر نے بادشاہیاں ہی ختم نہیں کی بلکہ ان ہنستے بستے ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور ان کے عوام کو بے گھر کر دیا۔ امریکا کا تازہ حملہ سعودی عرب میں جاری ہے جہاں پر اس نے اپنی مرضی کی بادشاہت قائم کرنے کے لیے پہلے تومبینہ طور پر ولی عہد کو تبدیل کرایا اور بعد میں شاہی خاندان کے اہم اور بااثر ترین شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا۔
ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی دولت کے بل بوتے پر کئی ملکوں کی معیشتوں کا انحصار ہے لیکن ان عربوں کو کون سمجھائے کہ یہ معاملہ صرف بادشاہی بدلنے کا نہیں بلکہ صیہونی طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ سعودی عرب کی مقدس سر زمین ہے جس کی حفاظت میں مسلمانان عالم کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی نہایت کلیدی کردار ہے۔ بات سمجھنے کی ہے کہ دونوں برادر مسلمان ممالک میں سیاسی عدم استحکام کس کے مفاد میں ہے اس سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بادشاہیاں تو بدلتی رہتی ہیں اور ایک نہ ایک دن ان کو بدلنا ہی ہوتا ہے لیکن اگر مناسب وقت اور اپنی مرضی سے یہ تبدیلی ہو تو پُرامن بھی ہوتی ہے اور کسی قسم کی ہڑبونگ بھی نہیں مچتی ورنہ یہ ایک تباہی اور قومی بے چینی کا سبب بن جاتی ہے۔