انسانی تاریخ کا بد ترین نظام

اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا تو ہماری دنیا یعنی کرۂ ارض ابھی تین ارب سال باقی رہ سکتا ہے


Zaheer Akhter Bedari November 15, 2017
[email protected]

ماہرین ارض کا ماننا ہے کہ کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہوچکے ہیں اور اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا تو ہماری دنیا یعنی کرۂ ارض ابھی تین ارب سال باقی رہ سکتا ہے۔

چار ارب سالوں کے دوران کرۂ ارض بانجھ ہی رہا یا انسان اور انسانی تہذیبیں آتی رہیں اور مٹتی رہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ماہرین ارض ابھی تک تلاش نہ کرسکے۔ کرۂ ارض پر انسان کی معلوم تاریخ 10،12 ہزار سال پر مشتمل ہے لیکن اس مختصر تاریخ کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہ پورا عرصہ دو عذابوں میں گزرتا رہا، ایک عذاب یہ رہا کہ دنیا کسی نہ کسی حوالے سے جنگوں کا شکار رہی اور زمین انسانوں کے خون سے سرخ ہوتی رہی، دوسرا عذاب یہ رہا کہ ہمیشہ انسان طبقوں میں بٹا رہا اور طبقات کی تقسیم بھی انسان کی پیدا کردہ رہی لیکن شاطر انسان نے اس 90/2 کی تقسیم کو قسمت کا نام دے کر دنیا کے 90 فی صد سے زیادہ غریب اور نادار طبقے کو استحصالی طبقات کے خلاف جنگ کرنے سے روکتا رہا۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں سالوں سے کرۂ ارض پر طبقاتی مظالم جاری ہیں دنیا کا کوئی مدبر، کوئی مفکر،کوئی دانشور،کوئی سیاست دان طبقاتی سماج کے خلاف کوئی حل پیش نہ کرسکا۔

دنیا میں مارکس اور اینجلز دو ایسے مفکرین تھے جنھوں نے طبقاتی سماج کے خاتمے کے لیے ایک بہترین متبادل پیش کیے اس متبادل کا نام انھوں نے سوشلزم تجویزکیا۔ انسانی سماج غلام داری نظام سے پہلے پتھرکے دور سے گزرچکا تھا اس دورکا انسان غاروں، درختوں وغیرہ پر رہتا تھا اور شکار اور جنگلی پھلوں وغیرہ سے اپنا پیٹ بھرتا تھا شکار کے لیے وہ پتھر کے اوزار سے کام لیتا تھا۔

پتھر کے دور کے بعد دستیاب معلومات کے مطابق غلام داری نظام وجود میں آیا، کمزور انسانوں کو طاقتور انسان خریدتے اور بیچتے رہے یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا اس کے بعد ذاتی ملکیت کا تصور ابھرا اس تصور میں بھی انسان طبقات میں بٹا رہا جاگیردارانہ سماج کی سرپرستی شخصی حکمرانوں نے کی، بادشاہ، شہنشاہ، راجے مہاراجے حکمران رہے اور انسانوں کی 90 فی صد سے زیادہ آبادی بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کی رعیت بنی رہی، یوں طبقاتی نظام چلتا رہا۔ اس کے بعد دنیا کے چالاک اور عیار لوگوں نے دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام متعارف کرایا اس نظام نے انسانوں کی طبقاتی تقسیم کو اس قدر مستحکم کردیا کہ آج ساری دنیا اس ہولناک طبقاتی تقسیم میں جکڑی ہوئی ہے۔

1917 میں مارکس اور اینجلز کے اقتصادی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے لینن نے سوشلسٹ معیشت کا نظام رائج کیا اور انسانی سماج کو طبقاتی جکڑ بندیوں سے نجات دلائی چونکہ اس نظام میں ارتکاز زرکو روک دیا گیا تھا یعنی سماج کا کوئی طبقہ اربوں کھربوں کی دولت کا مالک نہیں بن سکتا تھا۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے سوشلزم کے خلاف ایک طوفانی تحریک چلائی کیونکہ دنیا کا غریب اور نادار طبقہ تیزی سے سوشلزم کی طرف مائل ہورہا تھا اور 50 سال کی مختصر مدت میں دنیا کا ایک تہائی حصہ سوشلزم کو قبول کرچکا تھا۔

سوشلزم کی دنیا کے عوام میں بڑھتی ہوئی پذیرائی سے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں اور یہ گروہ ہر قیمت پر سوشلسٹ نظام کو ناکام بنانا چاہتے تھے اس مہم میں ایک طرف تو ان شیطانوں نے سرد جنگ کا آغاز کیا اور ایک منظم طریقے سے سوشلسٹ بلاک کے وسائل کو سرد جنگ میں ضایع کراتے رہے اور دوسری طرف ایک منظم اور مربوط انداز میں سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھایاگیا۔ کرۂ ارض پر رہنے والا انسان اپنی ذہنی تسکین کے لیے مذاہب کو مانتا رہا ہے اور مذاہب انسانوں کے انتہائی جذباتی سرمایہ رہے۔

سو سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں نے انسانوں کی اس کمزوری کو استعمال کرتے ہوئے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ سوشلزم ایک لادینی نظام ہے، یہ پروپیگنڈا خاص طور پر تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں میں اس شدت سے کیا گیا کہ عوام کا اس سے متاثر ہونا فطری تھا۔ اس حربے کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے سرپرست امریکا نے پسماندہ ممالک کو اقتصادی امداد دینا شروع کی، پسماندہ ملکوں کے عوام کے لیے یہ ایک رشوت تھی۔ پاکستان کو بھی کولمبو پلان کے تحت بھاری مالی امداد دی گئی اور پاکستان میں اس امداد سے صنعتی ترقی شروع ہوئی، پسماندہ ملکوں کے لیے یہ امداد بڑی حوصلہ افزا تھی اگر یہ خلوص نیت سے دی جاتی لیکن یہ امداد خلوص نیت سے نہیں دی جارہی تھی بلکہ اس کا مقصد پسماندہ ممالک میں سوشلزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ سرد جنگ کو اسٹار وار تک اس طرح بڑھادیا گیا کہ سوشلسٹ ملکوں کے وسائل سرد جنگ میں زائل ہوتے رہے یوں سوشلسٹ بلاک کو منہدم کرادیاگیا۔

اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ دنیا کا کوئی نظام نہ مکمل ہوتا ہے نہ حریف آخر بلکہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے ۔ یہ سوشلسٹ ممالک کی کمزوری رہی کہ وہ سوشلسٹ نظام کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرسکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ بلاک کا سربراہ ملک روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق خطرہ دور ہوگیا۔

دنیا کا ایک بڑا مسئلہ جنگیں ہیں کرۂ ارض پر انسانی تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے اور جب سے سرمایہ دارانہ نظام متعارف ہوا ہے جنگیں اس کی ضرورت بنی ہوئی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا محرک منافع ہے، لا محدود منافع ہی سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا حربہ اور ترغیب ہے۔ جنگ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر ضرورت ہے۔ کیونکہ اسلحے کی صنعت سے سرمایہ دار طبقہ کھربوں کا منافع کما رہا ہے اور جنگوں کی ترغیب کے لیے سرمایہ داروں نے بڑے بڑے ماہر پال رکھے ہیں۔ آج اب کرۂ ارض پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر طرف جنگوں کے شعلے، جنگوں کے امکانات ہی نظر آئیںگے ہندوستان پاکستان کو دیکھ لیں، چین اور ہندوستان پر نظر ڈالیں، امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات کو دیکھیں، فلسطین میں ہونے والے خون خرابے پر نظر ڈالیں ہر طرف جنگیں ہیں یا جنگوں کا خوف جنگوں کی تیاری ہے یہ سب انسان کا کیا دھرا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کا دانشور مفکر فلسفی قلمکار، سماج کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسی دنیا جہاں بے پناہ طبقاتی استحصال ہے جنگیں ہیں، ہتھیاروں کی تیاری تجارت ہے کیا ایسی دنیا کو تبدیلی کی ضرورت نہیں؟ کہاں ہیں ترقی پسند معاشی ماہرین، دانشور، مفکر، فلسفی؟ کیا دنیا ان ماہرین سے خالی ہوگئی ہے یا یہ لوگ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی دھند میں چھپ گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں