عورتوں کا بین الاقوامی دن
عورتیں آج بھی گھریلو تشدد سے لے کر زنا بالجبر تک مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ عورتوں کے مساوی حقوق میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید تبدیلی کے لیے کوشاں رہتے ہوئے امسال بھی ہم عورتوں کی کامیابی کا جشن منائیں گے۔ ہر سال دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ امسال کا موضوع ہے، صنفی ایجنڈا رفتار پکڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کمیشن برائے وقار نسواں 1975 سے عورتوں کی عالمی کانفرنسیں منعقد کرا رہا ہے۔ پہلی کانفرنس میکسکو میں، دوسری کوپن ہیگن 80ء، تیسری نیروبی 1987 جب کہ عورتوں کی چوتھی عالمی کانفرنس 1995 میں بیجنگ میں منعقد ہوئی۔ بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں عورتوں کے لیے بارہ شعبوں میں کام کرنے پر زور دیا گیا۔
مساوات کے حصول کے لیے عورتوں کی جدوجہد کا سہرا کسی ایک عورت یا تنظیم کے سر نہیں باندھا جاسکتا بلکہ اس میں ان گنت افراد اور تنظیموں کی کاوشیں شامل ہیں۔ وقت گزرنے کا ساتھ عورتوں کے مساوی حقوق کی مہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں مزید پائیدار تبدیلی کے لیے چوکس رہنا ہوگا۔ اس وقت عالمی طور پر عورتوں کی مساوات کے لیے آواز بلند کی جارہی ہے۔ اس مثبت تبدیلی کے باوجود آج بھی دنیا کے ایک اعشاریہ تین انتہائی غریب افراد میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ آج بھی عورتوں کو مردوں کے مقابلے تیس تا چالیس فی صد کم معاوضہ ملتا ہے۔
عورتیں آج بھی گھریلو تشدد سے لے کر زنا بالجبر تک مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اکیڈمک سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں آج بھی عورتوں کی تعداد کم ہے۔ مختلف طرح کے تعصبات اور فرسودہ پالیسیوں کے باوجود کچھ خواتین سائنس کے میدان میں بھی خود کو منوانے میں کامیاب رہی ہیں، مثال کے طور پر 1946 میں پیدا ہونے والی ٹرنیڈاڈ کی گریس سرجو چرن نے پلانٹ بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی اور اب وہ اپنے مضمون میں تدریس اور تحقیق میں مشغول ہیں۔ انھوں نے بہت سے اعزازات حاصل کیے ہیں اور مختلف سرکاری کمیشنوں اور جامعات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہی ہیں۔
پاکستان کی بینا شاہین صدیقی نے بھی ڈاکٹرسلیم الزماںصدیقی کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کرنے کے بعد میڈیسن اور زراعت کے شعبے میں گراں قدر تحقیق کی ہے۔ وہ تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز کے علاوہ ایران کا خوارزمی انٹرنیشنل ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ اسی طرح 2011 میں پاکستان کی ڈاکٹر فرزانہ شاہین کو افریقہ، مشرق وسطیٰ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی گیارہ باصلاحیت خواتین سائنسدانوں میں شامل کیا گیا، ان کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے ہے۔ مریم سلطانہ نے بھی کراچی یونیورسٹی سے پڑھا اور وہ آسٹرو فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون ہیں۔
شرمین عبید چنائے نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی دستاویزی فلم پر آسکر ایورڈ جیتا۔ سنبل سید نے او لیول امتحان میں انگریزی ادب میں اول پوزیشن حاصل کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ مرحومہ ارفع کریم رندھاوا مائیکرو سوفٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والی دنیا کی سب سے کم عمر لڑکی تھی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر پاکستان اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔ افواج پاکستان میں دو لیڈی ڈاکٹرز نے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پائی۔ ان روشن مثالوں کے باوجود انسانی ترقی کی مختلف عالمی رپورٹوں میںپاکستان کی پوزیشن کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی۔
135 ممالک میں کیے جانے والے صنفی تفاوت کے سروے میں پاکستان کا نمبر 134 ہے۔ حالانکہ پاکستانی خواتین کو 1947 سے حق رائے دہی حاصل رہا ہے، ایوب خان کے زمانے میں انھوں نے اپنے لیے عائلی قوانین بنوانے میں کامیابی حاصل کی۔ بھٹو 1970-1977 کے دور میںخواتین کو سازگار ماحول میسر آیا۔ قومی اسمبلی میں ان کے لیے دس فیصد اور صوبائی اسمبلیوں میں پانچ فی صد کوٹہ رکھا گیا۔ 1973 کے آئین میں صنفی مساوات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا۔ اس کے بعد ضیاالحق کے دور میں اسلامائزیشن کے نام پر عورتوں کے لیے امتیازی اور تفریقی قوانین بنائے گئے۔
عورتوں کے کھیلوں پر پابندی لگا دی گئی اور پردے کو فروغ دیا گیا۔ آئین میں موجود بنیادی حقوق کو معطل کردیا گیا لیکن عورتوں کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے گئے۔ کیبنٹ سیکریٹریٹ میں ویمن ڈویژن قائم کیا گیا۔ چھٹے منصوبے میں پہلی مرتبہ عورتوں کی ترقی پر ایک باب شامل کیا گیا۔ 1985 کی مجلس شوریٰ میں عورتوں کا کوٹہ بیس فی صد کردیا گیا۔1988 کی انتخابی مہم میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کے مسائل اٹھائے۔ انھوں نے ویمن پولیس اسٹیشن، کورٹس اور فرسٹ ویمن بینک قائم کیا۔ انھوں نے امتیازی قوانین منسوخ کرنے کا بھی وعدہ کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ایسا نہ کرپائیں۔
1997 میں نواز شریف کی حکومت نے اسلامی قانونی نظام کے لیے آئین میں پندرھویں ترمیم کی تجویز پیش کی لیکن خواتین، انسانی حقوق کے گروپس اور حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور حدود قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔ پرویز مشرف کے دورمیں عورتوں کی ترقی کی وزارت کو خودمختار وزارت کا درجہ دیا گیا۔ ویمنز پروٹیکشن بل حالیہ عرصے میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے بہت کام ہوا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ابھی بھی عورتیں دنیا بھرمیں کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انھیں مردوں کے مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہو گئے ہیں۔
دنیا کے ایک اعشاریہ تین ارب انتہائی غریب عوام کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے۔ عورتوں کو مساوی کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں تیس تا چالیس فی صد کم معاوضہ ملتا ہے۔ دنیا بھر میں عورتوں کی اموات یا معذوری کی وجوہات میں سرفہرست ان پر ہونے والا تشدد ہے جس میں گھریلو تشدد سے لے کر زنا بالجبر تک شامل ہے۔2006 میں پاس کیا گیا۔ مقامی حکومتوں میں عورتوں کو 33 فی صد کوٹہ دیا گیا۔ آصف زرداری کی حکومت نے عورتوں کے حق میں بہت سے قوانین بنائے۔ (بشکریہ، وکی پیڈیا)
صنفی مساوات کی بات عام طور پر انسانی حقوق یا سماجی انصاف کے حوالے سے کی جاتی ہے مگر اس کا تعلق اقتصادیات سے بھی ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال میں ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کارکنوں کی تعداد میں اضافے سے عالمی نمو یا گروتھ میں جو اضافہ ہوا وہ چین کے بے مثال ریکارڈ سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں خواتین زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اگر پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک کی لیبر فورس میں عورتوں کی تعداد بڑھ جائے تو ان ممالک کی ترقی کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔
یہاں بات روایتی صنفی کرداروں کی آجاتی ہے کہ ہم نے کچھ کردار مردوں کے لیے مخصوص کردیے ہیں اور کچھ عورتوں کے لیے، اور ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ یہ کردار قدرتی نہیں بلکہ سماج کے بنائے ہوئے ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کبھی جنگلوں اور غاروں میں بھی تو رہتا تھا، پھر اس نے پتھروں کو رگڑ کر آگ جلانا سیکھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس نے پہیہ ایجاد کیا اور یوں ایجادات کا سلسلہ چل نکلا۔ آج ہم ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ، جینیاتی انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خلائی سائنس کے عہد میں زندہ ہیں لیکن مردوں اور عورتوں کے روایتی سماجی کرداروں اور ذمے داریوں کو بدلنے پر آمادہ نہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!!
مرد اور عورت کے حوالے سے دہرے معیارات کا قصہ بہت پرانا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ کردار ہزاروں سال پہلے مختص کردیے گئے تھے، گو کہ زمانہ بدل چکا ہے لیکن مرد حضرات آج بھی عورت اور مرد کے روایتی کردار کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ عورت خلا کا چکر لگا آئے، دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرلے، سائنس کی پیچیدہ گتھیاں سلجھا لے، فنون لطیفہ کے شاہکار تخلیق کرلے، بینکوں اور کاروباری اداروں کی سربراہ بن جائے مگر مردوں کا خاص طور پر پاکستان میں یہی اصرار ہوتا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی عورت تو باورچی خانے میں گھس جائے اور مرد پلنگ پر آرام فرمائے یعنی گھریلو ذمے داریاں عورت ہی سنبھالے۔
مرد ان ذمے داریوں میں ہاتھ بٹانے کے لیے قطعی تیار نہیں جب کہ عورت اس کے ساتھ مل کے معاشی ذمے داریاں اٹھا رہی ہے اور اپنے بچوں کو ایک بہتر معیار زندگی دے رہی ہے۔ مرد اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیںکہ انھیں جس کردار کی بنا پر برتری حاصل تھی، اب وہ کردار عورت بھی نبھا رہی ہے۔ میرے خیال سے دنیا بھر میں تحریک نسواں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ مرد کو گھریلو ذمے داریوں میں ہاتھ بٹانے پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ اسے یہ کیسے سمجھایا جائے کہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں، اگر دونوں جسمانی طور پر مختلف ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک برتر ہے اور دوسرا کم تر۔
محاورہ بہت پرانا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرد اور عورت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے دونوں پہیوں کا یکساں رفتار سے چلنا ضروری ہے۔
مساوات کے حصول کے لیے عورتوں کی جدوجہد کا سہرا کسی ایک عورت یا تنظیم کے سر نہیں باندھا جاسکتا بلکہ اس میں ان گنت افراد اور تنظیموں کی کاوشیں شامل ہیں۔ وقت گزرنے کا ساتھ عورتوں کے مساوی حقوق کی مہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں مزید پائیدار تبدیلی کے لیے چوکس رہنا ہوگا۔ اس وقت عالمی طور پر عورتوں کی مساوات کے لیے آواز بلند کی جارہی ہے۔ اس مثبت تبدیلی کے باوجود آج بھی دنیا کے ایک اعشاریہ تین انتہائی غریب افراد میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ آج بھی عورتوں کو مردوں کے مقابلے تیس تا چالیس فی صد کم معاوضہ ملتا ہے۔
عورتیں آج بھی گھریلو تشدد سے لے کر زنا بالجبر تک مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اکیڈمک سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں آج بھی عورتوں کی تعداد کم ہے۔ مختلف طرح کے تعصبات اور فرسودہ پالیسیوں کے باوجود کچھ خواتین سائنس کے میدان میں بھی خود کو منوانے میں کامیاب رہی ہیں، مثال کے طور پر 1946 میں پیدا ہونے والی ٹرنیڈاڈ کی گریس سرجو چرن نے پلانٹ بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی اور اب وہ اپنے مضمون میں تدریس اور تحقیق میں مشغول ہیں۔ انھوں نے بہت سے اعزازات حاصل کیے ہیں اور مختلف سرکاری کمیشنوں اور جامعات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہی ہیں۔
پاکستان کی بینا شاہین صدیقی نے بھی ڈاکٹرسلیم الزماںصدیقی کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کرنے کے بعد میڈیسن اور زراعت کے شعبے میں گراں قدر تحقیق کی ہے۔ وہ تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز کے علاوہ ایران کا خوارزمی انٹرنیشنل ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ اسی طرح 2011 میں پاکستان کی ڈاکٹر فرزانہ شاہین کو افریقہ، مشرق وسطیٰ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی گیارہ باصلاحیت خواتین سائنسدانوں میں شامل کیا گیا، ان کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے ہے۔ مریم سلطانہ نے بھی کراچی یونیورسٹی سے پڑھا اور وہ آسٹرو فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون ہیں۔
شرمین عبید چنائے نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی دستاویزی فلم پر آسکر ایورڈ جیتا۔ سنبل سید نے او لیول امتحان میں انگریزی ادب میں اول پوزیشن حاصل کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ مرحومہ ارفع کریم رندھاوا مائیکرو سوفٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والی دنیا کی سب سے کم عمر لڑکی تھی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر پاکستان اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔ افواج پاکستان میں دو لیڈی ڈاکٹرز نے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پائی۔ ان روشن مثالوں کے باوجود انسانی ترقی کی مختلف عالمی رپورٹوں میںپاکستان کی پوزیشن کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی۔
135 ممالک میں کیے جانے والے صنفی تفاوت کے سروے میں پاکستان کا نمبر 134 ہے۔ حالانکہ پاکستانی خواتین کو 1947 سے حق رائے دہی حاصل رہا ہے، ایوب خان کے زمانے میں انھوں نے اپنے لیے عائلی قوانین بنوانے میں کامیابی حاصل کی۔ بھٹو 1970-1977 کے دور میںخواتین کو سازگار ماحول میسر آیا۔ قومی اسمبلی میں ان کے لیے دس فیصد اور صوبائی اسمبلیوں میں پانچ فی صد کوٹہ رکھا گیا۔ 1973 کے آئین میں صنفی مساوات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا۔ اس کے بعد ضیاالحق کے دور میں اسلامائزیشن کے نام پر عورتوں کے لیے امتیازی اور تفریقی قوانین بنائے گئے۔
عورتوں کے کھیلوں پر پابندی لگا دی گئی اور پردے کو فروغ دیا گیا۔ آئین میں موجود بنیادی حقوق کو معطل کردیا گیا لیکن عورتوں کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے گئے۔ کیبنٹ سیکریٹریٹ میں ویمن ڈویژن قائم کیا گیا۔ چھٹے منصوبے میں پہلی مرتبہ عورتوں کی ترقی پر ایک باب شامل کیا گیا۔ 1985 کی مجلس شوریٰ میں عورتوں کا کوٹہ بیس فی صد کردیا گیا۔1988 کی انتخابی مہم میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کے مسائل اٹھائے۔ انھوں نے ویمن پولیس اسٹیشن، کورٹس اور فرسٹ ویمن بینک قائم کیا۔ انھوں نے امتیازی قوانین منسوخ کرنے کا بھی وعدہ کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ایسا نہ کرپائیں۔
1997 میں نواز شریف کی حکومت نے اسلامی قانونی نظام کے لیے آئین میں پندرھویں ترمیم کی تجویز پیش کی لیکن خواتین، انسانی حقوق کے گروپس اور حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور حدود قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔ پرویز مشرف کے دورمیں عورتوں کی ترقی کی وزارت کو خودمختار وزارت کا درجہ دیا گیا۔ ویمنز پروٹیکشن بل حالیہ عرصے میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے بہت کام ہوا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ابھی بھی عورتیں دنیا بھرمیں کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انھیں مردوں کے مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہو گئے ہیں۔
دنیا کے ایک اعشاریہ تین ارب انتہائی غریب عوام کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے۔ عورتوں کو مساوی کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں تیس تا چالیس فی صد کم معاوضہ ملتا ہے۔ دنیا بھر میں عورتوں کی اموات یا معذوری کی وجوہات میں سرفہرست ان پر ہونے والا تشدد ہے جس میں گھریلو تشدد سے لے کر زنا بالجبر تک شامل ہے۔2006 میں پاس کیا گیا۔ مقامی حکومتوں میں عورتوں کو 33 فی صد کوٹہ دیا گیا۔ آصف زرداری کی حکومت نے عورتوں کے حق میں بہت سے قوانین بنائے۔ (بشکریہ، وکی پیڈیا)
صنفی مساوات کی بات عام طور پر انسانی حقوق یا سماجی انصاف کے حوالے سے کی جاتی ہے مگر اس کا تعلق اقتصادیات سے بھی ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال میں ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کارکنوں کی تعداد میں اضافے سے عالمی نمو یا گروتھ میں جو اضافہ ہوا وہ چین کے بے مثال ریکارڈ سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں خواتین زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اگر پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک کی لیبر فورس میں عورتوں کی تعداد بڑھ جائے تو ان ممالک کی ترقی کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔
یہاں بات روایتی صنفی کرداروں کی آجاتی ہے کہ ہم نے کچھ کردار مردوں کے لیے مخصوص کردیے ہیں اور کچھ عورتوں کے لیے، اور ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ یہ کردار قدرتی نہیں بلکہ سماج کے بنائے ہوئے ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کبھی جنگلوں اور غاروں میں بھی تو رہتا تھا، پھر اس نے پتھروں کو رگڑ کر آگ جلانا سیکھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس نے پہیہ ایجاد کیا اور یوں ایجادات کا سلسلہ چل نکلا۔ آج ہم ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ، جینیاتی انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خلائی سائنس کے عہد میں زندہ ہیں لیکن مردوں اور عورتوں کے روایتی سماجی کرداروں اور ذمے داریوں کو بدلنے پر آمادہ نہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!!
مرد اور عورت کے حوالے سے دہرے معیارات کا قصہ بہت پرانا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ کردار ہزاروں سال پہلے مختص کردیے گئے تھے، گو کہ زمانہ بدل چکا ہے لیکن مرد حضرات آج بھی عورت اور مرد کے روایتی کردار کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ عورت خلا کا چکر لگا آئے، دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرلے، سائنس کی پیچیدہ گتھیاں سلجھا لے، فنون لطیفہ کے شاہکار تخلیق کرلے، بینکوں اور کاروباری اداروں کی سربراہ بن جائے مگر مردوں کا خاص طور پر پاکستان میں یہی اصرار ہوتا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی عورت تو باورچی خانے میں گھس جائے اور مرد پلنگ پر آرام فرمائے یعنی گھریلو ذمے داریاں عورت ہی سنبھالے۔
مرد ان ذمے داریوں میں ہاتھ بٹانے کے لیے قطعی تیار نہیں جب کہ عورت اس کے ساتھ مل کے معاشی ذمے داریاں اٹھا رہی ہے اور اپنے بچوں کو ایک بہتر معیار زندگی دے رہی ہے۔ مرد اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیںکہ انھیں جس کردار کی بنا پر برتری حاصل تھی، اب وہ کردار عورت بھی نبھا رہی ہے۔ میرے خیال سے دنیا بھر میں تحریک نسواں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ مرد کو گھریلو ذمے داریوں میں ہاتھ بٹانے پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ اسے یہ کیسے سمجھایا جائے کہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں، اگر دونوں جسمانی طور پر مختلف ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک برتر ہے اور دوسرا کم تر۔
محاورہ بہت پرانا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرد اور عورت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے دونوں پہیوں کا یکساں رفتار سے چلنا ضروری ہے۔