رہبر ِ اہل قلم ابراہیم جویو
ابراہیم جویو سندھ کی بیسویں صدی کی عہد ساز شخصیت تھے
قلم کی جنبش کتنی زرخیز ثابت ہوتی ہے،اس کا احساس مجھے تب ہوا جب ایک سو دو سال کی عمر میں سندھ کے ایک ایسے شخص رحلت پا گئے جنھوں نے اپنی انگلیوں میں فقط قلم تھامے رکھا اوراس قلم سے سیاہی پھیلاتے رہے اورکاغذ ان حروفوں کو سمیٹتے گئے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ اسکول ماسٹر تھے۔
رسول بخش پلیجو اور غلام مصطفیٰ جتوئی کے استاد اور ایسے سیکڑوں ہیں جو براہ راست ان کے طالب علم رہے اور مجھ جیسے ان گنت ہوں گے جو بالواسطہ ان کے شاگرد تھے۔ وہ اپنے قلم کو اسکول چار دیواری سے باہر لے کر چلے گئے۔ خود اپنے خیالات بھی تحریرکیے تو ڈھیر سارے فراہم بھی کیے۔ انھیں پڑھانا تھا سندھ کی آیندہ نسلوں کو، ایسے تمام بند دریچوں کو کھولنا تھا کہ دنیا کا علم سندھی زبان میں سندھی دہقانوں کے پاس بھی پہنچے۔وہ خود بھی تو دہقان زادے تھے۔ اس بستی سے جس سے جی ایم سید وابستہ تھے۔ یہ بھی زمانہ آیا کہ اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے لیے اسکول کی فیس و کتابیں لینے کے لیے پیسے نہیں تھے تو یہ خلاء جی ایم سید نے پرکیا۔
وہ گارشیا مارکیز کے ناول ''سو سال کی تنہائی'' کی مانند تھے۔ فیضؔ کی دشت تنہائی یا وہ موئن جودڑوکا پریسٹ۔ وہ یگانہ وہ یکتا صحراؤں میں جیسے رواں ہوں ماروی کی منزل کی جانب، وہ سسی کی طرح دیو جیسے پہاڑی سلسلے کے مسافر تھے۔انھیں بہت دورجانا تھا، بہت سارے خواب اپنی جھولی میں ڈالے ہر چوکھٹ ہر چوراہے پر بیچنے تھے۔ قلم کے اس کاروبار میں غالبا کوئی بھی سندھ میں ان کا ثانی نہ ہوگا۔ لگ بھگ ساٹھ کتابیں لکھیں، جس میں آدھی کتابیں مختلف یورپی مصنف کی تراجم تھیں تو آدھی اپنی تحریریں۔ اس کے علاوہ اتنی ہی کتابیں ہوں گی جو بطور پبلشر انھوں نے چھاپی ہوں گی۔
اور پھر دیکھیں تو سہی کہ عمر تھی کہ زینہ بہ زینہ وہ چڑھتے گئے۔ بہت ہی سادہ طبیعت تھے ان کا کسی کے ساتھ کوئی بیر نہیں تھا ان کے لیے کوئی غیر بھی نہیں تھا بس جو علم کی جستجو رکھتا ہو وہ ان کا بیٹا تھا۔ ایسے کئی یتیموں کے استاد بھی تھے۔ کھانا ان کا سادہ، لباس سادہ، چہرے پہ مسکان تھی کہ جیسے کوئی بھی موسم ہو نشیب وفراز، ہوجاتی نہیں تھی۔ غالباّ میر ی عمر بارہ برس تھی کہ میں اتنا بڑا ہوگیا تھا کے مجھ سے طرح طرح کے انگریزی میگزین کی تصاویر سے اب جی بھرتا نہیں تھا گھر کی لائبریری بہت طویل و کشادہ تھی جہاں میر ی آنکھ کھلی۔ قانون کے کتابوں کی لائبریری بھی گھرکے احاطے میں تھی، ہر طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں اور وہ بھی انگریزی میں، مگر میرے روح کی زبان سندھی تھی۔ میں سندھی بہتر انداز میں پڑھ اور سمجھ سکتا تھا۔ میں نے ان کتابوں پر نظر دوڑائی توکونے میں کہیں ''بچوں کا مسیح'' ابراہیم جویوکی کتاب پڑی ملی۔ میں نے وہ کتاب کچھ دنوں کے اندر پوری پڑھ ڈالی اور اس طرح میں ابراہیم جویوکی پہلی مرتبہ انگلی پکڑ کر دنیا کی سیر پر نکل گیا۔ پھر ان کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں 'جدلیاتی ابجد' پڑھی 'شاہ سچل سامی' یورپی فلسفہ اور پھر ان کی ایک کتاب سیکیولر ازم کے موضوع پر بھی تھی۔
یہ وہ زمانے تھے جب سبط حسن اردو میں، موسیٰ سے مارکس تک، ماضی کے مزار، جیسی عظیم کتابیں تحریرکر رہے تھے اور لاہور میں عبداللہ ملک جیسے پبلشروترجیح پسند مصنف تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی جب کانفرنس ہوئی تو میری عمر صرف بیس سال تھی۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا برصغیرکے عظیم اہل قلم لوگ۔ حبیب جالب، اصغر انجنیئر، سبط حسن، عبداللہ ملک،کشور ناہید۔ عبداللہ ملک کے ساتھ جو بحث چھڑی تو وہ رو پڑے کہ تم سندھ کے نوجوان ان پرکچھ پڑھتے ہو، میرے مرحوم دوست ستار رند بھی اس وقت میرے ساتھ تھے اور پھر یوں ان کے ساتھ خط وکتابت کا سلسلہ جڑگیا، فیض ان ہی زمانوں میں انتقال کرگئے تھے۔ ادھر سندھ میں شیخ ایاز، جمال ابڑو،ابراہیم جویو اور رسول بخش پلیجو تھے۔ استاد بخاری اور بہت سارے ناول وافسانہ نگاروشاعر تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک نے بہت سارے مزاحمتی ادب کو جنم دیا۔ سندھ میں یا تو قوم پرست تھے یا سرخے تھے پروفیسر جمال نقوی جیسے دانشور تھے میرغوث بخش بزنجو جیسے رہنما تھے۔
ابراہیم جویو ان کے ہم عصر Contemporary اور دراز عمر پانے کی وجہ سے وہ ان سب سے آگے نکل گئے یہ تنہا مسافر اپنے یاروں سے تو بچھڑے مگر قلم تھا کہ ان کے پہلو میں رہا وہ پرورش لوح و قلم کرتے رہے ۔
رسول بخش پلیجو سے پہلے سندھ میں عاجزی انکساری عام تھی۔ لب و لہجے میں دھیرج تھی اور یہ تھے کہ ہر ایک پر سیخ پا رہتے۔کوئی نہ کوئی تکراری مباحثہ ان کی زینت بنا رہتا،کبھی شیخ ایاز توکبھی کراچی کے کمیونسٹ دانشور۔ وہ اپنی نقادی کے فن میں اعلیٰ تھے مگر انا ان کی دانشوری مباحثوں میں مرکز بنی رہی۔ خود پسندی نرگسیت جیسے اجسام اسی طرح بھٹائی و ایاز کے بنائے ہوئی سندھی بیانیے کی روح میں پیوست ہوتے گئے۔ ہمارے ابراہیم جویو بھی نقاد تھے مگر ان کے پاس مکالماتی انانیت Egoistic Discourse کبھی مہماں نہ بنا۔ وہ صوفی طرز کے نقاد، نہ خود پسندی ان کا محور رہی نہ کسی پر تنقید کے بہانے ذاتی حملوں کی بوچھاڑ کی اور نہ اپنا رتبہ بڑا دکھانے کی کوشش کی۔
ایک طرف سندھ کا سماج ہے جو ٹوٹ نہیں رہا بلکہ اس پر جمود طاری ہے۔ ان اہل قلم لوگوں کو سندھ کے دیہات میں پذیرائی نہیں ملتی وہ بے چارے دشت تنہائی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان زمانوں میں ادب کو تخلیق کرنا اور بھی مشکل عمل تھا اور بہت سے ادیب سرکاری اخراجات پر اپنے درباری راگ آلاپنے پر مجبور ہوجاتے تھے، لیکن اسی لمحے پھر ہمیں ابراہیم جویو جیسے عظیم کردارکی رہنمائی ملتی ہے ایسے بے جا وقت ضایع کرنا،کبھی انا پرستی کی دانشور بحثوں میں الجھنا، کبھی کسی کو برا بھلاکہنا کبھی اس کوایسے کاموں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قلم کی مزدوری آپ کے جانے کے بعد بھی آپ کا عکس ہے وہ کہیں نہیں جائے گا۔ شیخ ایاز تو چلے گئے مگر ان کی شاعری ہے کہ دن بدن روز بہ روز طرح طرح کے رنگ اور نئے خمار لے کر آتی ہے۔
ابراہیم جویو سندھ کی بیسویں صدی کی عہد ساز شخصیت تھے اور قلم کے کام کے حوالے سے سندھ میں ان کا ثانی شاید کوئی بھی نہ ہو۔