بھٹو وہی بنتا ہے…

سلاخوں کے ایک جانب وہ شخص تھا جو اس ملک کا پہلا منتخب وزیر اعظم تھا


سیدہ شہلا رضا November 15, 2017

وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے لیکن ان کے درمیان سلاخیں تھیں۔ سلاخوں کے ایک جانب وہ شخص تھا جو اس ملک کا پہلا منتخب وزیر اعظم تھا۔ اس پر یوں تو بے شمار الزامات تھے کہ اس نے نہ صرف اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا بلکہ ایشیا اور افریقہ سے لے کر لاطینی امریکا کے تمام چھوٹے ممالک کو گروپ آف 77 کے نام پر یکجا کیا۔

اس پر الزام تھا کہ وہ دونوں بڑی طاقتوں کے خلاف ان چھوٹے ممالک کو یکجا کر رہا ہے۔ انھیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو یوں کوڑیوں کے بھاؤ نہ بیچیں اور نہ ہی بڑی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہوکر آپس میں کشت وخون کریں بلکہ اپنے اختلافات کو میز پر بیٹھ کر حل کرلیں اور اس طرح اسلحہ ساز ممالک کے بچھائے ہوئے جال سے بچیں۔ اس پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ اپنے ملک کو ایک ایٹمی قوت بنا چکا ہے اور یہ ایسا جرم تھا جسے دونوں بڑی طاقتیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں لیکن جس جرم میں اسے موت کی سزا سنائی گئی تھی وہ ایک ایسے شخص کا قتل تھا جس کا براہ راست سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس لیے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے موت کی سزا سنائی تھی۔

وہ دونوں خاموش تھے سلاخوں کے اس جانب بھی اور سلاخوں کے اس طرف بھی۔ سلاخوں کے اس جانب خاتون کی خاموشی زیادہ گمبھیر تھی۔ وہ پردے میں تھیں ان کے ہونٹ بار بار پھڑپھڑا رہے تھے۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہوں لیکن کہہ نہ پا رہی ہوں بالآخر انھوں نے ہی خاموشی کے سمندر میں پہلا پتھر پھینکا ''صاحب جی'' وہ اس سے آگے بھی کچھ کہنا چاہ رہی ہوں لیکن اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکیں۔

'' ہاں بولو! '' سلاخوں کی دوسری جانب بیٹھے شخص نے کہا اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی ''صاحب جی! مجھے اجازت دو۔'' خاتون کا ان دو لفظوں ''ہاں بولو!'' سے حوصلہ بڑھا تو انھوں نے اپنا فقرہ مکمل کیا۔

''کس بات کی اجازت؟'' خاتون کا فقرہ مکمل ہوتے ہی سلاخ کے اس جانب والے شخص نے سوال کیا۔

''صاحب! میں ممتاز سے ملی تھی'' خاتون نے براہ راست بات شروع کرنے سے پہلے تمہید باندھی ''اچھا'' خاتون رکیں تو ''صاحب'' نے عام سے انداز میں کہا لیکن خاتون کو یوں محسوس ہوا جیسے لہجہ طنزیہ ہو، اس لیے وہ ایک لمحے کے لیے کچھ دیر رک گئی تھیں، وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں بات آگے بڑھائیں یا نہیں۔

''وہ کہہ رہا تھا کہ اگر کوئی اور کسی وجہ سے درخواست نہیں کر رہا تو میں درخواست کروں؟'' خاتون نے کہا اور اس کے ساتھ ہی جو مسکراہٹ انھوں نے صاحب کے چہرے پر دیکھی وہ طنزیہ ہی تھی۔

''میں مسٹر شاہنواز بھٹو کا بیٹا اس ملک کا پہلا منتخب وزیر اعظم آخری ملاقات کے لیے آنے والی بیوی کے لیے ان سے ایک کرسی کی درخواست نہیں کر رہا تو میں کیسے اپنے خاندان کے کسی فرد سے رحم کی درخواست کرواسکتا ہوں؟'' وہ بولا تو بولتا چلا گیا اس کے لہجے میں وہی یقین تھا جسے خاتون نے ہمیشہ محسوس کیا تھا۔

''مگر صاحب۔۔۔۔!'' خاتون کچھ اور کہنا چاہتی تھیں لیکن صاحب نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روک دیا۔

''میں صرف بیرسٹر نہیں ہوں بلکہ میں نے قانون پڑھایا بھی ہے۔'' وہ دوبارہ سے بولنا شروع ہوئے۔

''گرفتاری کے پہلے دن سے مجھے یقین تھا کہ یہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔'' انھوں نے کہا اور رک گئے۔

''کوئی راستہ تو نکل سکتا ہے؟'' خاتون نے کہا لیکن ان کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔

''معاملہ ان کے ہاتھوں میں نہیں یہ صرف مہرے ہیں۔ اس لیے فیصلہ بھی وہی کریں گے جو باہر بیٹھے ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔'' صاحب نے پھر سے کہنا شروع کیا اور خاتون صرف دیکھتی رہیں۔

''میرے معبود یہ سب کیا ہو رہا ہے۔'' خاتون بظاہر خاموش تھیں لیکن وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے فریاد کر رہی تھیں۔

''شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو اوراس کے بعد ہم مل نہ سکیں۔'' ایک مختصر سے وقفے کے بعد انھوں نے کہا صاحب! ایسے نہ کہو۔ وہ یہ کہتے کہتے سسک پڑی تھیں۔

''ہم جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہیں بیٹھا شخص سن رہا ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری کھولی بگڈ ہے۔'' انھوں نے دوبارہ سے کہنا شروع کیا۔

''مگر ہم تو۔۔۔۔!''خاتون نے کہا اور وہ مسکرادیے۔

''تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ہم سندھی میں بات کر رہے ہیں۔'' انھوں نے مسکراتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا اور خاتون کی گردن اثبات میں ہل گئی۔

''انھوں نے ہماری باتیں سننے کے لیے کسی سندھی جاننے والے کو بٹھایا ہوگا جو ابھی دس منٹ میں ہماری گفتگو اپنے افسروں کو پہنچا دے گا۔'' صاحب نے کہا اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔

''صاحب! میں ایک کوشش۔۔۔۔!'' خاتون نے اپنی بات دہرانی چاہی لیکن اس کا جواب نفی میں گردن ہلا کر مل گیا۔

''میں اب جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو اور اس لیے میری وصیت سمجھنا۔'' مسکراتا ہوا چہرہ اچانک سنجیدہ ہوگیا تھا خاتون یہ سن کر سسک پڑی تھیں لیکن فوراً ہی خاموش ہوگئیں۔

''مرتضیٰ اور شاہنواز کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی انھیں کہنا کہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرلیں۔'' انھوں نے تیزی سے بولنا شروع کیا۔

''بینظیر کی تعلیم مکمل ہوچکی ہے اور وہ سیاست کرنا چاہ رہی ہے، اس کے لیے ہر وہ سہولت فراہم کرنا جو تم فراہم کرسکتی ہو۔ صنم اپنی مرضی کی مالک ہے وہ بہت حساس بھی ہے اس کو خاص توجہ دینا۔'' وہ تیزی سے اپنی بات کہہ رہے تھے۔

''میرے بعد اب تم اس خاندان کی بڑی ہو جو کام میں مکمل نہیں کرسکا انھیں اب تمہیں مکمل کرنا ہے۔'' وہ بول رہے تھے اور خاتون پوری توجہ سے سن رہی تھیں۔

''ملازمین کا خیال رکھنا تم مجھ سے بہتر جانتی ہو اس لیے میں کچھ نہیں کہوں گا۔'' انھوں نے کہا اور تبھی خاتون کی سمجھ میں آیا کہ صاحب اتنے تیزی سے کیوں بول رہے تھے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ ان کی جانب آرہا تھا ''نصرت کو بھی تمہاری خاص توجہ کی ضرورت ہے۔'' وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ سپرنٹنڈنٹ قریب آگیا اور اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا صاحب نے اس سے کہا ''بس ایک منٹ۔۔۔۔!''

'' میں تمہارا حق ادا نہیں کرسکا اس لیے۔۔۔۔!'' وہ کچھ اور کہنا چاہتے تھے لیکن خاتون نے ہاتھ باندھ کر انھیں روک دیا۔

''خدا کی قسم صاحب!مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔'' خاتون یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر سسک پڑیں۔

''ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے۔'' سپرنٹنڈنٹ نے قریب آکر کہا۔

''صاحب! ملاقات تو دوگھنٹے کی تھی۔'' خاتون نے سپرنٹنڈنٹ کی جانب چہرہ کیے بغیر کہا۔

''یہ بے چارے تو حکم کے غلام ہیں جب میں ان کے بڑوں سے رعایت نہیں مانگتا تو یہ کیا چیز ہیں۔'' صاحب نے قدرے بلند آواز سے کہا، لیکن خاتون اپنی جگہ بیٹھی رہیں۔

''ابھی تو پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے۔'' خاتون نے احتجاج کرنا چاہا۔

''جب میں ان سے دو منٹ کی رعایت نہیں مانگ رہا تو یہ کیسے برداشت کروں گا کہ میرے خاندان کا کوئی فرد ان سے میری جان کے لیے درخواست کرے۔'' صاحب نے اپنا آخری فیصلہ دے دیا۔

ملاقات ختم ہوگئی لیکن وہ شخص جو یہ گفتگو ٹیپ کر رہا تھا اس کے ذہن میں زلزلے آرہے تھے۔ ''یہ کیسا شخص ہے کہ اسے موت کی سزا ہوگئی ہے یہ جانتا ہے کہ اسے موت کی سزا ہوگئی ہے یہ جانتا ہے کہ اگلے چند دنوں میں اسے پھانسی ہوجائے گی لیکن اس کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں ہے۔''یہ بے گناہ ہے'' اس کے ذہن نے فیصلہ دیا لیکن ذہن کا فیصلہ وہ زبان پر نہیں لاسکا۔

یہ مختصر تحریر میں نے ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے نہیں لکھی جو پہلے ہی سب کچھ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ظلم کے کون کون سے پہاڑ توڑے گئے پھانسیاں 864821 کوڑے پچاس پچاس برس کی سزائیں کیوں دی گئیں۔ یہ تحریر تو ان کے لیے ہے جو معافی نامہ لکھنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ جو اپنے وی آئی پی ٹرائل کو ظلم قرار دیتے ہوئے صبح و شام انتہا کی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا تقابل بھٹو خاندان سے کررہے ہیں۔

تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے تختہ دار تک اپنے قدموں پر جانا ہوتا ہے۔ گلے میں پھندا ڈالنے سے پہلے بہادری سے یہ کہنا ہوتا ہے کہ ''میرے خدا! تو جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں'' بھٹو وہی بنتا ہے جو آگ کے دریا میں صرف کودتا نہیں بلکہ اسے تیرکر عبور بھی کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔