پریوں اورجادوگرنیوں سے بھی تیز

خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا اعلان بھی کسی خوش خبری سے کم نہیں

ہمارے نصاب میں رابرٹ لوئی اسٹیونسن Robert Louis Stevenson کی نظم ''فرام اے ریلوے کیرج'' شامل تھی جسے پڑھنے کے بعد پریوں کی اڑان اور جادوگرنیوںکے کمالات کے ساتھ ریل گاڑی کی تیز رفتاری کا بھی کچھ کچھ اندازہ ہوا۔اُس وقت تک ہم نے پریاں اور جادوگرنیاں توکیا ریلوے کا ڈبا بھی نہیں دیکھا تھا، ہاں اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ ریل گاڑی میں بیٹھنے کے بعد انسان انتہائی مختصر وقت میں دوردراز تک کا سفر پلک جھپکتے ہی طے کر لیتا ہے۔

نظم پڑھنے اور ریل گاڑی کی تیز رفتاری کے بارے میں جان کر ہمارے دل میں یہ خواہش سر اٹھانے لگی کہ کاش ہم بھی کسی طرح ریل گاڑی کا سفرکرسکتے مگر ہم جس چھوٹے سے گاؤں میں رہائش پذیر تھے وہاں ریل توکیا ٹوٹی پھوٹی اورکچی سڑک سے بس بھی تین گھنٹے کے بعد ہی گزرتی تھی۔

بالاآخر ذوالفقارعلی بھٹو کے آخری دور میں آنے والے سیلاب اور بارشوں کے دنوں میں ہمارا یہ خواب پورا ہو ہی گیا اور ہم اپنے قریبی شہر سے کراچی جانے کے لیے ''چناب ایکسپریس'' پر سوار ہوگئے۔ان دنوں پاکستان ریلوے کی حالات بہتر ہونے کے باوجودکراچی تک سفر کرتے ہوئے دو دن ضرور گزارنا پڑتے تھے اور ہم برسات کے دنوں میں سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے پانی میں ڈوبی پٹڑیوں پر سفرکرنے کے بعد جب تیسرے دن کراچی پہنچے تو بے خوابی کی وجہ سے آنکھیں لال تھیں اور پیروں میںسوجن نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ اس مشکل ترین سفر سے نہ صرف ہمارا ریلوے سفر کا نشہ ہرن ہوا بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ انگریزی کی نظم میں شاعر نے ریل کے سفر کی جو تصویر کھینچی تھی، وہ افسانے کے سوا کچھ نہ تھی۔

وقت کی گاڑی پاکستان ریلوے کی طرح دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس دور تک پہنچ گئی جب عنان حکومت کسی بھٹو کے بجائے آصف زرداری کے ہاتھ سونپ دی گئی اورایک سرکاری ملازم نے پشاور سے کوئٹہ جانے کے لیے ''کوئٹہ ایکسپریس'' میں بکنگ کروائی تو اسے بتایا گیا کہ آج کوئٹہ ایکسپریس پشاور کے بجائے راولپنڈی سے روانہ ہو گی۔ چنانچہ متبادل ٹرین نہ ہونے کی وجہ سے اس ملازم کو کوئٹہ ایکسپریس میں ہی سفر کرنا پڑا جو اپنے مقررہ وقت صبح گیارہ بجے کے بجائے شام پانچ بجے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئی۔سخت گرمی کے موسم میں چوروں سے بچنے والے اکا دکا پنکھے اس گاڑی میںلگے ہوئے تو تھے مگر ان میں زیادہ تر چلنے کی عادت بھول چکے تھے۔کچھوے کی رفتار سے چلنے والی کوئٹہ ایکسپریس جب دوسرے دن شام کے وقت جیکب آباد پہنچی تو ڈرائیور نے انجن بند کرنے کے بعد اعلان کیا کہ اگلا سفر صبح کے وقت شروع ہوگا۔ بے خوابی، بھوک اور گرمی سے ستائے بچے رو رو کر رات بتانے کے بعد کوئٹہ تک پہنچنے میں کامیاب توہوگئے مگر انھوں نے یہ سفر پچپن گھنٹوں میںطے کیا تھا۔


پچھلی حکومت کے دور میں ریلوے کا سفر کرنے والوں کے ساتھ ایسے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں واقعات پیش آچکے ہیں جو ریلوے کی تاریخ کا بد ترین حصہ ہیں۔ اس وقت کے ریلوے کے وزیر پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھاکہ وہ ٹرانسپورٹ مافیا کی بھلائی کے لیے ریلوے کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ریلوے کی تباہی میں اس وقت کے وزیر کی کوتاہی کے علاوہ بھی کئی عوامل پائے جاتے تھے۔ اس زمانے میں ملک بھر کے مسافروں کو ریلوے کی وجہ سے جو تکالیف پہنچیں وہ اپنی جگہ مگر خیبر پختون خوا کے دہشتگردی، بیروزگاری اور بے گھری کے دکھ میں ڈوبے عوام کوریلوے کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا اب تک کر رہے ہیں اس سے شایدبہت کم لوگ ہی واقف ہوں گے ۔کراچی سے پشاور، مردان،کوہاٹ، بنوں، دیر، سوات اور وزیرستان جیسے دور دراز علاقوں میں بس کے ذریعے سفر کرنے والے افراد کو دیکھ کر عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں بس میں سفر کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے، مگر بس میں بزرگوں بیماروں، بچوں اور خواتین کے ساتھ تیس سے پینتیس گھنٹے سفر کرنے کے بعد وہ جس مصیبت سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں بس کے ذریعے کبھی اتنا طویل سفر طے کیا ہو۔

پچھلے برس کراچی سے پشاور تک قائم ریلوے کے نظام میں بہتری لانے کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا جو سی پیک سے جڑا ہوا تھا اور اس برس اس سلسلے میں چین اور پاکستان کی حکومت میں ایک معاہدہ بھی ہوا جس کے تحت ریلوے ٹریک کو سگنل فری بنانے کے ساتھ گیٹ فری بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس منصوبے میں گاڑیوں کی رفتار میں اضافے کے ساتھ سفری اوقات میں غیر معمولی کمی کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں ریلوے کی کارکردگی ماضی کی نسبت بہت بہتر ہوئی ہے مگر اس بہتری کو سی پیک منصوبے کے ساتھ نہ جوڑا جاتا تو شاید اب بھی حالات ایسے ہی ہوتے جیسے ماضی سے چلے آ رہے ہیں۔کراچی اور خیبر پختونخوا کے درمیان خیبر، عوام ایکسپریس، خوشحال خان خٹک اور کوئٹہ تک جانے والی جعفر ایکسپریس رواں دواں ہیں اس کے باوجود راولپنڈی کے بعد ان گاڑیوںمیں مسافروں کی تعداد بہت کم رہ جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کے دور دراز علاقوں تک نہ تو ریلوے کا نظام موجود ہے اور نہ ہی ان شہروں میں بکنگ کی سہولتیں پائی جاتی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد کے لیے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹکٹوں کی بکنگ کے لیے چھوٹے دفاتر کھولنے کے ساتھ کرائے میں بھی کمی کا اعلان کرے تاکہ وہ ریلوے کے سفر کی طرف متوجہ ہوں۔ اس کے ساتھ ریلوے کی ترقی کے اشتہارات چپھوانے اور زبانی ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے مسافروں کی سفری سہولتوں کو مزیدبہتر بنانے پر بھی توجہ د ی جائے۔محض ایک دو اچھی اور مہنگی گاڑیاں چلانے اور ان میں سفر کرنے والے مسافروں کو بہترین سہولتیں فراہم کرنے سے ریلوے کے پورے نظام کو بہتر یا اچھا نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ اکانومی کلاس میں سفر کرنے والے غریب مسافروں کو بھی سفر کے دوران واش روم، پنکھوں اور آرام دہ نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ریلوے کی بہتری کے تمام تر دعووں کے باوجوداب بھی اکانومی تو کیا بزنس کلاس میں بھی ایسی بوگیاں موجود ہیں جن میں مسافروں کو پھٹی پرانی نشستوں، واش روم میں بہتی ہوئی پلاسٹک کی ٹوٹیوں، شیشے کے بجائے لوہے کی شیٹوں سے ڈھکی کھڑکیوںاور بغیر چٹخنی کے دروازوں سے واسطہ پڑتا ہے۔یاد رہے کہ اب پاکستان ریلوے صرف پاکستان ریلوے نہیں رہی بلکہ سی پیک منصوبے کے تحت یہ اس خطے کے تمام مسافروں کے لیے سفری سہولتیں فراہم کرنے کا ذریعہ بننے کی طرف گامزن ہے لیکن جب تک دور دراز رہنے والے مقامی مسافر وں کو اس سے فائدہ نہیں پہنچتا ترقی کی تمام تر دعوے صرف دعوے ہی رہیں گے۔پچھلے دنوں لاہور سے پشاور تک سفر کرنے والوں کے لیے خیبر میل اور جعفر ایکسپریس میں کرائے کی پچاس فیصد کمی کا اعلان کیا گیا تھا جسے انقلابی قدم کہا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا اعلان بھی کسی خوش خبری سے کم نہیں جہاں تک بسوں میں سفر کرنا جان جوکھوں کا کام ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہوتا ہے۔
Load Next Story