تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں

مستقبل میں اقتدار پی ٹی آئی کو ملتا نظر آرہا ہے

mohsin014@hotmail.com

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے سیاست میں دو قابل ذکر جماعتیں چھائی رہیں، ایک پیپلز پارٹی اور دوسری مسلم لیگ (ن)۔ دونوں کا فرق یہ تھا کہ پی پی پی وفاق پرست جمہوریت پسند پارٹی کے طور پر مقبول رہی جب کہ مسلم لیگ نواز جو آمریت کے سائے پلتی رہی اور ان کے مزاج میں آمریت ہی رہی، اس لیے جب بھی انھیں اقتدار کے لیے جدوجہد کرنی پڑی تو انھوں نے لسانی کارڈ بھی استعمال کیا۔ اس کی بنیاد پر میاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو پذیرائی ملی اور وہ سیاست میں پیپلز پارٹی کے لیے چیلنج بن گئے۔

لسانی کارڈ کا وہی فائدہ ہوا جو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اور ان کی عوامی لیگ کو ہوا کیونکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی والا حصہ مشرقی پاکستان تھا جہاں 90 فیصد بنگالی رہتے تھے، جب وہاں لسانیت کا پتہ کھیلا گیا تو وہ بہت کامیاب ہوا اور آخرکار بنگلہ دیش بن گیا۔ یہی صورتحال مغربی پاکستان میں ہے کہ یہاں بھی ایک صوبہ پنجاب ہے جسکی آبادی پاکستان کے 62 فیصد پر مشتمل ہے، اس لیے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے صوبہ پنجاب میں اکثریت لینے والی جماعت ہی حکومت بنا سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی جب تک بینظیر بھٹو کی قیادت میں رہی تو کسی حد تک پنجاب میں ان کے ووٹرز بھی رہے مگر جب بینظیر شہید ہوگئیں تو پارٹی قیادت آصف زرداری نے سنبھالی، اس کا سب سے بڑا نقصان پنجاب میں ہوا۔ بھٹو کے چاہنے والے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ آصف زرداری کو پنجاب میں مقبولیت حاصل نہیں تھی۔ ان کے مقابلے میں شریف برادران ریادہ مقبول تھے اور پی پی پی جو سندھ میں گزشتہ 10 سال سے تنہا حکومت کررہی ہے، اس نے سندھ میں اور خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں نہ کوئی ترقیاتی کام کیے اور نہ ہی شہروں کی خستہ حالی پر توجہ دی۔ انھوں نے ہمیشہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ رکھا اور پس پردہ اختیارات آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے پاس رہے۔ اس کا نقصان پی پی پی کو پنجاب میں بہت ہوا۔

اگر کراچی کو اسی طرح بہتر بناتے جس طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں مصطفی کمال کی قیادت میں کام ہو رہا تھا تو یقینا اس کا مثبت اثر پنجاب، کشمیر، کے پی کے اور بلوچستان میں ہوتا۔ الٹا نقصان یہ ہوا کہ کشمیر میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ لاہور حلقہ این اے 120 میں حالیہ ضمنی انتخاب میں شرمناک شکست ہوئی، اور 26 اکتوبر کو این اے 4 کے پشاور کے انتخاب میں چوتھے نمبر پر 12806 ووٹ لیے جب کہ پی ٹی آئی نے تقریباً 44 ہزار اور مسلم لیگ ن نے تقریباً 24 ہزار اور اے این پی نے بھی 24 ہزار لیے۔ اس طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے پی پی پی کی سیاسی ساکھ بینظیر کے بعد گرتی رہی اور شاید اس دفعہ عام انتخابات میں اندرون سندھ ان کے مزید ووٹ کم ہونگے۔ یہ سب اگر پی پی پی محترمہ کی شہادت کے بعد قیادت پنجاب کی کسی شخصیت کو دیتی، جیسے اعتزاز احسن تو شاید پی پی پی پنجاب میں کچھ مقبولیت حاصل کرلیتی۔


اب سندھ کی صورتحال یہ ہے کہ پہلی دفعہ 30 سال میں پی ٹی آئی نے پی پی پی کو اندرون سندھ چیلنج کردیا ہے اور آج کل پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے خاص طور پر نوجوانوں میں جو پاکستان کا 65 فیصد آبادی کا حصہ ہیں۔ اگر پی پی پی عوامی سہولتوں پر زور دیتی، خاص طور پر کراچی میں انفرا اسٹرکچر پر، ٹرانسپورٹ پر، بجلی اور پانی، گیس کی فراہمی پر، صحت اور تعلیم پر اور سب سے زیادہ پولیس کے محکمہ کو غیر سیاسی بنانے پر اور پولیس کے محکمے کے سربراہ کو آزادانہ کام کرنے پر تو، کم از کم کراچی کا تاجر طبقہ، طلباء پی پی پی کا ساتھ دیتے، اب ان سب کا جھکاؤ پی ٹی آئی اور تھوڑا بہت پی ایس پی کی طرف ہے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور میئر کراچی وسیم اختر نے اہل کراچی کو بہت مایوس کیا ہے۔

فاروق ستار تو سیاست نہیں جانتے، نہ کرتے ہیں، وہ اب بھی ایم کیو ایم کو پریشر گروپ کے طور پر چلا رہے ہیں، ابھی تک پارٹی رابطہ کمیٹی پر ہی چل رہی ہے۔ فاروق ستار کی خوش فہمی یا غلط فہمی کا اندازہ اسمبلیاں ختم ہوتے ہی معلوم ہو جائے گا۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ 30 فیصد لوگ جو پارلیمنٹ میں ہیں ایم کیو ایم کے وہ ملک چھوڑ کر چلے جائینگے، 50 فیصد دوسری جماعتوں میں چلے جائیں گے۔ اگر پی ایس پی نے کچھ محنت کی اور اچھی منصوبہ بندی کی اور پارٹی کو سیاسی طور پر چلایا تو شاید وہ ایم کیو ایم سے بہتر ووٹ لے سکتی ہے۔

آج کی صورتحال یہ ہے کہ مستقبل میں اقتدار پی ٹی آئی کو ملتا نظر آرہا ہے، عمران خان ملک کے وہ واحد سیاستدان ہیں جو اپنا مال و زر پاکستان لے کر آئے ہیں۔ انھوں نے شوکت خانم جیسے اسپتال بنائے اور وہ اب تک کلین مین ہیں اس لیے اب پنجاب، کے پی کے، سندھ میں لوگ ان کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ انھوں نے واقعی اپنے صوبے میں پولیس کو غیر سیاسی بنادیا ہے، ان میں انتظامی صلاحیت بھی ہے، بس ان کی پارٹی میں شخصیتوں کا ٹکراؤ بہت ہے، اگر نقصان ہوگا تو اسی ٹکراؤ سے۔ اسی شہر کراچی میں عمران اسماعیل ہوں، علی زیدی، عارف علوی ہوں، فیصل واوڈا ہوں یا آنے والے عامر لیاقت، یہ سب مقبولیت میں برابر درجے کے ہیں اور یہ حسن اتفاق ہے کہ عمران خان ہوں یا عارف علوی، عمران اسماعیل ہوں یا علی زیدی، ان سب کے ناموں میں پہلا حرف عین مشترک ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ عوام جو اب با شعور ہیں ان لوگوں کو ہی مستقبل کی قیادت دیں جنھوں نے پہلے اقتدار نہیں لیا، جس میں پی ٹی آئی اور پی ایس پی ہے۔

اگر ان کو موقع ملا تو سید مصطفیٰ کمال اور ان کی ٹیم جن میں صلاحیت کا فقدان نہیں ہے، بلکہ بڑے باصلاحیت باکمال ٹیم ہے۔ ہمیں اس دفعہ اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا تاکہ ہمارا شہر کراچی ہو یا لاہور، پشاور ہو یا کوئٹہ، فاٹا ہو یا گلگت بلتستان، سب جگہ تبدیلی آنی چاہیے اور یہ لوگ اپنے عوامی منصوبے سے لوگوں کو اگاہ کریں کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو، ملک کو کیا دیں گے۔

اب جو بھی برسر اقتدار آئے اسے سب سے زیادہ توجہ قرضوں کے حجم کو کم کرنے اور شہر ی علاقوں میں انفرااسٹرکچر کو بہتر کریں اور جو ترقیاتی منصوبے جاری ہیں انھیں ختم نہ کریں بلکہ بہتر کریں، اداروں میں بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ کریں اور بلاامتیاز ان لوگوں کا بھی احتساب کریں جو بہت بااثر ہیں اور عام لوگوں کے ساتھ انصاف کی خاطر پولیس اور اس سے متعلقہ اداروں کو بے جا تنگ نہ کرنے کا کوئی اصول مقرر کریں۔ بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی ضروریات کی کمی کو پورا کریں اور پورے پاکستان میں قرعہ اندازی کے ذریعے لوگوں میں زرعی اور صنعتی اور رہائشی زمینین سستے داموں میں دیں، بینک کے ذریعے مائیکرو اسکیم جو چھوٹے کاروبار اور ٹرانسپورٹ کے لیے ہو، اس میں آسانی پیدا کریں۔
Load Next Story