صورتحال خراب سرکاری زرمبادلہ ذخائر 8 ارب ڈالر سے گرگئے
مرکزی بینک کے ڈالرذخائر36 کروڑ61 لاکھ کمی سے یکم مارچ کو7 ارب 86 کروڑ ڈالررہ گئے، اسی سطح پرپاکستان کونومبر2008 میں۔۔۔
آئی ایم ایف کو قرض کی ادائیگی، ایف ڈی آئی میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے باعث ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 13ارب ڈالر جبکہ سرکاری زرمبادلہ ذخائر8ارب ڈالر کی سطح سے نیچے آگئے۔
یہ وہی سطح ہے جب پاکستان کو نومبر2008 میں سرکاری زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاناپڑا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان کا ماہانہ درآمدی بل پونے 4ارب ڈالر ہے، اس لحاظ سے سرکاری زرمبادلہ ذخائر2ماہ کی درآمدات کے برابر رہ گئے ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کو قرضے کی 10 ویں قسط کی ادائیگی کے باعث غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 38 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق یکم مارچ تک ملکی زرمبادلہ کے ذخائر38 کروڑ 3 لاکھ ڈالر کمی کے بعد 12 ارب 80 کروڑ 47 لاکھ ڈالر رہ گئے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کو 26 فروری کو کی جانے والی 39 کروڑ 18 لاکھ ڈالر کی ادائیگی ہے، گزشتہ ہفتے کے اختتام تک اسٹیٹ بینک کے ڈالر ذخائر میں 36 کروڑ 61 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی اور یکم مارچ تک مرکزی بینک کے ڈالر ڈپارٹس 8 ارب 22کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 7ارب86 کروڑ 9 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے۔
گزشتہ ہفتے ادائیگیوں کے دباؤ کے سبب کمرشل بینکوںکے ذخائر بھی اپنی پوزیشن مستحکم نہ رکھ سکے اور کمرشل بینکوں کے ذخائر میں بھی کمی واقع ہوئی، یکم مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے تک کمرشل بینکوں کے ڈالر ذخائر 1 کروڑ 42 لاکھ ڈالر کم ہو کر 4 ارب94 کروڑ 38 لاکھ ڈالر رہ گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ڈالر ذخائر کا 8 ارب ڈالر سے بھی گھٹ جانا ادائیگیوں کے توازن پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے آئندہ دنوں میں روپے کی قدر پر بھی پریشر آسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے دوران ملکی درآمدی بل ساڑھے 3 ارب ڈالر سے زائد ہوتا ہے جبکہ برآمد اس سے نصف ہوتی ہے، اگر غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی یا ترسیلات زر میں اضافہ نہ ہوا تو پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیاں مزید مشکل ہو جائیں گی، رواں ماہ کے اختتام پر پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے کی 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی گیارہویں قسط بھی ادا کرنی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پرمزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
یہ وہی سطح ہے جب پاکستان کو نومبر2008 میں سرکاری زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاناپڑا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان کا ماہانہ درآمدی بل پونے 4ارب ڈالر ہے، اس لحاظ سے سرکاری زرمبادلہ ذخائر2ماہ کی درآمدات کے برابر رہ گئے ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کو قرضے کی 10 ویں قسط کی ادائیگی کے باعث غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 38 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق یکم مارچ تک ملکی زرمبادلہ کے ذخائر38 کروڑ 3 لاکھ ڈالر کمی کے بعد 12 ارب 80 کروڑ 47 لاکھ ڈالر رہ گئے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کو 26 فروری کو کی جانے والی 39 کروڑ 18 لاکھ ڈالر کی ادائیگی ہے، گزشتہ ہفتے کے اختتام تک اسٹیٹ بینک کے ڈالر ذخائر میں 36 کروڑ 61 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی اور یکم مارچ تک مرکزی بینک کے ڈالر ڈپارٹس 8 ارب 22کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 7ارب86 کروڑ 9 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے۔
گزشتہ ہفتے ادائیگیوں کے دباؤ کے سبب کمرشل بینکوںکے ذخائر بھی اپنی پوزیشن مستحکم نہ رکھ سکے اور کمرشل بینکوں کے ذخائر میں بھی کمی واقع ہوئی، یکم مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے تک کمرشل بینکوں کے ڈالر ذخائر 1 کروڑ 42 لاکھ ڈالر کم ہو کر 4 ارب94 کروڑ 38 لاکھ ڈالر رہ گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ڈالر ذخائر کا 8 ارب ڈالر سے بھی گھٹ جانا ادائیگیوں کے توازن پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے آئندہ دنوں میں روپے کی قدر پر بھی پریشر آسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے دوران ملکی درآمدی بل ساڑھے 3 ارب ڈالر سے زائد ہوتا ہے جبکہ برآمد اس سے نصف ہوتی ہے، اگر غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی یا ترسیلات زر میں اضافہ نہ ہوا تو پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیاں مزید مشکل ہو جائیں گی، رواں ماہ کے اختتام پر پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے کی 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی گیارہویں قسط بھی ادا کرنی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پرمزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔