کنٹینر اسکینڈل نیب پر کسٹمز ایجنٹس وبانڈڈ کیریئرز کا عدم اعتماد
متعلقہ ٹرانسپورٹر سے تفتیش نہیں کی گئی، 180 کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس کو ملوث کیا گیا۔
ایساف کنٹینرز اسکینڈل سے متعلق نیب کی تحقیقات پر کسٹمزایجنٹس اوربانڈڈ کیریئرزنے عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔
واضح رہے کہ ایساف کنٹینرزاسکینڈل میں ملوث عناصر سے14 یوم میں 53 ارب روپے وصول کرنے کے عدالتی احکامات کے بعد کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس میں اضطراب کی لہردوڑ گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے اس ضمن میںکی گئی تحقیقات میں صرف 180 کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس کو ملوث کیا گیا ہے جنہیں نیب کی جانب سے نوٹسز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔
ٹریڈ سیکٹر کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے ایساف کے کمرشل ونان کمرشل کارگو کے غائب ہونے والے7922 کنٹینرزکے سلسلے میں متعلقہ ٹرانسپورٹرز سے تفتیش نہیں کی گئی حالانکہ ایساف کے کنٹینرز کی ترسیل کی ذمے داری لاجسٹک کے ایک قومی ادارے کے پاس تھی لہٰذا ایساف کے کمرشل ونان کمرشل کنسائنمنٹس کی افغانستان تک ترسیل کا ذمے داربھی یہی ادراہ تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ایساف کنٹینرز کو متعلقہ ذمے دار لاجسٹک کمپنی امان گڑھ اور چمن میں قائم ٹرمینلز پراتارنے کے بعدمخصوص بارڈرایجنٹ کے حوالے کرتی تھی جو افغانستان میں ترسیل کے لیے دوسرے ٹرک پر ان کنسائنمنٹس کو لدواتا تھا۔
ٹریڈ سیکٹر کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے تحقیقات کے دوران اگرمتعلقہ ذمے دار ٹرانسپورٹرز اور بارڈرایجنٹس سے بھی تفتیش کی جاتی تو ان کنٹینرزکی گمشدگی کی درست معلومات سے آگہی ہوتی اور ایساف کنٹینرز غائب کرنے والے اصل عناصر کی درست انداز میں نشاندہی ہوتی لیکن نیب نے اپنے تحقیقاتی عمل کے دوران نہ توٹریڈ سیکٹر کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی ایساف کے غائب ہونے والے کنٹینرز کی پیشہ وارانہ بنیادوں پر تحقیقات کیں۔ کسٹمز ایجنٹس اور بانڈڈ کیئریرز کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ تحقیقاتی عمل میں قومی جزبہ شامل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نیب نے سرسری نوعیت کی تحقیقات کرکے اس بھاری بھرکم اسکینڈل سے چھٹکارا حاصل کرنے اور عدالت عالیہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ نیب نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس امر کی وضاحت ہی نہیں کی کہ اسکینڈل میں ملزم اورمجرم کون ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایساف کے مذکورہ کنٹینرزکی ترسیل میں استعمال ہونے والی سیکڑوں گاڑیوں کو اسمگلنگ کے قانون2(S) کے مطابق کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ قانون کے مطابق اسمگلنگ کے زمرے میں آنے والے کارگو کی حامل گاڑی کو ضبط کرلیا جاتاہے اوران گاڑیوں کے مالکان کو بھی گرفتارکرلیا جاتا ہے تاکہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ ان کے ساتھ کون کون ملوث ہے، اگرقانون کے مطابق ان گاڑیوں کو ضبط کرلیاجاتا تو بہت پہلے ریکوری ممکن تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ فی الوقت بھی وہ تمام مال بردار ٹرک جو ایساف کنٹینراسکینڈل میں ملوث تھے محکمہ کسٹمزمیں باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اورافغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت ملک کی خشک گودیوںکے لیے کنسائنمنٹس کی ترسیل کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایساف کنٹینرزاسکینڈل میں ملوث عناصر سے14 یوم میں 53 ارب روپے وصول کرنے کے عدالتی احکامات کے بعد کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس میں اضطراب کی لہردوڑ گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے اس ضمن میںکی گئی تحقیقات میں صرف 180 کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس کو ملوث کیا گیا ہے جنہیں نیب کی جانب سے نوٹسز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔
ٹریڈ سیکٹر کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے ایساف کے کمرشل ونان کمرشل کارگو کے غائب ہونے والے7922 کنٹینرزکے سلسلے میں متعلقہ ٹرانسپورٹرز سے تفتیش نہیں کی گئی حالانکہ ایساف کے کنٹینرز کی ترسیل کی ذمے داری لاجسٹک کے ایک قومی ادارے کے پاس تھی لہٰذا ایساف کے کمرشل ونان کمرشل کنسائنمنٹس کی افغانستان تک ترسیل کا ذمے داربھی یہی ادراہ تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ایساف کنٹینرز کو متعلقہ ذمے دار لاجسٹک کمپنی امان گڑھ اور چمن میں قائم ٹرمینلز پراتارنے کے بعدمخصوص بارڈرایجنٹ کے حوالے کرتی تھی جو افغانستان میں ترسیل کے لیے دوسرے ٹرک پر ان کنسائنمنٹس کو لدواتا تھا۔
ٹریڈ سیکٹر کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے تحقیقات کے دوران اگرمتعلقہ ذمے دار ٹرانسپورٹرز اور بارڈرایجنٹس سے بھی تفتیش کی جاتی تو ان کنٹینرزکی گمشدگی کی درست معلومات سے آگہی ہوتی اور ایساف کنٹینرز غائب کرنے والے اصل عناصر کی درست انداز میں نشاندہی ہوتی لیکن نیب نے اپنے تحقیقاتی عمل کے دوران نہ توٹریڈ سیکٹر کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی ایساف کے غائب ہونے والے کنٹینرز کی پیشہ وارانہ بنیادوں پر تحقیقات کیں۔ کسٹمز ایجنٹس اور بانڈڈ کیئریرز کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ تحقیقاتی عمل میں قومی جزبہ شامل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نیب نے سرسری نوعیت کی تحقیقات کرکے اس بھاری بھرکم اسکینڈل سے چھٹکارا حاصل کرنے اور عدالت عالیہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ نیب نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس امر کی وضاحت ہی نہیں کی کہ اسکینڈل میں ملزم اورمجرم کون ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایساف کے مذکورہ کنٹینرزکی ترسیل میں استعمال ہونے والی سیکڑوں گاڑیوں کو اسمگلنگ کے قانون2(S) کے مطابق کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ قانون کے مطابق اسمگلنگ کے زمرے میں آنے والے کارگو کی حامل گاڑی کو ضبط کرلیا جاتاہے اوران گاڑیوں کے مالکان کو بھی گرفتارکرلیا جاتا ہے تاکہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ ان کے ساتھ کون کون ملوث ہے، اگرقانون کے مطابق ان گاڑیوں کو ضبط کرلیاجاتا تو بہت پہلے ریکوری ممکن تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ فی الوقت بھی وہ تمام مال بردار ٹرک جو ایساف کنٹینراسکینڈل میں ملوث تھے محکمہ کسٹمزمیں باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اورافغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت ملک کی خشک گودیوںکے لیے کنسائنمنٹس کی ترسیل کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔