بھارت میں میڈیا کے کردار پر بحث
پریس کونسل آف انڈیا کی تازہ رپورٹ میں بڑی شدت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز کا اختیار میڈیا کو دے دیا جائے۔
لاہور:
بھارتی پریس نے اپنی آزادی کی جدوجہد میں بالآخر کامیابی حاصل کر لی ہے اور آج بھارت کا پریس کم از کم حکومتی دباؤ سے ضرور آزاد نظر آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پریس مکمل طور پر آزاد ہو گیا ہے کیونکہ کئی ایسی طاقتیں ہیں جو میڈیا کو مکمل آزاد نہیں ہونے دیتیں۔ تاہم دنیا کی تمام جمہوریتوں کے مقابلے میں بھارتی پریس کو نسبتاً آزاد تصور کیا جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا بڑی حد تک ریاستی مالکان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جو پراپرٹی کا لین دین کرتے ہیں اور اپنی آمدنی کو ایک یا دو چینل رکھنے پر استعمال کرتے ہیں لیکن پرنٹ میڈیا کے بارے میں یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا۔
جہاں تک فلموں کا سوال ہے تو اس حوالے سے حکومت کا دباؤ بہت سخت ہوتا ہے جو کہ واضح طور پر نظر بھی آتا ہے۔ ہر فلم کو نمائش کے لیے سنسر سرٹیفکیٹ لازماً درکار ہوتا ہے۔ جب آئین میں اظہار رائے کی آزادی موجود ہے جو کہ سب کے لیے اور سب ضابطوں اور منصوبوں کے لیے یکساں موثر ہے مگر سنسر سرٹیفکیٹ کا لازمی حصول اس آئینی اصول پر قدغن عاید کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن آخر فلم سازوں نے اس پابندی کے خلاف کبھی سوال کیوں نہیں اٹھایا اس کی مجھے سمجھ نہیں آ سکی۔ ویسے تو اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی لہذا اس معاملے کو اب بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی فلم پر یہ کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ فلم ڈائریکٹر بھنسالی نے مضمرات کا سامنا کرنے کو ترجیح دی ہے۔
ان پر راجستھان میں حملہ کیا گیا جہاں وہ فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ ڈٹے رہے۔ راجستھان کے انتہا پسند ہندوؤں نے ''کرینی بریگیڈ'' نام کی ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس نے راجستھان کے ایک سینما گھر میں فرنیچر کی توڑ پھوڑ کی اور پھر اس کو آگ لگا دی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر آزاد خیال آوازیں بھی خاموش رہیں حالانکہ ان کی خاموشی انھیں اور زیادہ نمایاں کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں بھنسالی لازماً خود کو تنہا محسوس کر رہے ہونگے۔ وہ پدماوتی نامی فلم بنا رہے ہیں لہٰذا اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ فلم حقیقت پر مبنی ہے یا محض افسانوی کہانی ہے البتہ بھنسالی کا یہ پختہ عزم ہے کہ اس فلم کو اسکرین پر دکھانے کے لیے مکمل کر لیا جائے اور ہم اس کے عزم کے استحکام کے لیے اس کی تعریف کرتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی علم ہے کہ زیادہ تر فلم ڈائریکٹر بھنسالی کی تقلید نہیں کریں گے کیونکہ فلم سازی کے لیے بہت بھاری رقم بھی لگائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ فنانسر اس قسم کے مشکوک منصوبے پر رقم لگانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فنانسر حضرات کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ فلم کس موضوع پر بنائی جا رہی ہے ان کی تمام تر توجہ لگائی جانے والی رقم کی واپسی پر ہوتی ہے جب کہ بھنسالی نتیجے کی پروا کیے بغیر اپنی فلم مکمل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ فلم انتہا پسندوں کی غنڈہ گردی کا نشانہ بن گئی ہے۔
سب سے بری بات یہ ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ حکمران بی جے پی بھنسالی کے مخالفین کی حمایت کر رہی ہے۔ اس فلم کے ذریعے ہندو توا کی مخالفت کی گئی ہے اسی لیے بی جے پی چاہتی ہے کہ اس فلم کی نمائش کو کسی نہ کسی طرح رکوا دیا جائے اور بھنسالی کو ہندو دشمن گروپ کا رکن ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بھنسالی کو کس وجہ سے ہندو دشمن کہا جا رہا ہے اور اگر وہ پدماوتی نامی فلم بنانے سے باز آ جائے تو اس کو قابل فخر ہندو تصور کر لیا جائے گا۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ بی جے پی کی چوٹی کی قیادت اس معاملے میں خاموشی کا مظاہرہ کر رہی ہے البتہ اس نے اپنے حمایتیوں کو قانون شکنی کے لیے آگے کر رکھا ہے حالانکہ قانون شکنی پر ان لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جانا چاہیے۔ انھیں احساس ہونا چاہیے کہ اگر اس قسم کی سرگرمیوں کو روکا نہ گیا تو معاشرے میں اس قسم کی ابتری اور انتشارپیدا ہو سکتا ہے۔ ایک طرف حکومت بھارت میں سرمایہ کاری لانے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں لگی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف فلم سازی کے خلاف اس کی یہ روش سرمایہ کاری کو دور بھگانے کا موجب بنے گی۔
کئی سال پہلے مشہور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر گلزار کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی فلم آندھی کو پردہ اسکرین پر آنے سے پیشتر سنسر بورڈ نے بہت بری طرح کانٹ چھانٹ دیا تھا۔ البتہ اس سے ان لوگوں کو یقیناً ایک پیغام مل گیا تھا جو کہ وزیراعظم اندرا گاندھی کی آمرانہ حکومت کے خلاف تھے۔ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تیسری قوت میدان میں آئے جو نہ فرقہ وارانہ ہو اور نہ ہی آمرانہ۔ لیکن ایسی کسی تیسری قوت کی آمد کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے البتہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اس صورت حال میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ کردار اگر لالو پرشاد یادیو اور اس کی فیملی کو دے دیا جائے تو یہ کوئی اچھی چوائس نہیں ہو گی۔
مرکزی حکومت نے پریس اور میڈیا کے مشن کے قیام کے مطالبے کو نہ جانے کس وجہ سے قبول نہیں کیا کیونکہ ملکی آزادی کے بعد سے صرف دو کمیشن بنائے گئے ہیں ایک تو آزادی کے فوراً بعد بنا دیا گیا تو دوسرا 1977ء میں ایمرجنسی کے بعد قائم کیا گیا لیکن اس دوسرے کیمشن کی سفارشات پر عملدرآمد اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ مسز گاندھی دوبارہ برسراقتدار آ گئیں اور وہ کسی ایسے اقدام کے حق میں نہیں تھیں جس کی ایمرجنسی سے قبل مخالفت کی گئی ہو۔ اقتدار میں دوبارہ آنے کے بعد موصوفہ نے اپنے ناقدین کے خلاف بڑا سخت انتقامی سلوک کیا۔ سب سے زیادہ اہم بات اخبارات' ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر سنسر شپ عائد کرنا تھا۔ اگرچہ امریکا میں بھی کسی نہ کسی شکل میں سنسر شپ موجود ہے لیکن اس طرح کی نہیں جیسے کہ بھارت میں اندرا گاندھی کے وقت نافذ کی گئی تھی۔
یہ درست ہے کہ میڈیا نے اپنی آزادی کے لیے بہت طویل سفر طے کیا ہے پھر بھی پریس کونسل آف انڈیا کی تازہ رپورٹ میں بڑی شدت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز کا اختیار میڈیا کو دے دیا جائے لیکن حکمرانوں کی طرف سے اس مطالبے پر قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ کونسل کا کہنا ہے کہ صحافت کے پیشے میں داخلے کے لیے اہلیت کا معیار مقرر کیا جانا چاہیے کیونکہ میڈیا کا عام لوگوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اس لیے اس میں نااہل لوگوں کے شامل ہونے سے بڑی خرابی اور انتشار کا امکان پیدا ہو سکتا ہے اس وجہ سے لازمی ہے کہ میڈیا میں داخلے کے لیے کوالیفکیشن کا ایک معیار مقرر کیا جائے۔
اگرچہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اس حوالے سے کوئی ریموٹ کنٹرول ہونا چاہیے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک جمہوری معاشرے میں پریس معاشرے کی راہ متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جس معاشرے کو منتخب نمایندے کنٹرول کریں وہ بھی انتشار کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آمرانہ حکمرانی کی نسبت یہی چیز جمہوریت کے زیادہ قریب ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)