مڈل کلاس کی فکری ایلیٹ
ہماری اشرافیہ احتسابی اقدامات کو غیر سیاسی قوتوں کی سازش کا نام دے رہی ہے
جن ملکوں میں جمہوری کلچر مضبوط ہے، عوام میں سیاسی اور سماجی شعور موجود ہے اور وہ انتخابات میں بغیر کسی دباؤ ترغیب سے آزادانہ فیصلے کرتے ہیں ان ملکوں میں جمہوریت کے ثمرات کسی حد تک عوام تک پہنچتے ہیں۔ کسی حد تک اس لیے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ خواہ وہ براہ راست ہو یا باالواسطہ جمہوریت کے مکمل ثمرات کو عوام تک پہنچنے نہیں دیتی۔ سرمایہ دارانہ نظام نے لامحدود حق ملکیت دے کر ایلیٹ کلاس کو لوٹ مارکی کھلی آزادی فراہم کردی ہے یوں قومی دولت مٹھی بھر ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جاتی ہے اور عام آدمی قومی دولت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاتا ہے۔
ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں بھی ترقی اور خوشحالی کا جو پروپیگنڈ کیا جاتا ہے اس سے عوام کا تعلق برائے نام ہی ہوتا ہے۔ آج مغربی ملکوں پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان ملکوں کی ترقی اور خوشحالی قسطوں کی معیشت سے جڑی ہوئی ہے۔ ان ملکوں کے سرمایہ دار طبقات نے عوام کو ضروریات زندگی قسطوں پر حاصل کرنے کی جو سہولت دی ہے اس اکانومی میں عوام کو قسطیں سود سمیت واپس کرنا پڑتی ہیں۔
لیکن ان ملکوں کی جمہوریت میں یہ خوبی بہرحال ہے کہ عوام دیکھ پرکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ منتخب نمایندے عوام کے اندر رہتے ہیں اورعوام کی پہنچ میں رہتے ہیں جس کی وجہ انھیں عوام کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں۔ ان ملکوں کے عوام کی زندگی پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہوتی ہے لیکن ایک پرمسرت زندگی گزارنے کا حق بہرحال صرف ایلیٹ کو ہی حاصل رہتا ہے، عوام کی بھاری اکثریت کو نسبتاً مطمئن زندگی گزارنے کے لیے بے انتہا محنت کرنا پڑتی ہے۔
حصول روزگار کے لیے پسماندہ ملکوں سے آنے والے دن رات محنت کرکے اتنی آمدنی حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ معاشی مساوات کا تصور بہرحال ان ملکوں میں ناپید ہوتا ہے اس لیے کہ قومی دولت کا بہت بڑا حصہ بل گیٹس جیسوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ جاتا ہے جو عوام کی پہنچ سے دور ہوتا ہے۔
پسماندہ ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ انھیں نیابتی جمہوریت کی زنجیروں میں جکڑ کر پروپیگنڈ یہ کیا جاتا ہے کہ ان ملکوں میں عوام کو جمہوریت کی نعمت حاصل ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ نیابتی جمہوریت دراصل اشرافیہ کی جمہوریت ہوتی ہے۔ اس جمہوریت میں عوام کو جو حق حاصل ہوتا ہے وہ ووٹ کا حق ہوتا ہے اور اس مشروط حق کا پروپیگنڈہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ عوام جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس فراڈ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے پسماندہ ملکوں کے انتخابی نظام کو سمجھنا ہوگا۔
بلاشبہ غریب عوام ووٹ تو ڈالتے ہیں لیکن ووٹ لینے والوں میں غریب طبقات کے نمایندے موجود نہیں ہوتے کیونکہ پسماندہ ملکوں کی پرفریب جمہوریت میں وہی شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے جو کروڑوں روپے انتخابات پر خرچ کرسکے اور اتنی بھاری رقوم انتخابی مہموں پر خرچ کرنے کی غریب آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔
انتخابات کو ایسی سرمایہ کاری بناکر رکھ دیا گیا ہے جس میں ایک کروڑکی سرمایہ کاری کرنے والا اکیس کروڑ واپس لیتا ہے۔ اس جمہوریت کو نیابتی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے جس میں ایلیٹ کلاس عوام کی نمایندہ تو بن جاتی ہے لیکن عوام کو کچھ نہیں دیتی سوائے پرفریب نعروں اور وعدوں کے۔ حیرت ہے کہ اس نیابتی پرفریب جمہوریت کی حقیقت کو سمجھنے کے بجائے ہماری مڈل کلاس کے اہل علم اور اہل دانش آنکھ بند کرکے اس کی ایسی حمایت کرتے ہیں کہ اس جمہوریت سے عوام کی خوشحالی وابستہ ہے حالانکہ یہ جمہوریت سوائے منافع بخش سرمایہ کاری کے اور کچھ نہیں ہوتی۔ بے چارے عوام صرف ووٹ ڈالنے کی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔
پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ملکوں میں اس لیے ہوتا ہے کہ اس ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے دن رات محنت کرتی ہے اور مٹھی بھر ایلیٹ اس نیابتی جمہوریت کو لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان میں 70 سال سے جاری ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہے جس کی داستانوں سے میڈیا اور عدالتیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ اعلیٰ سطح اشرافیہ احتساب کی زد میں ہے۔
اس احتسابی اقدامات کو اشرافیہ اپنی توہین سمجھتی ہے اور اس حوالے سے اس قدر مشتعل ہے کہ صبح سے شام تک اس کے کارندے احتسابی اداروں کی کھلے عام توہین کر رہے ہیں اور ان اقدامات کو جمہوریت کے خلاف سازش کا نام دے کر احتسابی اقدامات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مدبرین بھی ایلیٹ کی آواز میں آواز ملاکر احتساب کو سازش کا نام دے رہے ہیں۔
ہماری مڈل کلاس ایلیٹ کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس اشرافیائی جمہوریت کو لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے کے فلسفے کو اپنا کر دانستہ یا نادانستہ ایلیٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لولی لنگڑی جمہوریت کے پرفریب فلسفے کو اس وقت مانا جاسکتا ہے جب اس سے جمہوریت میں شرکت کے لیے عوام کو راستہ دیا جائے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اس قدر خودسر ہوگئی ہے کہ اس نے اس نیابتی جمہوریت کو بادشاہت میں بدل کر رکھ دیا ہے اور ہر اشرافیائی خاندان ولی عہدوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی اتنی لمبی لائنیں لگا رہا ہے کہ یہ لائنیں کئی نسلوں تک چل سکتی ہیں، پھر لولی لنگڑی جمہوریت کے عوامی جمہوریت میں بدلنے کے کتنے امکانات رہ جاتے ہیں؟
آج اشرافیہ کے محلوں میں کہرام مچا ہوا ہے وہ اس ناخوشگوار حقیقت کو سمجھ رہی ہے کہ اگر ایک بار 70 سال سے عوام کے سروں پر مسلط Status Quo ٹوٹ گیا تو پھر دوبارہ سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مڈل کلاس کی فکری ایلیٹ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے Status Quo کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز کی حمایت کرتی اور یہ مطالبہ کرتی کہ اشرافیہ کو مستحکم کرنے والے جاگیردارانہ اور انتخابی نظام کو تبدیل کرکے غریب عوام مزدوروں کسانوں کے اہل اور ایماندار نوجوانوں کو آگے آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقعہ فراہم کیا جائے لیکن ان بامعنی مطالبوں کو نظرانداز کرکے جمہوریت بچاؤ کے احمقانہ نعرے لگا رہی ہے۔
ہماری اشرافیہ احتسابی اقدامات کو غیر سیاسی قوتوں کی سازش کا نام دے رہی ہے اور واویلا کر رہی ہے کہ غیر سیاسی قوتیں جمہوریت کو تباہ کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کی جگہ اگر غیر سیاسی قوتیں لے لیتی ہیں تو اس اشرافیائی جمہوریت کو ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا لیکن مڈل کلاس کی فکری ایلیٹ عوام میں جمہوری شعور پیدا کرکے غیر سیاسی قوتوں کا راستہ روک سکتی ہے۔
یہاں اس دلچسپ حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے کہ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک اقتدار میں آنے والی غیر جمہوری حکومتوں کے خلاف تحریکیں چلانے کے بجائے ہماری سیاسی اشرافیہ ان غیر سیاسی اور غیر جمہوری حکومتوں کا حصہ بنتی رہی ہے۔ اگر انھیں موقع ملے تو یہ آج بھی کسی NRO کو گلے لگانے اور سیاست میں زندہ رہنے اور سیاست پر دوبارہ قبضہ کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے گی۔