بے اختیار بلدیہ عظمیٰ کا ایک سال
بلدیہ عظمیٰ کراچی ایک سال میں کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکی ہے کیونکہ وہ اور ڈی ایم سیز شہر کا کچرا تک نہیں اٹھوا سکتیں
KARACHI:
بلدیہ عظمیٰ کراچی بے اختیار ہونے کا ہی ریکارڈ نہیں رکھتی بلکہ اس کے میئرکو منتخب ہونے کے بعد تین چار ماہ جیل میں بھی گزارنا پڑے تب کہیں جاکر انھیں ضمانت پر رہائی ملی اور وہ اب بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ۔ ایم کیو ایم الزام لگا چکی ہے کہ عملی طور پر تو بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایک منتخب میئر ہے جب کہ دوسرا سرکاری میئر وزیراعلیٰ سندھ ہیں جن کی حکومت بلدیہ عظمیٰ کے اختیارات محدود کرنے کے بعد بلدیاتی حکمران بھی بنی ہوئی ہے، سندھ حکومت وہ بلدیاتی کام بھی خود کرا رہی ہے جو حکومت سندھ کو نہیں بلکہ حکومت کے مکمل ماتحت بلدیہ عظمیٰ کی ذمے داری بنتے ہیں۔
بد قسمتی سے ملک بھر میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سمجھتے ہیں کہ سڑکیں و نالیاں بنانا، فراہمی و نکاسی آب، صحت، تعلیمی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ان کا اصل کام ہے جب کہ آئینی طور پر یہ ان کی نہیں بلکہ عوام کے نچلی سطح پر منتخب کیے جانے والے بلدیاتی عہدیداروں کی ذمے داری ہے جو نہ وی آئی پی حیثیت رکھتے ہیں نہ معمولی بات پر ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔
ارکان اسمبلی کے مقابلے میں عوام کا اپنے بلدیاتی عہدیداروں سے ملنا بھی آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے ہی شہر میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان رہتے ہیں جب کہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں منتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی زیادہ تر وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں رہتے ہیں اور مہمانوں کی طرح اپنے آبائی حلقوں میں آتے ہیں اور انتخابات ہی میں انھیں اپنے ووٹر یاد آتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے ملک کو پہلی بار نہایت با اختیار بلدیاتی نظام دے کر ضلع حکومتیں قائم کرائی تھیں جب کہ جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں نے با اختیار بلدیاتی نظام ختم کرکے کمشنری نظام کے تحت انگریز دورکا محکوم بلدیاتی نظام بحال کرکے جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی نظام تباہ کرادیا۔
ملک بھر میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کرادیے گئے تھے جس کے کئی ماہ بعد گزشتہ سال اگست میں بلدیاتی اداروں نے کام شروع کیا تھا اور سب سے بے اختیار سندھ میں ہے۔ سندھ میں کراچی سمیت ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد یونین کونسلوں اور یونین کمیٹیوں کو دفاتر تک نہیں ملے ہیں۔ ضلع نظام میں ہر یوسی کو دو لاکھ روپے ماہانہ ملاکرتے تھے اور سندھ میں ہر یوسی کے لیے ایک لاکھ روپے ماہانہ کا جو اعلان ہوا تھا وہ بھی نہیں دیا جارہا اور یونین کونسلیں مفلوج ہوچکی ہے۔
اندرون سندھ بلدیاتی عہدیداروں کی واضح اکثریت پیپلز پارٹی کی ہے جو اپنی حکومت کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرتے اور انھوں نے کمائی کے لیے دوسرے طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت سے یہ بھی شکایت عام ہے کہ وہ اپنی پارٹی والے بلدیاتی عہدیداروں کو نواز رہی ہے اور متحدہ سمیت دیگر بلدیاتی عہدیداروں سے امتیازی سلوک کررہی ہے۔
بلدیاتی اداروں میں بلدیہ عظمیٰ کراچی ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ ہے جس کے اختیارات کم کرنے کے بعد وہ ادارے بھی سندھ حکومت نے اپنے قبضے میں کر رکھے ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کے پاس ہونے چاہئیں۔ کراچی دشمنی میں کراچی کے 18 ٹاؤنز ختم کرنے کے بعد ان کی زونزکی حیثیت بھی برائے نام ہے جنھیں کوئی اختیار نہیں اور تمام اختیارات ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں کے پاس ہیں جو سابقہ ٹاؤن کونسلوں کے برابر بھی نہیں ہیں۔
ملک اور اندرون سندھ میونسپل کارپوریشن کا سربراہ میئر کہلاتا ہے مگر کراچی میں ڈی ایم سی کے سربراہ کو میئر قرار دینے میں سندھ حکومت کو نہ جانے کیا مسئلہ ہے کہ کراچی کی چھ ایم ڈی ایم سیزکے سربراہوں کو چیئرمین کہاجاتا ہے ۔ کراچی کی چھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں میں تین متحدہ اور دو پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ ڈی ایم سی ویسٹ کا چیئرمین متحدہ کا منتخب ہوا تھا۔
سوا سال قبل چیئرمین ویسٹ کے خلاف حکم امتناعی دیا گیا تھا جس کے بعد وہاں اب بھی سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ نے اپنے جارحانہ مزاج رکھنے والے وسیم اختر کو میئر بنایا تھا جماعت اسلامی کے شہر میں لگے بینروں کے مطابق وہ شہر کی خدمت نہیں بلکہ سیاست چمکا رہے ہیں اور وہ اپنے موجودہ اختیارات استعمال کرنے کی بجائے اختیارات کا رونا رورہے ہیں جو کسی حد تک جائز بھی ہے، میئر کراچی کو بھی پتا ہے کہ حکومت انھیں مزید اختیار نہیں دے گی۔ متحدہ نے اختیارات کے حصول کے لیے کورٹ سے بھی رجوع کر رکھا ہے اور کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی متحدہ کی درخواست کا سماعت کے لیے نمبر نہیں آرہا اور اختیارات کا تنازعہ مسلسل چل رہا ہے ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات تو کرادیے تھے مگر ایک سال سے زیادہ عرصے تک بلدیاتی انتخابات مکمل نہیں کرائے گئے اور منتخب لوگ گھر بیٹھے انتظار کرتے رہے ۔ سپریم کورٹ چاہتی تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات بھی مل جاتے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ بلدیہ عظمیٰ اختیارات ملنے کے انتظار میں سوا سال گزارچکی ہے اور مایوس ہوکر میئر بھی کچھ چپ ہوئے ہیں۔ وزیر بلدیات سندھ صاف کہہ چکے ہیں کہ اختیارات کا بہانہ نہ کرو حاصل اختیارات میں ہی کام کرکے دکھاؤ۔ ناظمین جیسے اختیارات بھول جاؤ۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی ایک سال میں کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکی ہے کیونکہ وہ اور ڈی ایم سیز شہر کا کچرا تک نہیں اٹھوا سکتیں وہ بھی سندھ حکومت کے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ذمے داری ہے ۔ فراہمی و نکاسی آب واٹر بورڈ کا کام ہے جو منتخب بلدیہ عہدیداروں کو اہمیت نہیں دیتا سب سے بڑا کمائی اور کرپشن کا ادارہ ایس بی سی اے۔ کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے سندھ حکومت کی کمائی کا ذریعہ ہیں اور شہر کا ماسٹر پلان بھی بلدیہ عظمیٰ کے اختیار میں نہیں ہے۔
جس شہر میں بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہ دے سکتے ہوں جن کا فنڈ محدود اور اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہوں وہاں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ متحدہ وزیراعلیٰ سندھ کو دوسرا میئر اس لیے کہتی ہے کہ شہر میں شارع فیصل، یونیورسٹی روڈ کے بڑے تعمیری منصوبے سندھ حکومت نے مکمل کرائے اور بلدیہ عظمیٰ کے ذمے داروں کے حصے میں کمیشن بھی نہیں آیا۔
ڈپٹی میئر نے یوں تو سوا سال متحدہ کا بن کر گزار لیا اور اب پی ایس پی میں مجبوری میں شامل ہوکرکہہ رہے ہیں کہ ہم عوام کے مجرم ہیں صرف اختیارات کا رونا روتے رہے ہم بہت کچھ کرسکتے تھے مگر نہیں کیا ہمیں عوامی مینڈیٹ ملا مگر ہم ڈلیور نہ کرسکے۔
ڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے خوشامد میں مصطفی کمال کے دور میں ترقی کی تو بات کی مگر یہ بھول گئے کہ موجودہ میئر اور سابق سٹی نظام کے اختیارات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک سال میں کراچی میں تبدیلی تو نہیں آئی بلکہ پورا شہر کچرا گھر بن کر رہ گیا۔ گلیاں اور چھوٹی سڑکیں تو کیا اہم شاہراہیں سیوریج سے زیر آب، روشنیاں معدوم، پارک و پلے گراؤنڈ اجڑے ہوئے، کھلے گٹر، پینے کا پانی نایاب خود اپنی تباہ حالی بیان کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے شہر قائد کا جو حال بیان کیا ہے وہ ارباب اختیار کیلیے لمحہ فکریہ ہے۔