غیر فطری سیاسی اتحاد
ملک کو اتحادی سیاست کی وجہ سے آج بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ISLAMABAD:
کراچی پریس کلب میں پر ہجوم پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی نے ایک نام ، ایک جھنڈے اور ایک منشور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، آپس میںگلے بھی ملے اور ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی مگر پھر اچانک ایک رات میں کیا ہوا کہ یہ اتحاد چوبیس گھنٹے بعد ہی ٹوٹ گیا۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر شدید الزامات لگائے اور یہ بھی کہا کہ ہمیںآپس میں ملانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا ۔
ان بیانات کے بعد یہ بات قومی ٹاک شوکا حصہ بن گئی۔کیا پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار رہا ہے؟ کیا پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہونا چاہیے؟ ماضی کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری ہوئی ہے، جب اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے اپنی مخالف سیاسی جماعت کو اقتدار سے اتارنے اور دوسری جماعت کو چڑھانے کے لیے مصنوعی اتحاد بنائے۔ اقتدار سے اتارنے اورگرانے کا کھیل تو لیاقت علی خان کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا ، جو آج بھی جاری اور ساری ہے مگر 70 کی دہائی کے بعد اس کھیل اور اس کھیل کے کردارکھل کر سامنے آنا شروع ہوئے ۔
1977ء میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزب اختلاف کی طرف سے تحریک کا آغاز ہوا تو دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا کام خفیہ ہاتھوں نے ہی انجام دیا۔ ملک بھر میں بھٹو مخالف تحریک کو منظم اور متحرک کیا گیا۔بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بھٹو مخالف تحریک کو تحریک نظام مصطفی کا نام دے کر ملک بھر میں پھیلایا گیا ۔دینی جماعتوں نے پیپلزپارٹی سے مذاکرات کا دور اس قدر طویل کیا کہ جنرل ضیا الحق کو بھٹوکا تختہ الٹنے کا موقع مل گیا ۔دس سال بعد جب جمہوریت کی بحالی کا عمل شروع ہوا تو اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے دائیں بازو کی جماعتوں نے مل کر ایک اتحاد بنایا جس کا مقصد 1988ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا تھا۔
اسلامی جمہوری اتحاد 9 جماعتوں پر مشتمل تھا، جن میں پاکستان مسلم لیگ، نیشنل پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی تھیں۔ حمید گل نے اگست 2009ء میں انکشاف کیا کہ '' انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تاکہ دائیں بازو کی قوتوں کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے''۔ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی جمہوری اتحاد نے قومی اسمبلی میں صرف 53 نشستیں حاصل کیں جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 93 نشستیں جیت کر مرکز میں حکومت بنائی۔
پیپلز پارٹی کو شکست دینے اور اسلامی جمہوری اتحاد کو کامیاب کرنے کے لیے سیاست دانوں میں جورقوم تقسیم کی گئی اس حوالے سے اصغر خان کا مقدمہ آج بھی زندہ ہے۔ آپ اسے جرم کہیں یا کھیل اس میں نمایاں کردار پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت ان سیاستدانوں کا رہا ہے جو اقتدار کے تخت اور ایوانوں کی کرسیوں میں بیٹھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ ایسے سیاست دانوں سے بھری پڑی ہے جن کی سیاست صرف اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہتی ہے ، اس سے زیادہ اْن کی نظر میں سیاست کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ، ملک کو اتحادی سیاست کی وجہ سے آج بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
یہ اتحاد کبھی انتخابات سے پہلے توکبھی بعد میں بنتے ہیں، سیاسی اتحاد کی مدد سے کبھی کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جاتی ہے توکبھی حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادی سیاست کا سہارا لینا پڑتا ہے، کبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے اتحاد بنے تو کبھی وطنِ عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اتحاد بنے،اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اتحادی سیاست کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے۔
جیسے جیسے 2018 کے انتخابات قریب آرہے ہیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بیٹھکیں شروع ہوگئی ہیں، یہ الگ موضوع ہے کہ کیا 2018 میں انتخابات ممکن ہیں۔ ابھی تو ہم پاکستان میں بننے والے نئے اتحاد پر بات کررہے ہیں۔ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کوزندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ وہ ہی اتحاد ہے جس نے جنرل پرویز مشرف کے دور میںخیبر پختونخوا میں 2002 سے 2007 تک حکومت کی تھی بلکہ ا یم ایم اے نے قومی اسمبلی کی 57 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اورملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی تھی ۔
ایک بار پھر مذہبی بنیادوں پر دینی جماعتوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس میںجماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز ہاشمی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس اتحاد میں مزید کون کون سی جماعتیں ان کی حصے دار ہوں گی اس پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ''خاموشی سے طالبان کو ابھارنے کے لیے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور ڈیفنس آف پاکستان کونسل (ڈی پی سی) کا عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے طالبان کو منظر عام پر لانے کے منصوبے کو بڑھاؤا دے گا'' حالیہ واقعات اس بیان کی تائیدکرتے ہیں جن میں جماعت الدعوۃ کی نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کا قانون کے خلاف ہونے کے باوجود قیام اور مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں 40 سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تنظیم ڈی پی سی کا سیاست میں آنے کا اعلان شامل ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں یہ اتحاد بھی میاں نواز شریف کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش کا حصہ ہے۔
آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سربراہی میں بھی ایک اتحاد وجود میں آیا ہے، ان کی رکن جماعتوں کی تعداد 23 ہے، اس لحاظ سے اسے ''پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد '' کہا جاسکتا ہے، اگرچہ اتحاد کی تشکیل کے اگلے ہی روز دو تین جماعتوں نے اتحاد سے لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا۔ اس اتحاد میں شامل کئی جماعتوں کے پاس اسمبلی کی کوئی نشست بھی نہیں، بہت سی جماعتیں تو ایسی ہیں جنہوں نے کبھی الیکشن لڑا ہی نہیں ۔ ان جماعتوں میں سے ایک مسلم لیگ (کونسل) ہے اس جماعت کے قائدخود تو امریکا میں مقیم ہیں انھوں نے اس جماعت کو تنِ تنہا زندہ رکھا ہوا ہے۔
اتحاد میں شامل دوسری جماعتوں کا حال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے، انھیں تانگہ پارٹی بھی نہیں کہا جاسکتا۔یہvote one men one پارٹی ہیں ۔ پرویز مشرف نے 23 جماعتی اتحاد کے اکابرین سے ٹیلی فونک خطاب میں فرمایا کہ اگر الیکشن سے مسائل حل نہ ہوں تو طاقتور ادارے مِلکر''کچھ اور''کریں، جو جماعتیں عوامی ووٹ بینک اور عوامی طاقت کی بنیاد پر انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکتیں وہ چور دروازوں سے اقتدار میں شریک ہونے کا خواب دیکھتی ہیں۔
ان کی نظریں طاقتور اداروں پر ہی جمی رہتی ہیں ، انھیں کسی بھی طرح اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ تحریک انصاف نے بھی پنجاب سے نکل کر سندھ کا رخ کیا ہے جہاں وہ سندھی قوم پرستوں سے اتحاد کر رہی ہے تو دوسری طرف سندھ کے پیر صاحب پگارا پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے گرینڈ الائنس بنا رہے ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم دھڑوں کے اختلاف سے مایوس ووٹروں کواپنے حق میں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انتخابات سے قبل جس طرح کے غیر فطری اور مصنوعی اتحاد تشکیل دیے جارہے ہیں جہاں پارٹی نظریات اور پارٹی منشورکو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، جب اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی تعداد بڑھنا ہی مقصد ہو وہاںانتخابی عمل مکمل ہونے اور جمہوری حکومت تشکیل پانے کے بعد بھی سیاسی عمل میں عدم استحکام اور انتشار موجود رہے گا۔
اس صورت حال میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جس عمارت کی بنیاد ہی نازک کانچ پر رکھی جا رہی ہو وہ عمارت کیا بوجھ اْٹھائے گی۔رہی بات کراچی میں مہاجر سیاست کی، اس پر بات آیندہ کے کالم پر چھوڑتے ہیں نا جانے دونوں جماعتوں کی علیحدگی دوبارہ کب ملاپ میں بدل جائے۔