ناشُکرے انسان

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان کے ناشکرے ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے


اصل کامیابی یہ ہے کہ آخرت کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزاری جائے۔ فوٹو: فائل

سورۃ العادیات کا آسان ترجمہ : '' قسم ہے اُن گھوڑوں کی جو ہانپ ہانپ کر دوڑتے ہیں۔ پھر جو (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں اُڑاتے ہیں۔ پھر صبح کے وقت یلغار کرتے ہیں۔ پھر اُس موقع پر غبار اُڑاتے ہیں۔ پھر اُسی وقت کسی جمگھٹے کے بیچوں بیچ جا گھستے ہیں۔ کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اس بات کا گواہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مال کی محبت میں بہت پکّا ہے یعنی وہ دولت کا رسیا ہے۔ بھلا کیا وہ وقت اُسے معلوم نہیں ہے جب قبروں میں جو کچھ ہے، اُسے باہر بکھیر دیا جائے گا۔ اور سینوں میں جو کچھ ہے، اُسے ظاہر کردیا جائے گا۔ یقینا اُن کا پروردگار اُس دن اُن (کی جو حالت ہوگی اُس) سے پوری طرح باخبر ہے۔''

خلاصۂ تفسیر : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں انسان کو بتایا ہے کہ وہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اور عمومی طور حیوانات، نباتات اور جمادات سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان ہی کے تصرّف میں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا خلیفہ متعین فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس موقع پر خصوصاً جنگی گھوڑوں کی انسانوں کی حفاظت کے لیے قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے آقا یعنی انسان کی اطاعت و خدمت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا کر ہر وقت اپنے دنیاوی مالک کی حفاظت کے لیے تیار رہتا ہے۔ پانچ آیات میں قسم کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی ناشکری کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے گھوڑوں اور بے شمار دیگر اشیاء جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے مہیا کیا ہے، سے سبق حاصل کرکے اپنے حقیقی مالک کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتا ؟ انسانوں کا بھی تو خالق، مالک اور رازق وہی ہے۔ گھوڑوں سے عبرت حاصل کرکے انسان اپنے حقیقی مالک کی فرماں برداری کے لیے اُس کے احکام کے مطابق دنیاوی زندگی کیوں نہیں گزارتا ؟ اپنی مرضی سے دنیا کے لیل و نہار کیوں گزارنا چاہتا ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے انسان کے بخیل ہونے پر اُس کی ملامت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کو دولت، منصب اور اولاد دی ہے اور یہ ساری کائنات بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آئی ہے، لیکن مال حاصل کرنے کے بعد انسان مال کے متعلق اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے حقوق کماحقہ ادا نہیں کرتا بل کہ گن گن کر چھپا چھپا کر رکھتا ہے اور لوگوں پر ظلم بھی کرتا ہے۔ حالاں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ مال و دولت اور ساری جائیداد یہیں رہ جائے گی اور خالی ہاتھ دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ قدرت کا کیسا عجیب و غریب نظام ہے کہ ہر سو سال کے بعد دنیا کے ظاہری مالک زمین بوس ہو جاتے ہیں اور دوسرے لوگ زمین کے مختلف حصوں پر قبضہ کرلیتے ہیں حالاں کہ انہیں بھی ایک دن خالی ہاتھ اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ چند دن وارثین مرنے والے اپنے قریبی رشتے داروں کو یاد رکھتے ہیں، پھر وہ بھی اپنی دنیاوی زندگی میں ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ کبھی کبھار صرف اُن کا تذکرہ کیا کرتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی لمحے موت کا فرشتہ اُن کی بھی روح قبض کرنے کے لیے آسکتا ہے، یعنی انہیں بھی اس دنیا سے اپنے باپ دادا کی طرح خالی ہاتھ جانا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کام یابی یہ نہیں ہے کہ ساری صلاحیتیں صرف اس دنیاوی زندگی کو سنوارنے میں لگادے، بل کہ اصل کام یابی و کام رانی یہ ہے کہ انسان آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی فانی اور وقتی زندگی گزارے۔ اس بات کا کامل یقین رکھ کر دنیاوی زندگی کے قیمتی اوقات گزارے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو حشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا اور ہر شخص کا نامۂ اعمال پیش کیا جائے گا۔ عقل مند شخص وہ ہے جو مرنے سے قبل مرنے کے بعد والی ہمیشہ کی زندگی کے لیے تیاری کرے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں کی قسم کھاکر خاص واقعات اور احکام بیان کرتا ہے تاکہ انسان قسم کے جواب میں آنے والے قصے یا حکم کو بہ غور سماعت کرے اور واقعہ سے عبرت حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کو خصوصی توجہ و اہتمام کے ساتھ بجا لائے۔ البتہ کسی انسان کے لیے کسی مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں ہے کیوں کہ قرآن کریم کے مفسر اوّل، جن کے قول و عمل کے بغیر اللہ کے کلام کو سمجھنا بھی ممکن نہیں ہے، یعنی حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جو شخص قسم کھانا ہی چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔'' (بخاری و مسلم)

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' جس نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی، گویا اس نے کفر و شرک کیا۔''

( ترمذی، ابوداؤد)

لہٰذا ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں۔ اگر کسی شخص نے جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھالی اور پھر اُس قسم کو پورا نہ کرسکا تو اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجے کا کھانا کھلانا، یا دس مسکینوں کو بہ قدر ستر پوشی کپڑا دینا، یا ایک غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کَفّاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے۔

اصل بات ہے جس پر شہادت کے لیے گھوڑوں کے چند اوصاف کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ یعنی چند قسمیں کھاکر خالق کائنات نے فرمایا: انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو کنود کہا ہے، جس کے معنی ناشکرے کے ہیں۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا : '' وہ شخص جو مصائب کو یاد رکھے اور نعمتوں کو بھول جائے اُس کو کنود کہا جاتا ہے۔'' غرض یہ کہ جو انسان اپنے گھوڑوں کی یہ ساری جاں نثاری دیکھتا ہے اور ان کی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اسے یہ سوچنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ بھی اپنے رب کا غلام ہے، اس کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے۔

کیوں کہ وہ اور پوری کائنات خود بہ خود کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ لہٰذا اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بھی انہی گھوڑوں کی طرح اپنے حقیقی مولا و آقا کی اطاعت کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان ناشکرا ہے کیوں کہ گھوڑا جانور ہوکر بھی اپنے مالک کا حق پہچانتا ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی اپنے حقیقی رب کا حق نہیں سمجھتا۔ اس جگہ پر گھوڑوں کا ذکر صرف مثال کے طور پر کیا گیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار مخلوقات انسان کے لیے مسخّر کردی ہیں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سیکڑوں انعامات سے فائدہ نہ اٹھا رہا ہو حتی کہ انسان جو سانس لیتا ہے وہ بھی اللہ کے فضل و کرم اور اس کی مخلوقات سے استفادہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان کے ناشکرے ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اس کا طرز عمل خود گواہی دیتا ہے کہ وہ ناشکرا ہے۔ انسان کے ناشکرے ہونے کے لیے اس کے کردار سے ہی ایک دلیل اللہ تعالیٰ پیش فرما رہا ہے کہ وہ مال کی بے جا محبت کا شکار ہے۔ انسان کو اپنے گھوڑوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ جان کی بازی لگاکر جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ سب مالک کا ہوجاتا ہے۔ اپنے لیے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ مالک جو کچھ اُن کے آگے ڈال دیتا ہے اس پر قناعت کرلیتے ہیں۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جو مال بھی اللہ کے فضل و کرم سے اسے حاصل ہوتا ہے اُس کو صرف اور صرف اپنا سمجھ کر اپنی خواہشات پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور مال کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنا درکنار، دوسرے انسانوں کے حقوق بھی کھا جاتا ہے۔

ان آیات سے غافل انسان کو اللہ تعالیٰ متنبہ کررہا ہے کہ کیا وہ اُس دن کو بھول گیا ہے جب مردے قبروں سے زندہ کرکے اٹھا لیے جائیں گے اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں سب کھل کر سامنے آجائیں گی۔ حالاں کہ حضرت انسان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے احوال سے بہ خوبی واقف ہے۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے باز آئے اور مال کی محبت میں ایسا مغلوب نہ ہوجائے کہ اچھے برے کی تمیز بھی نہ کرے۔ کیوں کہ قیامت کے دن ہر شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مال کہاں سے کمایا ؟ یعنی وسائل حلال تھے یا حرام، نیز کہاں خرچ کیا؟ یعنی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کردیا کہ ہر انسان کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو محفوظ کیا جارہا ہے۔ آج کے کمپیوٹر کے زمانے میں اس کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے کیوں کہ جب انسان کے تیار کردہ پروگراموں کے ذریعے لوگوں کی ساری نقل و حرکت محفوظ ہوجاتی ہیں تو پھر خالق کائنات کے نظام میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں