بے سہارا بچوں کی تعلیم میں آپ کا کیا کردار ہے
غربت اور یتیمی کے باعث آج پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں
ISLAMABAD:
جب ایک انسان پیدائش کے بعد کھلی فضا میں پہلی سانس لیتا ہے تو زندہ رہنے کےلیے اس کی ابتدائی ضروریات محض جسمانی نوعیت کی ہوتی ہیں جیسے کہ غذا، لباس، علاج اور نگہداشت وغیرہ۔ اگر یہ ضروریات بروقت پوری نہ کی جائیں تو وہ زندگی کا تسلسل جاری نہیں رکھ سکتا۔
جیسے جیسے اس کا جسم پروان چڑھتا ہے، ایک اچھی اور معیاری زندگی گزارنے کےلیے جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمی ضروریات بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر بروقت اسے تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا سلسلہ شروع نہ کیا جاسکے تو جسمانی اعتبار سے زندہ ہونے کے باوجود، ناخواندگی کے باعث، وہ شعوری اعتبار سے موت کا شکار ہو جائے گا۔
طبیعی طور پر مردہ جسم تو دفن کردیئے جاتے ہیں لیکن شعوری طور پر مردہ انسانوں کا کوئی قبرستان نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ معاشرے پر بوجھ بن جانے کے ساتھ ساتھ نہایت ضرر رساں منفی اثرات چھوڑتے ہیں جن کا سدِباب ان اخراجات سے کہیں مہنگا پڑتا ہے جو ان کی تعلیم و تربیت کےلیے درکار ہوتے ہیں۔ ناخواندگی کا بڑھتا ہوا تناسب معاشرے کےلیے خطرناک ہونے کے علاوہ فرد اور اس کے خاندان کےلیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے جس کی بھاری قیمت انہیں تمام عمر چکانی پڑتی ہے۔
آئین پاکستان حکومت وقت کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہر بچے کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں لیکن تاحال حکومتیں بوجوہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں جس کا حتمی نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان میں تقریباً پچیس ملین (یعنی ڈھائی کروڑ) بچے اسکول نہیں جاتے۔ واضح رہے کہ یہ تعداد شمالی کوریا کی کل آبادی کے برابر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ناخواندہ افراد کا ایک پورا شمالی کوریا پاکستان میں پرورش پا رہا ہے جو آج سے ٹھیک دس برس بعد بذریعہ ووٹ حکومت سازی میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ مقام فکر یہ ہے کہ ایک ناخواندہ شخص اپنے ملک کی ترقی کےلیے بہترین حکمران کا انتخاب کیسے کرسکتا ہے جبکہ اس کے پاس غربت کی شکل میں ووٹ بیچنے کا مضبوط جواز بھی موجود ہو؟
چند سادہ اعداد و شمار سے مزید جان لیجیے کہ آج تعلیم سے محروم ڈھائی کروڑ بچے ہماری کل آبادی کا تقریباً 11 فیصد ہیں۔ یہ تعداد 2013 کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کا تقریباً 29 فیصد بنتی ہے جبکہ حکومتی جماعت کو ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد سے (جو تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ تھی) پورے ایک کروڑ زیادہ ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ ڈھائی کروڑ ناخواندہ بچے جوان ہو کر اپنا حق رائے دہی کیسے لوگوں کے حق میں استعمال کریں گے؟ بلاشبہ ہم اس ناخواندگی کے باعث لاشعوری طور پر اپنا مستقبل ناخواندہ لوگوں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی اتنی کثیر تعداد اسکول جیسی نعمت سے کیوں محروم ہے؟ اس کا جواب ہے ''غربت اور یتیمی'' جسے سمجھنا تو نہایت آسان ہے لیکن محسوس کرنا بہت ہی مشکل۔ غریب کے گھر میں جہاں غذا، لباس، چھت اور علاج جیسی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کےلیے ہی وسائل کافی نہیں ہوتے، وہاں تعلیم کی ''عیاشی'' کون کرے؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امیر کا بچہ زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتا ہے اور غریب کا بچہ مجبور، محکوم اور محروم رہتا ہے۔
غربت اور یتیمی اس کی خداداد صلاحیتوں کو نگل جاتی ہے، اس کے ممکنہ روشن مستقبل کی شمع کو گُل کر دیتی ہے، حتیٰ کہ اس سے وہ شعور ہی چھین لیتی ہے جو اسے ترقی کے خواب دکھا سکے۔ درحقیقت عملی طور پر ناخواندگی بوجہ غربت اس کی سوچ پر پردے ڈال کر نچلے درجے کا انسان بنا دیتی ہے جس پر وہ بخوشی قناعت کر لیتا ہے۔ یہ دیکھنے کے بعد بہت سے سوالات ہمارے ذہنوں میں سر اٹھاتے ہیں:
ہر بچے کو بنیادی تعلیم کی فراہمی کے سلسلے میں حکومتی کوتاہیوں پر بات پھر کبھی سہی، لیکن فروغ تعلیم کےلیے انفرادی کوششوں کی بات کریں تو یقین جانیے غریبوں کے غربت، یتیموں کی یتیمی اور محروموں کی محرومیاں بطور معاشرہ ہمارا امتحان ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک سمجھتے اور پورا کرتے ہیں۔
اپنے بچوں کے بارے میں ہم یہ تصور کرکے ہی کانپ اٹھتے ہیں کہ آج صبح وہ کوڑا چننے جائیں گے یا شام کو آٹو ورکشاپ سے ہاتھ منہ کالے کرکے لوٹیں گے۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے دائیں بائیں غربت کی چکی میں پستے ہوئے یتیم بچوں کے بارے میں ہم غیر حساس ہو چکے ہیں؟
یہاں پہنچ کر ہمیں چند باتوں پر قائل ہوجانا چاہیے:
عوام کے لیے انفرادی سطح پر کوشش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ غریب، یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیم کےلیے کام کرنے والے کسی ادارے کے ساتھ حسب توفیق تعاون کیا جائے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے قابل اعتماد ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک نہایت معتبر ادارہ ''ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان'' ہے جو یتیم اور لاوارث بچوں کی کفالت و تعلیم کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے۔
اس ادارے کی شاخیں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، ملتان، راولپنڈی اور سیالکوٹ سمیت ملک کے پندرہ بڑے شہروں میں موجود ہیں جبکہ دیگر شہروں کےلیے کام جاری ہے۔ ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان کا طریقہ کار نہایت منفرد اور خوبصورت ہے۔ ایک ''ایس او یس ولیج'' قریب قریب بنائے گئے دس سے پندرہ گھروں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ہر گھر میں تقریباً دس بچے رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں ایک خاتون ''ماں'' کی ذمہ داریاں نبھاتی ہے اور بچوں میں بہن بھائی کا تصور پیدا کرکے ایک پورے گھرانے کا اور ایس او ایس ولیج میں کسی حقیقی گاؤں جیسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت اور تحفظ اسی ادارے کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی یتیم بچے کو اپنے یتیم ہونے کا احساس نہ ہونے دیا جائے، بلکہ وہ اس خاتون کو اپنی سگی ماں کی طرح سمجھے۔
بچوں کو میرٹ پر اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے اور انہیں اس وقت تک سپورٹ کیا جاتا ہے جب تک وہ خود کمانے کے لائق نہ ہو جائیں؛ جبکہ بچیوں کی شادیوں کے اخراجات تک ادارہ خود برداشت کرتا ہے۔ ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان اب تک 100 سے زائد لڑکیوں کی شادیاں کرواچکا ہے اور کئی سو بچوں کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر ایک کامیاب عملی زندگی گزارنے کے قابل بنا چکا ہے۔
اگر آپ ادارے کے ساتھ عملی تعاون کرنا چاہیں تو خود کو بطور رضاکار (volunteer) رجسٹر کروانے کےلیے اس لنک پر کلک کریں۔
اگر آپ اس ادارے کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہتے ہیں تو ڈونیشن کے آپشنز اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات کا لنک یہ ہے۔
اگر آپ لاہور میں ہیں اور اس اتوار کو اپنا کچھ وقت بامقصد اور مثبت تفریح میں گزارنا چاہتے ہیں تو ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان کی جانب سے قذافی اسٹیڈیم فٹ بال گراؤنڈ لاہور میں 19 نومبر 2017 کے روز دوپہر 11 بجے سے شام 6 بجے تک ''کارنیوال 2017'' کا اہتمام کیا گیا ہے جو صرف فیملیز کےلیے ہے۔ اس میں شرکت کرکے بھی آپ ادارے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
آپ کا معمولی سا تعاون ایک بچے کی زندگی سنوار سکتا ہے جو یقیناً ایک پوری نسل کی بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ آئیے آگے بڑھ کر یتیموں کے سر کا سایہ اور بے آسرا بچوں کا سہارا بنیں کیونکہ فروغ تعلیم سے بڑھ کر معاشرے کی کوئی اور خدمت نہیں ہوسکتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب ایک انسان پیدائش کے بعد کھلی فضا میں پہلی سانس لیتا ہے تو زندہ رہنے کےلیے اس کی ابتدائی ضروریات محض جسمانی نوعیت کی ہوتی ہیں جیسے کہ غذا، لباس، علاج اور نگہداشت وغیرہ۔ اگر یہ ضروریات بروقت پوری نہ کی جائیں تو وہ زندگی کا تسلسل جاری نہیں رکھ سکتا۔
جیسے جیسے اس کا جسم پروان چڑھتا ہے، ایک اچھی اور معیاری زندگی گزارنے کےلیے جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمی ضروریات بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر بروقت اسے تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا سلسلہ شروع نہ کیا جاسکے تو جسمانی اعتبار سے زندہ ہونے کے باوجود، ناخواندگی کے باعث، وہ شعوری اعتبار سے موت کا شکار ہو جائے گا۔
طبیعی طور پر مردہ جسم تو دفن کردیئے جاتے ہیں لیکن شعوری طور پر مردہ انسانوں کا کوئی قبرستان نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ معاشرے پر بوجھ بن جانے کے ساتھ ساتھ نہایت ضرر رساں منفی اثرات چھوڑتے ہیں جن کا سدِباب ان اخراجات سے کہیں مہنگا پڑتا ہے جو ان کی تعلیم و تربیت کےلیے درکار ہوتے ہیں۔ ناخواندگی کا بڑھتا ہوا تناسب معاشرے کےلیے خطرناک ہونے کے علاوہ فرد اور اس کے خاندان کےلیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے جس کی بھاری قیمت انہیں تمام عمر چکانی پڑتی ہے۔
آئین پاکستان حکومت وقت کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہر بچے کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں لیکن تاحال حکومتیں بوجوہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں جس کا حتمی نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان میں تقریباً پچیس ملین (یعنی ڈھائی کروڑ) بچے اسکول نہیں جاتے۔ واضح رہے کہ یہ تعداد شمالی کوریا کی کل آبادی کے برابر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ناخواندہ افراد کا ایک پورا شمالی کوریا پاکستان میں پرورش پا رہا ہے جو آج سے ٹھیک دس برس بعد بذریعہ ووٹ حکومت سازی میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ مقام فکر یہ ہے کہ ایک ناخواندہ شخص اپنے ملک کی ترقی کےلیے بہترین حکمران کا انتخاب کیسے کرسکتا ہے جبکہ اس کے پاس غربت کی شکل میں ووٹ بیچنے کا مضبوط جواز بھی موجود ہو؟
چند سادہ اعداد و شمار سے مزید جان لیجیے کہ آج تعلیم سے محروم ڈھائی کروڑ بچے ہماری کل آبادی کا تقریباً 11 فیصد ہیں۔ یہ تعداد 2013 کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کا تقریباً 29 فیصد بنتی ہے جبکہ حکومتی جماعت کو ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد سے (جو تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ تھی) پورے ایک کروڑ زیادہ ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ ڈھائی کروڑ ناخواندہ بچے جوان ہو کر اپنا حق رائے دہی کیسے لوگوں کے حق میں استعمال کریں گے؟ بلاشبہ ہم اس ناخواندگی کے باعث لاشعوری طور پر اپنا مستقبل ناخواندہ لوگوں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی اتنی کثیر تعداد اسکول جیسی نعمت سے کیوں محروم ہے؟ اس کا جواب ہے ''غربت اور یتیمی'' جسے سمجھنا تو نہایت آسان ہے لیکن محسوس کرنا بہت ہی مشکل۔ غریب کے گھر میں جہاں غذا، لباس، چھت اور علاج جیسی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کےلیے ہی وسائل کافی نہیں ہوتے، وہاں تعلیم کی ''عیاشی'' کون کرے؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امیر کا بچہ زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتا ہے اور غریب کا بچہ مجبور، محکوم اور محروم رہتا ہے۔
غربت اور یتیمی اس کی خداداد صلاحیتوں کو نگل جاتی ہے، اس کے ممکنہ روشن مستقبل کی شمع کو گُل کر دیتی ہے، حتیٰ کہ اس سے وہ شعور ہی چھین لیتی ہے جو اسے ترقی کے خواب دکھا سکے۔ درحقیقت عملی طور پر ناخواندگی بوجہ غربت اس کی سوچ پر پردے ڈال کر نچلے درجے کا انسان بنا دیتی ہے جس پر وہ بخوشی قناعت کر لیتا ہے۔ یہ دیکھنے کے بعد بہت سے سوالات ہمارے ذہنوں میں سر اٹھاتے ہیں:
- کیا غریب کے بچے کا جرم یہ ہے کہ وہ غریب کے گھر پیدا ہوا؛ اور امیر کے بچے نے امیر گھرانے میں پیدا ہو کر کمال کردیا؟
- کیا امیر یا غریب گھرانے میں پیدا ہونا کسی کے اختیار میں ہے؟
- کیا ترقی کرنا صرف امیروں کی اولادوں ہی کا استحقاق ہے؟
- کیا غریب اور یتیم بچہ باصلاحیت نہیں ہوسکتا؟
ہر بچے کو بنیادی تعلیم کی فراہمی کے سلسلے میں حکومتی کوتاہیوں پر بات پھر کبھی سہی، لیکن فروغ تعلیم کےلیے انفرادی کوششوں کی بات کریں تو یقین جانیے غریبوں کے غربت، یتیموں کی یتیمی اور محروموں کی محرومیاں بطور معاشرہ ہمارا امتحان ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک سمجھتے اور پورا کرتے ہیں۔
اپنے بچوں کے بارے میں ہم یہ تصور کرکے ہی کانپ اٹھتے ہیں کہ آج صبح وہ کوڑا چننے جائیں گے یا شام کو آٹو ورکشاپ سے ہاتھ منہ کالے کرکے لوٹیں گے۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے دائیں بائیں غربت کی چکی میں پستے ہوئے یتیم بچوں کے بارے میں ہم غیر حساس ہو چکے ہیں؟
یہاں پہنچ کر ہمیں چند باتوں پر قائل ہوجانا چاہیے:
- اول: تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اسے حکومت یا سوسائٹی یا دونوں کو مل کردینا ہے۔
- دوم: ناخواندہ بچے انفرادی زندگی میں پیچھے رہ جانے کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔
- سوم: ملک و قوم کی ترقی کے پیش نظر ہمیں انفرادی سطح پر بھی فروغِ تعلیم کےلیے مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے۔
عوام کے لیے انفرادی سطح پر کوشش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ غریب، یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیم کےلیے کام کرنے والے کسی ادارے کے ساتھ حسب توفیق تعاون کیا جائے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے قابل اعتماد ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک نہایت معتبر ادارہ ''ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان'' ہے جو یتیم اور لاوارث بچوں کی کفالت و تعلیم کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے۔
اس ادارے کی شاخیں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، ملتان، راولپنڈی اور سیالکوٹ سمیت ملک کے پندرہ بڑے شہروں میں موجود ہیں جبکہ دیگر شہروں کےلیے کام جاری ہے۔ ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان کا طریقہ کار نہایت منفرد اور خوبصورت ہے۔ ایک ''ایس او یس ولیج'' قریب قریب بنائے گئے دس سے پندرہ گھروں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ہر گھر میں تقریباً دس بچے رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں ایک خاتون ''ماں'' کی ذمہ داریاں نبھاتی ہے اور بچوں میں بہن بھائی کا تصور پیدا کرکے ایک پورے گھرانے کا اور ایس او ایس ولیج میں کسی حقیقی گاؤں جیسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت اور تحفظ اسی ادارے کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی یتیم بچے کو اپنے یتیم ہونے کا احساس نہ ہونے دیا جائے، بلکہ وہ اس خاتون کو اپنی سگی ماں کی طرح سمجھے۔
بچوں کو میرٹ پر اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے اور انہیں اس وقت تک سپورٹ کیا جاتا ہے جب تک وہ خود کمانے کے لائق نہ ہو جائیں؛ جبکہ بچیوں کی شادیوں کے اخراجات تک ادارہ خود برداشت کرتا ہے۔ ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان اب تک 100 سے زائد لڑکیوں کی شادیاں کرواچکا ہے اور کئی سو بچوں کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر ایک کامیاب عملی زندگی گزارنے کے قابل بنا چکا ہے۔
اگر آپ ادارے کے ساتھ عملی تعاون کرنا چاہیں تو خود کو بطور رضاکار (volunteer) رجسٹر کروانے کےلیے اس لنک پر کلک کریں۔
اگر آپ اس ادارے کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہتے ہیں تو ڈونیشن کے آپشنز اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات کا لنک یہ ہے۔
اگر آپ لاہور میں ہیں اور اس اتوار کو اپنا کچھ وقت بامقصد اور مثبت تفریح میں گزارنا چاہتے ہیں تو ایس او ایس چلڈرنز ولیج پاکستان کی جانب سے قذافی اسٹیڈیم فٹ بال گراؤنڈ لاہور میں 19 نومبر 2017 کے روز دوپہر 11 بجے سے شام 6 بجے تک ''کارنیوال 2017'' کا اہتمام کیا گیا ہے جو صرف فیملیز کےلیے ہے۔ اس میں شرکت کرکے بھی آپ ادارے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
آپ کا معمولی سا تعاون ایک بچے کی زندگی سنوار سکتا ہے جو یقیناً ایک پوری نسل کی بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ آئیے آگے بڑھ کر یتیموں کے سر کا سایہ اور بے آسرا بچوں کا سہارا بنیں کیونکہ فروغ تعلیم سے بڑھ کر معاشرے کی کوئی اور خدمت نہیں ہوسکتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔