’’دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی ؐ"

حسان خالد  اتوار 13 جولائی 2014
آپ کے والد اسکول میں استاد ہونے کے ساتھ امامت‘ خطابت اور بچوں کو دینی تعلیم دینے کا کام فی سبیل اللہ انجام دیتے تھے۔  فوٹو : فائل

آپ کے والد اسکول میں استاد ہونے کے ساتھ امامت‘ خطابت اور بچوں کو دینی تعلیم دینے کا کام فی سبیل اللہ انجام دیتے تھے۔ فوٹو : فائل

اس شخص کی خوش بختی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی‘ نعت نبی ﷺ جس کی ذات کا مستقل حوالہ بن جائے۔ جہاں نعت کا ذکر آئے‘ وہاں اس کا ذکر آئے اور جہاں اس کا ذکر آئے‘ وہاں نعت کا ذکر آئے۔ شاعر نے کہا تھا:

تیرا در ہو میرا سر ہو، میرا سر ہو تیرا در ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی

حفیظ تائبؒ کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ نعت نبیﷺ اور مدحت رسول ﷺ ان کی پہچان بن گئے ہیں اور جہاں خود ان کی ذات کا ذکر آتا ہے‘ وہاں بھی بات نعت نبیﷺ کی ہونے لگتی ہے۔ ایسی نسبت اور ایسا اعزاز‘ اللہ اللہ‘ کسی قسمت والے کے حصے میں ہی آتا ہے۔ حفیظ تائبؒ کی نعت گوئی کے متعلق احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:

’’یہ دور اردو زبان میں نعت گوئی کا دور روشن ہے اور اس دور روشن کے آفتاب بلاشبہ حفیظ تائب ہیں کہ اس شخص نے حضور ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ اپنی عقیدت اور عشق کا اظہار اتنی گہرائی‘ اتنی شدت‘ اتنی تہذیب اور اتنے سلیقے سے کیا ہے کہ ان کی نعت کے الفاظ میں جذبے دھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور نقطے نقطے میں صلی علیٰ کی گونج سنائی دیتی ہے۔‘‘

حفیظ تائبؒ پرکشش شخصیت کے مالک اور باکردار انسان تھے۔ وہ اتباع رسول ﷺ کو محبت رسولﷺ کا لازمہ سمجھتے تھے۔ نعت نبویﷺ لکھتے ہوئے تمام ضروری احتیاطیں ان کے پیش نظررہتی تھیں۔ وہ اپنے اشعار میں بتاتے ہیں:
نعت گوئی کے لئے حسن ارادت شرط ہے
ساتھ کچھ فہم کتاب و علم سیرت شرط ہے
اس میں ہے لازم جمال فن بھی اوج فکر بھی
جتنی ممکن ہو خیالوں کی طہارت شرط ہے
گر ادب پہلا قرینہ ہے ثنا کے شہر میں
ہر قدم اس راہ میں عجز طبیعت شرط ہے
اسوہ کا بھی نعت میں ابلاغ ہونا چاہئے
لیکن اس میں بھی لطافت اور حکمت شرط ہے
ہے محبت آپؐ کی ایمان کامل کی کلید
ہاں مگر جوش محبت میں اطاعت شرط ہے
ان کی تعلیمات میں مضمر ہے حسن زندگی
ان سے بھرپور استفادہ بہر امت شرط ہے
سیرت پرنور تائب ہم کو دیتی ہے سبق
ہر قدم پر احترام آدمیت شرط ہے

انہوں نے اپنی زندگی اور اپنا فن‘ سرکار دو عالمﷺ کے قدموں پر نثار کر دیا۔ معروف شاعر زاہد فخری اپنی ایک تحریر میں رقمطراز ہیں، ’’ایک بار میں نے تائب صاحب سے پوچھا کہ نعت مصطفیﷺ کے سفر کے اوائل میں آپ کو کب پتا چلا کہ دربار محمد ﷺ تک آپ کی نعت پہنچ چکی ہے۔ ہمیشہ کی طرح مسکرا دیئے اور پھر گویا ہوئے کہ نعت کہتے ہوئے مجھے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ نعت محمدﷺ کے حوالے سے میری پہچان بھی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی مگر ایک بے چینی ہمیشہ مجھے بے چین رکھتی کہ انؐ تک میری نعت پہنچی بھی ہے کہ نہیں۔ اس بات سے میں اکثر اداس رہتا اور میری آنکھوں میں ایک نمی سی بے یقینی کی تیرتی رہتی، میں نعت بھی کہتا اور قبولیت کی دعائیں بھی کرتا رہتا۔ آخر میرے خدا نے مجھ سے ایک دن وہ نعت کہلوا ہی دی جس کے بعد میری بے قراریوں کو قرار آ گیا اور میں یقین کی دولت سے مالا مال ہو گیا‘ پھر خود ہی کہنے لگے کیا تمہیں پتا ہے کہ وہ کون سی نعت تھی۔ میں نے جواب میں کہا:

خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گل چیدہ
ان کے چہرے پر مسکراہٹ کا نور بکھر گیا۔ ان کے چہرے کی ایسی چمک میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔‘‘

نمونہ کلام
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ
ایک شیریں جھلک، ایک نوریں ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبیؐ
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبیؐ
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر ہے پرسیدنی‘ صورت حال ہے دیدنی یانبیؐ
روح ویران ہے‘ آنکھ حیران ہے‘ ایک بحران تھا‘ ایک بحران ہے
گلشنوں‘ شہروں‘ قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گمبھیر افسردگی یانبیؐ
سچ میرے دور میں جرم ہے‘ عیب ہے‘ جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی‘ ایک آزار ہے آگہی یا نبیؐ
راز داں اس جہاں میں بناؤں کسے‘ روح کے زخم جا کر دکھاؤں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں‘ کیوںکروں دوستوں کو دکھی یا نبیؐ
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہؐ عرب‘ تیرے اکرام کا ابربرسے گا کب
کب ہری ہو گی شاخ تمنا مری‘ کب مٹے گی مری تشنگی یا نبیؐ
یا نبیؐ اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیئے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری‘ بنتی جاتی ہے نوحہ گری یانبیؐ
٭٭٭٭
پاک محمدؐ جگ دا والی
نسلوں اچاّ‘ وصفوں عالی
خُلق پیار جہدا انمّلا
مہرِ مروّت جہدی نرالی
راکھا کمزوراں دے حق دا
عدل انصاف دے باغ دا مالی
جس نے کفر ہنیری اندر
حق سچ والی بتی بالی
جس دے خدمت گار فرشتے
جس دے در سلطان سوالی
جِنّاں جہدی اطاعت کیتی
نبیاں جہدی قیادت بھالی
دنیا دے وچ چانن ونڈے
جس سوہنے دی کملی کالی
پاوے ٹھنڈ دلاں دے اندر
جس دے روضے پاک دی جالی
تائب جس دے دروازے توں
مانگت مڑیا کدی نہ خالی

حالاتِ زندگی
معروف ادیب محمد شعیب مرزا تائب صاحب کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’مجسمہ اخلاق و کردار اور عشق مصطفیﷺ سے سرشار حفیظ تائب کا نام عبدالحفیظ جبکہ قلمی نام حفیظ تائب ہے۔ آپ 14فروری 1931ء کو پشاور میں پیدا ہوئے جبکہ آپ کا آبائی گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالہ ہے۔

آپ کے والد سکول میں استاد ہونے کے ساتھ ساتھ امامت‘ خطابت اور بچوں کو دینی تعلیم دینے کا کام فی سبیل اللہ انجام دیتے تھے۔ نیز دینی جلسوں اور نعت خوانی کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی گردو پیش ذکر خدا اور ذکر رسول ﷺ سے معمور ملے۔

آپ کے والد بھی شعر و ادب کا ذوق رکھتے تھے۔ 1947ء میں پہلی بار حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سفر نامۂ حج ’’تحفہ الحرمین‘‘ لکھا جو 1947ء میں شائع ہو گیا۔ بعد میں انہوں نے ’’چراغ معرفت‘‘ اور ’’چراغ حیات‘‘ کے نام سے دو مختصر کتابیں لکھیں‘ جو شائع نہ ہو سکیں۔

حفیظ تائب کے والد جہاں جہاں تعینات ہوتے رہے، حفیظ تائب وہاں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اپنے گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالہ کے مڈل سکول میں داخلہ لیا۔ پھر دو جماعتیں سکھیکی منڈی میں پڑھیں۔ پھر لوئر مڈل سکول دلاور چیمہ میں تیسری اور چوتھی جماعت پڑھی۔ مڈل آبائی گاؤں کے مڈل سکول اور میٹرک زمیندار ہائی سکول گجرات سے کیا۔

زمیندار کالج گجرات میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنسی مضامین میں دل نہ لگا، چنانچہ بعدازاں ایف اے‘ بی اے‘ فاضل اردو اور ایم اے کے امتحانات ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ حیثیت میں پاس کئے۔ حفیظ تائب کے والد مسجد میں ہر جمعتہ المبارک کو خطبہ دیا کرتے تھے اور حفیظ تائب نعت پڑھا کرتے تھے۔ نعتیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ 1947ء میں آپ نے نعتیں لکھنی بھی شروع کر دیں۔ میٹرک میں ان کے ہم جماعت بشیر منذر شعر گوئی میں محرک بنے۔ کالج جا کر نعت کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی کہنے لگے۔ پہلی تخلیق پنجابی نعت تھی جو 1947ء میں کہی۔ جس کا مطلع یوں ہے:

روضے دی جالی دسدی اے
یاں گنبد خضرا دسدا اے
اسیں جدہر نظراں چکنے آں
بس شہر مدینہ دسدا اے

آپ شعری اصناف میں نعت کے ساتھ ساتھ غزل اور نظم میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ نعت کے علاوہ سب کچھ چھوٹ گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے محبوب ﷺ کی تعریف کے لئے چن لیا تھا۔ ایسے منتخب لوگوں کو ہی حضور ﷺ کی مدح سرائی کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔

آپ 1949ء میں لاہور آ گئے اور اس سال آپ کا کلام شائع ہونا شروع ہوا۔ سب سے پہلے نعت ماہنامہ ’’مسلمہ‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ غزلیں ’’ادب لطیف‘‘ اور ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوئیں۔شعری انتخابوں میں بھی آپ کا کلام شائع ہوتا رہا۔ تمام اہم اخبارات و رسائل میں آپکی تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔ ان میں ’’نوائے وقت‘ جنگ‘ زمیندار‘ امروز‘ معاصر‘ آثار‘ ادبیات‘ ماہ نو‘ ادبی دنیا‘ ادب لطیف‘ فنون اور نقوش نمایاں ہیں۔

آپ نے میٹرک کے داخلہ فارم میں پہلی مرتبہ نام کے خانے میں عبدالحفیظ تائب لکھا۔ میٹرک کی سند پر بھی یہی نام درج ہے۔ پھر تائب تخلص کر لیا اور عبدالحفیظ … حفیظ تائب ہو گئے۔ آپ نے باقاعدہ کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی البتہ قریبی احباب سے مشورہ سخن کرتے رہے۔ آپ محفلوں سے گریزاں ہی رہے البتہ بے شمار مشاعروں اور سیمیناروں میں شرکت کی۔ آپ سعودی عرب‘ ابوظہبی‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ امریکہ اور بھارت کے مشاعروں اور سیمیناروں میں شریک ہوئے۔

آپ نعتیہ اور سیرت کی کتابوں کا مطالعہ خصوصی طور پر کرتے رہے البتہ کلاسیکی اور نئے نمائندہ شعراء کا کلام بھی زیر مطالعہ رہا۔ حفیظ تائب کی نعتیں پاکستان میں ہی نہیں ہر اس جگہ مقبول ہیں جہاں اردو سمجھنے والے حق گو عاشق رسول ﷺ موجود ہیں۔ آپ کی نعتیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔‘‘

نعت رسول مقبول ﷺ۔۔۔۔۔۔ عہد بہ عہد سرسری جائزہ
عربی زبان کے ممتاز اسکالر محمد کاظم کی تحریر سے قتباسات، بحوالہ کتاب یادیں اور باتیں

نعت یوں تو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا وصف بیان کرنا‘ کسی چیز کو Describe کرنا۔ لیکن عربی میں یہ ان معنوں میں نہیں بولا جاتا جن معنوں میں یہ اردو زبان میں بولا جاتا ہے۔ اردو میں ’’نعت‘‘ اس نظم یا غزل کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ عقیدت اور محبت کا اظہار کیا گیا ہو۔ اردو میں جسے نعت کہتے ہیں‘ عربی میں اسے ’’المدیح النبوی‘‘ کہتے ہیں اور نعتوں کے مجموعے کو المدائح النبویۃ کا نام دیا جاتا ہے۔

آپؐ کے زمانے میں جو بہت اعلیٰ ادبی معیار کی نعتیں عربی زبان میں کہی گئیں ان میں شاعر کعب ابن زبیر کا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ نیز حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعتیں زیادہ مشہور ہوئیں۔

حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جیسا کہ سب کو معلوم ہے‘ شاعر نبیؐ کے لقب سے مشہور ہیں، یعنی دربارنبویﷺ کے POET LAUREATE۔ یہ پہلے ایک جاہلی شاعر تھے جو منذر و غسان کے فرمانرواؤں کی مدح کرتے اور ان سے کافی صلہ اور اعزاز پاتے تھے۔ یہ اسلام لے آئے اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینے کو ہجرت کی۔ اس زمانے میں قریش مکہ نے حضورﷺ کو ایذا پہنچانے کے لئے آپؐ کے خلاف ہجوگوئی کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا‘ جس میں آپﷺ کے خلاف طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ ایک دن آپﷺ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جن لوگوں نے اپنی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی مدد کی ہے‘ انہیں کس چیز نے روکا ہے کہ وہ اپنی زبان سے اس کی مدد نہیں کرتے۔‘‘

اس پر حضرت حسان آگے بڑھے اور کہا‘ یہ کام میں کروں گا۔ کہنے لگے میری زبان بہت لمبی ہے اور یہ ایسی زبان ہے کہ اگر میں اسے چٹان پر رکھ دوں تو وہ بھی تڑخ جائے۔ آپﷺ نے فرمایا‘ تم قریش کی ہجو کیسے کرپاؤ گئے کہ میں بھی تو اسی خاندان سے ہوں۔ حسان نے جواب دیا۔ میں آپﷺ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا تو پھر ان کی ہجو کہو اور جبریل امین تمہارے ساتھ ہیں۔ اس طرح حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت ﷺ کی مدح و ثنا اور کفار و مشرکین کی مذمت میں بہت سی نظمیں کہیں اور اس محاذ پر سب مخالفین کو خاموش کر دیا۔

تیرہویں صدی عیسوی میں ایک شاعر شرف الدین محمد بن سعید البوصیری پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنی شاعری میں مدح نبویؐ کے بہت اعلیٰ نمونے پیش کئے۔1255ء میں وہ حج بیت اللہ اور روضۂ نبویؐ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور واپس آ کر انہوں نے جو نعتیہ نظمیں کہیں، ان میں ان کا قصیدہ بردہ نعت کی پوری تاریخ میں امتیازی مقام رکھتا ہے۔ شاعر بوصیری کے بعد بھی عربی زبان میں نعتیں کہی جاتی رہیں اور یہ نعتیں کہنے والوں میں صوفی ابن الفارض (1235ء) اور امام برعی (1400ء) مورخ ابن خلدون (1406ء) اور شاہ ولی اللہ دہلوی (1760ء) کچھ مشہور نام ہیں، لیکن مدح نبویؐ میں بہت خوبصورت اضافہ چار پانچ صدیوں کے بعد مصر کے شاعر دربار احمد شوقی نے کیا جو علامہ اقبال کے ہم عصر تھے۔

نعت کی یہ روایت عرب سے چل کر پہلے ایران اور پھر ہندوستان میں پہنچی۔ ایران میں نعت کے موضوع پر بڑے بڑے باکمال شاعروں نے فارسی میں نظمیں کہیں۔ ان شعراء میں سنائی‘ خاقانی، نظامی، گنجوی‘ خواجہ فریدالدین عطار، مولانا جلال الدین رومی، شیخ سعدی شیرازی اور جامی بڑے نام ہیں۔اردو زبان میں نعت نگاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اردو شاعری پرانی ہے۔ چنانچہ اس کے ابتدائی نمونے اردو شاعری کے اوائل زمانے میں بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔

نعت کے اس پورے زمانے پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو اس میں تین دور ایسے دکھائی دیتے ہیں جن میں اردو کی نعتیہ شاعری فن کے اعتبار سے اپنے عروج کو پہنچی۔ ایک دور محسن کا کوروی‘ امیر مینائی اور حالی کا ہے۔ دوسرا اقبال‘ مولاناظفرعلی خاں اور حفیظ جالند ھری کا اور تیسرا حالیہ دور ہے جو سن 1960ء کی دہائی سے شروع ہو کر اب تک چلا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔