رُوپ کُنڈ ؛ انسانی ڈھانچوں کی جھیل

مرزا ظفر بیگ  اتوار 13 جولائی 2014
جھیل روپ کنڈ اپنے اندر اور باہر کناروں پر پائے جانے والے بے شمار انسانی ڈھانچوں کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔  فوٹو : فائل

جھیل روپ کنڈ اپنے اندر اور باہر کناروں پر پائے جانے والے بے شمار انسانی ڈھانچوں کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ فوٹو : فائل

یہ کتنا عجیب اور خوف ناک منظر ہوگا کہ آپ کسی جھیل میں تیر رہے ہوں اور پیچھے سے کوئی انسانی ڈھانچا آئے اور آپ سے لپٹ جائے، اس وقت آپ کی کیا حالت ہوگی؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ انڈیا میں سلسلہ کوہ ہمالیہ میں ایک ایسی جھیل واقع ہے ۔

جس پر نہ جانے کب سے انسانی ڈھانچوں کی حکم رانی ہے، وہاں ہر طرف یہ ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں اور بعض ڈھانچے تو جھیل کی تہہ میں بھی موجود ہیں۔ یہ کن لوگوں کے ڈھانچے ہیں؟ یہ یہاں کہاں سے آئے؟ انہیں کس نے ہلاک کیا؟ یہ سب ایسے سوال ہیں جن کے جواب سائنس دانوں اور تاریخی ماہرین کی لاکھ کوشش کے بعد بھی آج تک نہیں مل سکے۔ مُردوں یا انسانی ڈھانچوں والی یہ جھیل ’’روپ کُنڈ‘‘ کہلاتی ہے جسے مقامی لوگ پراسرار جھیل بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ جھیل بھارتی ریاست اترکھنڈ میں ایک بلند پہاڑی مقام پر واقع ہے۔

یہ خوف ناک جھیل اصل میں ایک گلیشیر سے نکلی ہے۔ جھیل روپ کنڈ اپنے اندر اور باہر کناروں پر پائے جانے والے بے شمار انسانی ڈھانچوں کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں آس پاس کوئی آبادی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں پہلے کبھی لوگ رہتے ہوں یا یہاں کوئی پہاڑی گاؤں یا قصبہ واقع ہو، مگر اب یہ جگہ بھوتوں کی بستی لگتی ہے جہاں صرف ڈھانچوں کی حکومت ہے۔

جھیل روپ کنڈ کوہ ہمالیہ میں لگ بھگ میٹر یا 16,499 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس جھیل کو ہر طرف سے بلندوبالا چٹانوں سے نکلنے والے گلیشیرز نے گھیر رکھا ہے جو ہر طرف بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ جب ان کا پانی بلندی سے نیچے گرتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہر طرف سفید چادریں اڑ رہی ہوں۔ اگر ہم جھیل کے پاس کھڑے ہوکر آسمان کی طرف نظر ڈالیں گے تو ہمیں ہر طرف برف پوش چوٹیاں دکھائی دیں گی۔ یہ اتنا حسین منظر ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور وہ متعدد خطرات کے باوجود یہاں آتے اور اس جھیل اور اس پر قابض ڈھانچوں کو دیکھتے ہیں۔

یہ جھیل اتھلی یا کم گہری ہے، اس کی گہرائی بہ مشکل دو میٹر ہوگی۔ لیکن یہ جھیل دنیا بھر کے لوگوں کے لیے اپنے پاس اور اپنی تہہ میں پائے جانے والے بے شمار انسانی ڈھانچوں کی وجہ سے ایک ایسا سوال بنی ہوئی ہے جس کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا۔ خاص طور سے موسم گرما میں جب برف پگھلتی ہے تو جھیل کے اندر اور باہر موجود یہ تمام انسانی ڈھانچے آسانی سے دکھائی دیتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے جب موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو یہ آسانی سے نظر نہیں آتے۔ دھند، کہر اور فوگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر دنیا والوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھتی ہے۔

اس جھیل اور اس کے ڈھانچوں کے حوالے سے متعدد نظریات اور آراء ہیں جن میں سے بعض نظریات خالصتاً روحانی یا مذہبی ہیں اور بعض نظریات سیدھے سادے سائنسی نظریات ہیں۔ ان دونوں قسم کے نظریات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ انسانی ڈھانچے یہاں کہاں سے آئے اور اب تک گھس پٹ کیوں نہیں گئے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچے نویں صدی عیسوی کے زمانے کے ہیں۔ انہی ڈھانچوں کی وجہ سے اس جھیل کو بعض لوگ انسانی ڈھانچوں والی جھیل بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ انسانی ڈھانچے ان ظالموں کے ہیں جنہوں نے دیوتاؤں کو ناراض کیا تو اس حال کو پہنچ گئے، جب کہ بعض کا خیال ہے یہ ان مظلوموں کی باقیات ہیں جنہیں ظالموں اور جابروں نے بے قصور مارا اور پھر انہیں دنیا سے چھپانے کے لیے یہاں پھینک دیا، مگر قدرت نے ان کو اب تک سلامت رکھ کر ساری دنیا کو یہ دکھادیا کہ ظلم کبھی چھپتا نہیں ہے۔

یہ انسانی ڈھانچے تو نامعلوم وقت سے یہاں موجود ہیں جس کے بارے میں سینہ بہ سینہ کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ لیکن انہیں دوبارہ 1942 میں یہاں کے نندا دیوی گیم ریزرو کے ایک رینجر ایچ کے مادھول نے اتفاقاً دریافت کیا تھا۔ جب اس کی نظر ان ڈھانچوں پر پڑی تو وہ حیران رہ گیا، کیوں کہ یہ اس کے لیے ایک انوکھا اور ناقابل یقین منظر تھا۔

بعض ماہرین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ انسانی ڈھانچے جو اب صرف ہڈیوں کی صورت میں ہیں، انیسویں صدی کے اواخر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ڈھانچے جھیل کے اُتھلے اور صاف پانی میں ایک ماہ کے لیے بالکل صاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب برف پگھلتی ہے۔

جب نیشنل جیوگرافک میگزین کی ایک ٹیم نے اس جگہ کا دورہ کیا اور ان ڈھانچوں کا بغور مشاہدہ کیا تو پتا چلا کہ ان کے ساتھ دوسری چیزیں بھی موجود ہیں، جیسے لکڑی کے ہتھیار اور اوزار، لوہے کے بھالے، چمڑے کی چپلیں اور جوتے اور دھاتی حلقے وغیرہ۔ گویا یہ ایک پورا لشکر تھا جس کے ساتھ ہتھیار بھی تھے اور اپنی ضرورت کی چیزیں بھی۔ نیشنل جیوگرافک کی ٹیم کے سبھی ارکان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان میں سے بعض ڈھانچوں پر تھوڑا بہت گوشت بھی لگا ہوا تھا۔

گویا یہ گوشت سارا کا سارا ختم نہیں ہوا تھا، موسم کی سختیوں نے انہیں ختم تو کردیا تھا، مگر مکمل طور پر نہیں۔ یہ ڈھانچے اپنے برائے نام گوشت اور ہڈیوں کی وجہ سے یہ کہانی سنارہے تھے کہ کبھی وہ بھی زندہ تھے، اسی دنیا میں رہتے بستے تھے، مگر اب وہ اس شکل میں دنیا والوں کے لیے عبرت کا سامان بنے ہوئے ہیں۔

ایک ریسرچ سے یہ پتا چلا ہے کہ یہ تمام انسانی ڈھانچے چینی نسل کے ہیں اور انہیں کسی چینی بادشاہ نے قتل کرایا تھا، مگر بعد میں ہونے والی ریسرچ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ سب انڈین ہیں یعنی ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد میں ایک اور تحقیق نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ انسانی ڈھانچے نویں صدی کے قریب کے ہیں جب یہ سب لوگ اجتماعی موت کا شکار ہوئے تھے، اس کی وجہ کوئی بیماری بھی ہوسکتی ہے اور کوئی بہت بھیانک حادثہ بھی۔

اس حوالے سے مقامی طور پر ایک قدیم کہانی سنائی جاتی ہے کہ قنوج کا راجا جسدھوال اپنی حاملہ رانی بالمپا کے ساتھ نندادیوی کی یاترا کے لیے نکلا تھا، اس کے ساتھ بڑا لاؤلشکر تھا جن میں سیکڑوں ملازم اور سپاہی بھی شامل تھے۔ یہ پورا قافلہ ناچتا گاتا بڑی عقیدت کے ساتھ نندا دیوی کے مندر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں ایک بڑے طوفان نے انہیں گھیرلیا۔ اس میں پہلے بارش ہوئی جس کے بعد بڑے بڑے اولے گرے، یہ اولے پتھروں جیسے سخت اور کافی بڑے تھے۔ چناں چہ قنوج کا راجا اپنی رانی، ملازمین اور سپاہیوں کے ساتھ روپ کنڈ جھیل کے قریب اس طوفان کا شکار ہوگیا۔ اس قافلے میں کوئی بھی فرد زندہ نہ بچ سکا۔

ان لوگوں کی بالکل صحیح تعداد کا تو کسی کو علم نہیں، لیکن یہاں پائے جانے والے ڈھانچوں کی تعداد 300کے قریب ہے۔ ہوسکتا ہے مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ڈھانچے بھی ختم ہوگئے ہوں۔ ان ڈھانچوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ان ڈھانچوں کی ہڈیوں کا تجزیہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسی لیٹر یونٹ میں میں کیا گیا، جس کے بعد ماہرین نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ بتایا کہ ان ڈھانچوں کا زمانہ 850 ±30 عیسوی ہے۔

’’دی اینتھروپولوجیکل سروے آف انڈیا‘‘ نے 1950 کے عشرے میں ان ڈھانچوں پر ایک تحقیقی مطالعے کا اہتمام کیا، جس کے کچھ نمونے دہرہ دون میں واقع ’’اینتھرپولوجیکل سروے آف انڈیا میوزیم‘‘ میں رکھے گئے ہیں۔

متعدد سائنسی ٹیسٹوں کے بعد یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ یہ ڈھانچے متعدد لوگوں کے گروپس پر مشتمل ہیں، جن میں ایک گروپ پستہ قد لوگوں کا ہے جو یقینی طور پر مقامی لوگ ہوں گے۔ دوسرا گروپ طویل قامت لوگوں کا ہے اور ان میں بہت قریبی تعلق تھا۔ ایک ڈی این اے ٹیسٹ جس کا اہتمام ’’سینٹر فار سیلولر اینڈ مالیکیولر بیالوجی حیدرآباد‘‘ نے کیا تھا، اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میوزیم میں رکھے گئے نمونے انڈیا کی ایک قدیم قوم کے برہمنوں ’’چت پون‘‘ سے ملتے ہیں۔

لیکن یہ طے نہیں ہوسکا کہ یہ قافلہ کہاں اور کیوں جارہا تھا۔ اس بارے میں ماہرین محض اندازوں اور مفروضوں پر ہی کام کررہے ہیں۔ اس علاقے میں ایسی کوئی تاریخی شہادت بھی نہیں مل سکی جس سے یہ طے ہوپاتا کہ اس دور میں اس علاقے سے تبت جانے کے لیے تجارتی راستے موجود تھے، جن کے ذریعے تجارت ہوتی تھی اور سامان تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا۔ مگر اس سلسلے میں ساری تحقیق غیر مؤثر رہی۔ یہ سچ ہے کہ جھیل روپ کنڈ جس مقام پر واقع ہے، وہ نندا دیوی جانے کا وہ مقدس راستہ ہے جہاں سے یاتریوں کے قافلے گزرا کرتے تھے۔

اس مقام پر لگ بھگ ہر بارہ سال بعد نندا دیوی راج جٹ کی تقریبات بھی منعقد ہوتی تھیں۔ اس حوالے سے ماہرین نے کافی تحقیق کی اور تاریخی حوالے بھی نکالنے کے لیے ہر طرح کی تگ و دو کی، مگر انہیں ان پراسرار انسانی ڈھانچوں کے بارے میں کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا۔

لیکن فی الوقت تاریخ داں اور سائنس داں اس بات پر فکر مند ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انسانی ڈھانچے بھی آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ختم ہورہے ہیں۔ اگر ان کی حفاظت کے لیے فوری طور پر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو آنے والے وقت میں یہ تاریخی اثاثہ، یہ تمام ڈھانچے معدوم ہوجائیں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہاں آنے والے سیاح یہاں سے انسانی ڈھانچوں کی سوغات اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، تاکہ لوگوں کو ان کے بارے میں بتا بھی سکیں اور انہیں ثبوت کے ساتھ دکھا بھی سکیں۔ ان کے علاوہ بعض زائرین بھی ان ڈھانچوں کو دیوتا کا تحفہ یا نشانی سمجھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

مگر مقامی انتظامیہ اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی، اگر یہ ڈھانچے اسی طرح یہاں سے جاتے رہے تو پھر یہاں کچھ بھی نہیں بچے گا اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ یہ کون لوگ تھے، کہاں سے آئے اور کس انجام سے دوچار ہوئے۔ یہاں آنے والے سیاح، نوادرات کے چور اور ماہرین سبھی ان ڈھانچوں کو گدھوں اور خچروں پر لاد کر مسلسل لے جارہے ہیں۔ تاریخ اور آثارِقدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ڈھانچوں کو لے جانے پر پابندی لگنی چاہیے اور ایسے تمام راستوں کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے جہاں سے انہیں لوگ مال غنیمت سمجھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔