- کے الیکٹرک بجلی چوروں کیخلاف آپریشن کرے،حکومت سندھ بھرپورساتھ دے گی، وزرا
- باجوڑ: ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ سمیت 3 افراد جاں بحق
- نیتوں کا بحران ختم کیے بغیر معیشت کا بحران ختم نہیں کیا جاسکتا، خالد مقبول صدیقی
- لاہور؛ کم سن بچی سے زیادتی کرنے والا درندہ صفت ملزم گرفتار
- رینجرز، ایف سی، کوسٹ گارڈ کے انسداد اسمگلنگ اختیارات میں توسیع
- پشاور : سی ٹی ڈی نے مبینہ دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا
- پی ٹی آئی رہنماؤں کا فواد چوہدری سے رابطہ، پارٹی قیادت پر تنقیدنہ کرنے کی درخواست
- کے پی حکومت کی کفایت شعاری پالیسی، نئی آسامیوں کی تخلیق پر پابندی
- اسرائیلی فوج کا مغربی کنارے میں پناہ گزین کیمپ پر حملہ؛ 4 فلسطینی شہید
- آئی ایم ایف کا بجلی کی قیمت میں مزید 5 روپے فی یونٹ اضافے کامطالبہ
- آٹے کی بلیک مارکیٹنگ؛ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے 4ملازمین نوکری سے برطرف
- ایف بی آر نے 2ہزار کے لگ بھگ اشیاء پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی عائد کر دی
- سعودی عرب نے پاکستانی سیاحوں کے لیے ویزا کی شرائط آسان کردیں
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری گمشدہ افراد کمیشن پر سوالات اٹھا دیے
- لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر سیکریٹری دفاع سمیت افسران پر جرمانوں کیخلاف اپیلیں خارج
- سپریم کورٹ؛ 12 سال بعد قتل کا نامزد ملزم رہا
- قازقستان؛ شنگھائی تعاون تنظیم کا 2 روزہ سربراہی اجلاس
- چیف جسٹس آف پاکستان چاہتے ہیں کہ معاملات لٹکے رہیں، رؤف حسن
- پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کے مذاکرات ناکام، 5جولائی سے پیٹرول پمپس بند کرنیکا اعلان
- وزیراعظم کی روسی صدر سے ملاقات، باہمی تعلقات سمیت اہم امور پر گفتگو
دھنیے سے اسرائیلی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں
انسان کبھی نہیں بدلتا۔بس زمانہ بدلتا ہے۔ جب سے پہلی ریاست وجود میں آئی تب سے اب تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان میں ناکہ بندی اور محاصرے نے مرکزی کردار ادا کیا۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ محاصرہ زدہ علاقے کے عام لوگ بھی جب جنگ کا ایندھن بنیں گے اور ان پر عرصہِ حیات تنگ ہو گا تو وہ اپنے حکمران یا منتظم یا سپاہ سالار پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ حملہ آور کی شرائط تسلیم کر لیں تاکہ محاصرے یا ناکہ بندی کے نتیجے میں بھک مری ، قحط یا بیماری سے نجات مل سکے۔
مگر تاریخ میں ایسی بھی ان گنت مثالیں ہیں کہ محاصرہ زدہ لوگوں نے حملہ آوروں کی انسانی بلیک میلنگ کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور غلامی پر موت کو ترجیح دی۔یا پھر اپنی ثابت قدمی سے دشمن کو اتنا تھکا دیا کہ وہ خود محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہو گیا۔تاہم مہذب کہلانے والی جدید حکومتوں نے اس حکمتِ عملی کو ترک کرنے کے بجائے اسے ہلاکت خیز صنعت کی شکل دے دی ہے۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ انیس سو اکیانوے سے دو ہزار تین کے درمیان اقوامِ متحدہ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق کی اقتصادی ناکہ بندی کی تھی۔ اس کے سبب پانچ لاکھ سے زائد عراقی سویلینز کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔یہ وہ اموات ہیں جو جنگ میں مرنے والے عراقیوں کے علاوہ ہیں۔ اس بابت جب صدر بل کلنٹن کی وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ سے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایک ڈکٹیٹر ( صدام حسین ) کی معزولی کے لیے پانچ لاکھ جانوں کا اتلاف کوئی بڑی قیمت نہیں۔
اس ناکہ بندی کے ذریعے خشک دودھ ، سکے والی پنسلیں ، ڈائپرز ، طبی آلات ، حتی کہ قلم اور کاپیاں تک عراق نہیں پہنچنے دی گئیں۔امریکا کا کہنا تھا کہ جن اشیا کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی ہے وہ سب دوہرے استعمال کی چیزیں ہیں۔یعنی ان کا سویلین اور فوجی استعمال دونوں ممکن ہیں۔
اسی منطق کو دو ہزار سات سے آج تک امریکا کا ہونہار ترین شاگرد اسرائیل نہایت چابک دستی سے استعمال کر رہا ہے۔جب دو ہزار چھ میں فلسطینی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حماس نے غزہ میں پی ایل او کا انتخابی صفایا کر کے ایک سو بتیس میں سے چوہتر پارلیمانی نشستیں جیت لیں تب بھی تمام تر جمہوری تقاضوں کے سائے میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو امریکا سمیت اسرائیل کے مغربی اتحادیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حماس کو ایک دھشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اس موقف کو اسرائیل نے غزہ کی مکمل زمینی ، فضائی اور بحری ناکہ بندی کرنے کے موثر ہتھیار کی شکل دے دی۔ یوں غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی گنجان کھلی جیل کا خطاب مل گیا۔جس میں تئیس لاکھ قیدی رہتے ہیں۔
انسانی حقوق سے متعلق ایک سرکردہ اسرائیلی تنظیم گیشا نے طویل تحقیق کے بعد حال ہی میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان فلسطینیوں کی آمد و رفت اور لین دین پر اسرائیل نے کڑی پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔دو ہزار سات سے غزہ کی جامع اقتصادی ناکہ بندی جاری ہے ۔اس حکمتِ عملی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے اس وقت کے وزیرِ اعظم یہود اولمرت کے کے مشیر ڈوو ویسگلاس نے کہا کہ ہم اہلِ غزہ کو خوراک کی بس اتنی کیلوریز دینے کے حق میں ہیں جو کسی انسان کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوں۔
اس عرصے میں غزہ کی آبادی کا گزارہ سرنگوں کے اس سلسلے سے ہوتا رہا جن کے ذریعے مصر سے بنیادی ضروریات کا سامان اسمگل کیا جاتا تھا۔بعد میں اسرائیل نے یہ سرنگیں بھی تباہ کر دیں۔
اسرائیل غزہ کی روزمرہ زندگی کو ہر اعتبار سے محتاج رکھنے کے معاملے میں اتنا سنجیدہ ہے کہ مئی دو ہزار دس میں اس نے ترکی سے دس ہزار ٹن اشیاِ ضرورت لے کر غزہ کی جانب آنے والے بحری قافلے ’’ فریڈم فلوٹوئیلا ‘‘کو بھی نہ بخشا اور اس امدادی بیڑے کے سب سے بڑے جہاز ’’ ماوی مرمرا ‘‘ پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کر کے نو امدادی کارکنوں کو ہلاک کر دیا اور سامانِ رسد بھی ضبط کر لیا۔
اس کارروائی کی عالمی سطح پر مذمت کے سبب اسرائیل نے کچھ اشیاِ ضرورت کی ترسیل پر پابندی عارضی طور پر نرم کر دی۔اس نرمی پر انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم گیشا نے اپنی ویب سائٹ پر طنزیہ تبصرہ کیا کہ ’’ دھنیے کو غزہ پہنچنے کی اجازت یہ اطمینان کرنے کے بعد دی گئی ہے کہ دھنیا اسرائیلی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے‘‘۔
اسرائیل نے دوہرے استعمال کی ممنوعہ اشیا کی فہرست میں پانی اور سیوریج پمپوں کو بھی شامل کر لیا۔دو ہزار اٹھارہ میں لگ بھگ ایک ہزار اشیا کی غزہ کو فراہمی پر پابندی لگا دی گئی۔ان میں عروسی جوڑے ، ان سلا کپڑا ، پاستا ، بسکٹ ، مٹھائی ، الائچی ، دھنیا ، ادرک ، جام ، اخبارات ، نوٹ بکس ، ماہی گیری کی ڈور ، سلائی مشین ، ٹریکٹروں کے فاضل پرزے ، موسیقی کے آلات ، بچوں کے دودھ کی بوتلیں ، بے بی ڈائپرز ، بے بی وائپس ، ڈبہ بند خوراک ، کھلونے ، پین اور پینسلیں ، باربرداری کے گدھے ، مرغی کے چوزے ، ان چوزوں کی ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے ڈبے ، کنگھے ، بوتل بند پانی ، ٹائلٹ پیپر ، پٹرول ، گیس سلنڈرز اور اے فور سائز کے کاغذ بھی شامل ہیں۔
سات اکتوبر کے بعد سویلین اور فوجی استعمال کی دوہری اشیا کی فہرست میں آلاتِ جراحی ، مریضوں کو بے ہوش کرنے والی ادویات ، وینٹیلیٹرز ، آکسیجن سلنڈر، ایکسرے مشینیں ، بیساکھیاں ، کھجوریں ، سلیپنگ بیگ ، کینسر کی ادویات ، میٹرنٹی کٹس اور پانی صاف کرنے والے آلات بھی شامل کر دیے گئے۔ اور جب تنگ آمد بجنگ آمد غزہ کے باسیوں نے خود کو قید کرنے والی باڑھ توڑی تو وہ ظالم اور اسرائیلی مظلوم کہلائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔