- کے الیکٹرک بجلی چوروں کیخلاف آپریشن کرے،حکومت سندھ بھرپورساتھ دے گی، وزرا
- باجوڑ: ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ سمیت 3 افراد جاں بحق
- نیتوں کا بحران ختم کیے بغیر معیشت کا بحران ختم نہیں کیا جاسکتا، خالد مقبول صدیقی
- لاہور؛ کم سن بچی سے زیادتی کرنے والا درندہ صفت ملزم گرفتار
- رینجرز، ایف سی، کوسٹ گارڈ کے انسداد اسمگلنگ اختیارات میں توسیع
- پشاور : سی ٹی ڈی نے مبینہ دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا
- پی ٹی آئی رہنماؤں کا فواد چوہدری سے رابطہ، پارٹی قیادت پر تنقیدنہ کرنے کی درخواست
- کے پی حکومت کی کفایت شعاری پالیسی، نئی آسامیوں کی تخلیق پر پابندی
- اسرائیلی فوج کا مغربی کنارے میں پناہ گزین کیمپ پر حملہ؛ 4 فلسطینی شہید
- آئی ایم ایف کا بجلی کی قیمت میں مزید 5 روپے فی یونٹ اضافے کامطالبہ
- آٹے کی بلیک مارکیٹنگ؛ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے 4ملازمین نوکری سے برطرف
- ایف بی آر نے 2ہزار کے لگ بھگ اشیاء پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی عائد کر دی
- سعودی عرب نے پاکستانی سیاحوں کے لیے ویزا کی شرائط آسان کردیں
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری گمشدہ افراد کمیشن پر سوالات اٹھا دیے
- لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر سیکریٹری دفاع سمیت افسران پر جرمانوں کیخلاف اپیلیں خارج
- سپریم کورٹ؛ 12 سال بعد قتل کا نامزد ملزم رہا
- قازقستان؛ شنگھائی تعاون تنظیم کا 2 روزہ سربراہی اجلاس
- چیف جسٹس آف پاکستان چاہتے ہیں کہ معاملات لٹکے رہیں، رؤف حسن
- پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کے مذاکرات ناکام، 5جولائی سے پیٹرول پمپس بند کرنیکا اعلان
- وزیراعظم کی روسی صدر سے ملاقات، باہمی تعلقات سمیت اہم امور پر گفتگو
نگارِ سحر کی حسرت میں (حصہ اول)
’’ نگارِ سحرکی حسرت میں‘‘ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی ترتیب و تدوین کردہ کتاب، تاریخی انٹرویوز، مضامین و دستاویزات سمیت 575 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 166 صفحات پر معراج محمد خان کی خود نوشت ہے۔ باقی صفحات پر ان کے مختلف اخبارات و رسائل میں شایع ہونے والے انٹرویوز اور مضامین شامل ہیں۔ معراج محمد خان کی اہلیہ زبیدہ معراج اور معروف ترقی پسند استاد پروفیسر انیس زیدی اس کتاب کی مشاورت میں شامل تھے۔
کتاب کے فلپ پر تحریر کردہ مواد میں معراج محمد خان کی زندگی کا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ معراج محمد خان 1950کے اوائل اور 1960میں بائیں بازو کے شعلہ بیان کے طور پر ابھرے۔ وہ تمام عمر ایک فعال سیاسی کارکن اور اشتراکی رہنما کے طور پر سیاسی افق پر چھائے رہے۔
معراج آمریتوں اور سول ادوار میں بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد میں مصروف رہے، ان کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں ہوتا تھا، وہ ایک اور سیاسی جماعت قومی محاذ آزادی کے بانی بھی تھے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے ابتدایے میں لکھا ہے کہ معراج محمد خان صاحب پاکستان کی سیاست میں اپنے انقلابی و نظریاتی رجحانات، ولولہ انگیز قیادت، سحرزدہ کردینے والی خطابت اور سخت صحافی اور ذہنی اذیتوں کو برداشت کرنے کی دلیرانہ صفت کے حوالے سے اپنی ایک بڑی جداگانہ شناخت کے حامل رہے۔ ان کی ساکھ پینسٹھ سال کی سیاسی جدوجہد اور اس سے متعلق تحریروں کو کسی ایک کتاب میں سمیٹنا ایک مشکل کام ہے۔
کتاب کے پہلے باب کا عنوان ’’ تاریخ بولتی ہے‘‘ میں معراج لکھتے ہیں کہ ہمارا آبائی وطن قائم گنج جس کا تعلق فرخ آباد کے ایک چھوٹے قصبہ سے ہے جو یو پی میں واقع ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد سولہویں یا سترہویں صدی میں تقریباً تین سو سال قبل افغانستان اور خصوصاً تہرہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے اور یہیں کے ہوگئے۔ معراج محمد خان ناگ پور میں پیدا ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم اپنے بہنوئی کے گھر میں ہی حاصل کی۔ قائم گنج کے تحصیلی اسکول میں داخل کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ بات بھی 1946ء کی ہے۔
میرے بھائی منہاج برنا بمبئی کے اسکول میں پڑھاتے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات ڈاکٹر ذاکر حسین سے ہوئی۔ ( ڈاکٹر ذاکر حسین بعد میں بھارت کے صدر بنے۔) ذاکر حسین منہاج برنا کو جامعہ ملیہ دہلی لے گئے جہاں انھوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ منہاج بھائی نے مجھے جامعہ ملیہ کے ابتدائی کورس میں دخل کرا دیا۔ معراج نے لکھا ہے گاندھی جی نے ہندو مسلمان فسادات کے خلاف من برتھ رکھا تو بچوں اور ان کے اساتذہ نے جامع مسجد دہلی کے علاقہ میں جلوس نکالے۔ ان کا نعرہ تھا ’’ گاندھی جی کی جان بچاؤ‘‘ پھر اساتذہ نے پروجیکٹ بنانے کی ہدایت کی تو میں نے گاندھی جی کی زندگی کا پاور جیکٹ بنایا اور میرے دل میں یہ بات ہوئی کہ ہمیں انگریزوں سے آزادی چاہیے۔
معراج لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ان کا خاندان کوئٹہ میں آکر آباد ہوا۔ وہ اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ حکیم تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل اپنی بیٹی اختری خانم کے علاج کے لیے کوئٹہ چلے گئے تھے۔ کوئٹہ میں حکمت کے حوالے سے انھوں نے بڑانام پیدا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ والد صاحب کو میری سیاست بالکل پسند نا تھی لیکن جب 1961 میں کراچی کے آٹھ طالب علموں پر سمری کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو وہ اچانک ایک دن عدالت میں آگئے اور سمری کورٹ کے جج کو بتایا کہ وہ میرے والد ہیں۔
انھوں نے کہا ’’ میں اپنے بیٹے کی سیاست سے بالکل متفق نہیں، تمہارے سامنے کہہ کر جاتا ہوں کہ اگر اس نے ظلم و ستم سے ڈرکر تم سے معافی مانگی تو میں اسے عاق کردوں گا۔‘‘ معراج اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی منہاج برنا صحافیوں کی تحریک سے وابستہ تھے، وہ سوشلسٹ اورکمیونسٹ تھے۔ ایک بھائی ڈاکٹر سراج محمد خان ڈینٹسٹ تھے، ایک اور بھائی وہاج محمد خان تھے جنھوں نے اپنا قلمی نام دکھی پریم نگری رکھا تھا۔ معراج محمد خان نے لکھا ہے کہ وہ کوئٹہ میں کچھ نہیں کرتے تھے تو ان کے والد نے ان کی شادی کرانے کی کوشش کی، وہ 1957میں کراچی اپنے بھائی کے پاس آگئے۔
بقول معراج انھیں کراچی بالکل پسند نہ آیا۔ لوگ ہمہ وقت اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ بھائی منہاج برنا اور بھابھی دونوں ہی صبح صبح اپنے کاموں پر چلے جاتے۔ سارا دن بوریت میں گزرتا۔ شام کو منہاج بھائی ایک استاد کی طرح ہر بات پر ہمارا امتحان لیتے تھے، پھر ایس ایم کالج میں بارہویں جماعت میں داخلہ مل گیا۔ منہاج بھائی کا خیال تھا کہ گیارہویں جماعت میں داخلہ ہونا چاہیے۔
کالج کی سالانہ تقریب میں تقریر کے لیے میرا نام پکارا گیا تو سارا ہال ہنس پڑا۔ میں نے تھوڑا سا انکارکیا لیکن انورحسین کے اصرار پر تقریرکی (کتاب میں لکھا جانا چاہیے تھا کہ انور حسین کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین کے صاحبزادے تھے) اور مجھے پہلا انعام دیا گیا۔ معراج کہتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ فٹبال کے علاوہ کوئی اور چیز مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔ میں خواب دیکھتا تھا کہ برازیل چلا جاؤں اور اپنی فٹ بال کھیلنے کی خواہش پوری کرسکوں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ان کی دوستی خرم مرزا سے ہوئی۔ ( خرم مرزا این ایس ایف کے رہنما تھے) معراج کہتے ہیں کہ میرے شاعری کے ذوق میں میرے دوست خرم مرزا کی والدہ کا بہت ہاتھ تھا۔ ان کی والدہ کو غالب اور میر کی شاعری پر کافی دسترس تھی۔ معراج نے گھر چھوڑنے اور لیاری میں ایک جھونپڑی کرائے پر لینے کا ذکرکیا، وہ لکھتے ہیں کہ پھر جوہرحسین، واحد بشیر، آغا جعفر اقبال حسین وغیرہ سے دوستی ہوئی۔
محفلوں میں این ایس ایف کے انقلابی منشور پر باتیں ہونے لگیں۔ سماجی زندگی میں غریبی اور امیری کو جو تقسیم قائم تھی وہ مجھے غیر حقیقی نظر آیا کرتی تھی۔ انھوں نے 1960-1961 میں ایس ایم کالج کی طلبہ یونین کی صدارت کے انتخاب کا ذکرکیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک شعلہ بیان مقرر ہونے کی وجہ سے این ایس ایف کے رہنماؤں نے مجھے اگلی صفوں میں لاکھڑا کیا۔ (جاری ہے)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔