- برانز میڈل جیتنے والی ٹیم کو بالاآخر ڈیلی الاؤنس مل گیا
- پاکستان کیخلاف آسانی سے جیت! انگلش ٹیم کی حماقت ہوگی
- پی ٹی آئی کا احتجاج؛ مینارپاکستان اور دیگر راستے کنٹینرز لگا کر بند
- ملتان ٹیسٹ؛ انگلش کپتان کی شرکت مشکوک
- اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کردینا چاہیے، ڈونلڈ ٹرمپ
- پاکستان فٹبال ٹیم روس کیخلاف فرینڈلی میچ سے محروم، مگر کیوں؟
- اوورین کینسر سے بچاؤ کیلیے پہلی ویکسین تیاری پر کام جاری
- مخالف کھلاڑی کو کاٹنے والے فٹبالر پر پابندی عائد
- ٹیسلانے 27 ہزار سے زیادہ سائبر ٹرکس واپس منگوالیے
- پروفیشنل باکسنگ میں پاکستان کے ٹاپ باکسر محمد وسیم کی ایک اور کامیابی
- کے الیکٹرک نے صارفین کیلیے ڈسکاؤنٹ پروگرام ’’اسٹار ریوارڈ‘‘ متعارف کرا دیا
- کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا سوشل سیکیورٹی کنٹری بیوشن کی شرح میں کمی کا مطالبہ
- سندھ ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کراچی کے صدر کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی
- وزیر داخلہ کا رات گئے ڈی چوک کا دورہ، سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ
- قصور میں ناکہ زن ڈاکو نے درجنوں راہگیروں کو لوٹ لیا، پولیس کا کارروائی سے انکار
- وفاقی حکومت کا لیہ میں سولر پاور پلانٹ لگانے کا فیصلہ
- ایف بی آر اور آزاد جموں و کشمیر کی ٹیکس اتھارٹیز کے درمیان تنازعہ پیدا ہو گیا
- شہریوں کے نام پر جاری غیر قانونی سمیں افغان باشندے کو فروخت کیے جانے کا انکشاف
- ٹرمپ کا کیس سننے والے جج کو دھمکی دینے والے ملزم پر فرد جرم عائد
- پاک انگلینڈ سیریز؛ تیسرے ٹیسٹ کا مقام تبدیل ہونے کا امکان
سنیارٹی کا اصول پھر نظر انداز
جیوڈیشل کمیشن نے اتفاق رائے سے جسٹس عالیہ نیلم کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا ہے۔ وہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھیں۔ جسٹس شجاعت علی خان اور جسٹس باقر نجفی ان سے سینئر ہیں۔ ایک خاتون کا لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بننا یقیناً اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز بھی پنجاب کے حصے میں ہی آیا ہے۔ اس وقت پنجاب میں وزیرعلیٰ بھی خاتون ہیں۔
کچھ دوست سنیارٹی کی بات بھی کر رہے ہیں حالانکہ ماضی میں اس اہم تقرری کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب حکومت چیف جسٹس تعینات کیا کرتی تھی‘ تب سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کا اصول نظر انداز کیا گیا تھا۔ البتہ جب سے ججز تعیناتی کے اختیارات جیوڈیشری یعنی ڈویشل کمیشن کے پاس آئے ہیں ‘ چیف جسٹسز کی تعیناتی کے لیے سنیارٹی کے اصول پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔
بہرحال اس بار جیوڈیشل کمیشن نے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں کئی بار جونئیرز کو لیے جانے کی روایت دیکھی گئی ہے۔ اس کی یہ توجیح پیش کی جاتی ہے کہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جانا کوئی ترقی نہیں ہوتی بلکہ ایک نئی تعیناتی ہے‘ ایک نئی تقرری ہے‘ اس لیے سنیارٹی کے اصول کو لاگو کرناضروری نہیں۔کچھ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ جانا نئی تعیناتی تو نہیں ہے بلکہ ترقی ہے اور ترقی کے لیے اصول و ضوابط ہونے چاہیے۔اس کے لیے سنیارٹی بہترین اصول ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ میں جونئیر ججز کی تعیناتیاںہوتی رہی ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ اگر جیوڈیشل کمیشن میں ووٹ ہی فیصلے کا واحد معیار ہے تو پھر یہ درست ہے جس کے حق میں زیادہ ووٹ ہوں گے وہ چیف جسٹس بن جائے گا۔ ووٹ دینے والوں کے لیے کسی اصول ضابطے کو مدنظر رکھنا ضروری نہیں ہے‘ بس اپنی ترجیح کے مطابق رائے یا ووٹ دینا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ صرف اتفاق رائے ہونے کی دلیل سنیارٹی کے اصول کو نظر اندازکرنے کے لیے کافی ہے۔ کسی بھی کام کے لیے کوئی معقول وجہ اور بنیاد ہونی ضروری ہے‘ صرف اتفاق رائے کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی۔بہرحال جیوڈیشل کمیشن کے اراکین آئین اور قانون کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔
میرے بعض دوستوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اب لاہور ہوئی کورٹ میں دو سینئر جج صاحبان جونیئر جج کے ماتحت کام کر سکیں گے؟ ویسے فوج میں تو جونیئر افسران سپر سیڈ ہو جائیں توسینئرمستعفی ہو جاتے ہیںلیکن یہاں بھی یہ اپنی چوائس ہوتی ہے۔ سول اداروں میں سینئر کو جونئیر کے ماتحت کام کرنے کی روایت موجود ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جیوڈیشل کمیشن کے اندر کیا بات ہوئی ہے۔ ابھی تک تو ہمارے پاس سنی سنائی معلومات ہیں۔ جیوڈیشل کمیشن کی کارروائی ظاہر نہیں کی جاتی۔ اب میں سنی سنائی باتوں پر یہاں کیا رائے دوں۔ ججز کے عزت واحترام کو بھی سامنے رکھنا ہے۔ جب تک تصدیق نہ ہو جائے اس پر رائے دینا ٹھیک نہیں۔ لیکن سنیارٹی کے اصول پر عمل کیوں نہیں ہوا‘پتہ لگنا چاہیے تا کہ قیاس آرائیاں نہ ہوں۔
ایک دوست نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے کیوں نہیں کیا جا سکتا؟لیکن دوست ہی دلیل دیتے ہیں کہ وہاں کے لیے ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ صرف سنیارٹی کے اصول کو ہی مدنظر رکھا جائے گا۔ جب کہ باقی تعیناتیوں اور تقرریوں کے لیے کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے۔ مستقبل میں کیا ہو گا‘ اس کے بارے میں بھی فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ لہٰذا اندازے‘ قیاس آرائیاں اور پیش گوئی کرنے سے بہتر ہے انتظار کیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔