پاناما کے بعد پیراڈائز
ابھی پانامالیکس کا شور شرابا جاری ہی ہے کہ پیراڈائز پیپرز کے نام سے ایک ایسا بم پھاڑا گیا ہے
BERLIN:
کرپشن کے جن کو پیدا ہوئے لگ بھگ ڈھائی سو سال ہو رہے ہیں، یہ جن سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہی وجود میں آیا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سرمایہ دارانہ نظام اورکرپشن ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے۔ ویسے تو کرپشن کے قصے کہانیاں صدیوں پرانے ہیں لیکن اکیسویں صدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس صدی میں کرپشن آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی اور دنیا میں رہنے والے انسان جو اس کے زہر سے تو آلودہ رہے ہیں لیکن اس کے اصلی چہرے سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔
اب اکیسویں صدی میں نہ صرف اس جن کے مکروہ اور خوفناک چہرے سے واقف ہو رہے ہیں بلکہ انھیں اس کی ہلاکت آفرینی کا اندازہ بھی ہو رہا ہے۔ اس وحشی جن کو قابو کرنے کے لیے عامل کامل تعویذ گنڈے کرتے آرہے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے۔
ابھی پانامالیکس کا شور شرابا جاری ہی ہے کہ پیراڈائز پیپرز کے نام سے ایک ایسا بم پھاڑا گیا ہے کہ ساری دنیا کے کان بہرے ہو رہے ہیں۔ اس حیران کن اسکینڈل کی ایک کروڑ چونتیس لاکھ سے زیادہ دستاویزات سامنے آئی ہیں اور 47 ملکوں کے دو سو کے لگ بھگ ''اکابرین'' اس میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ جن میں برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ، امریکا کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، وزیر تجارت ولبر راس، ملکہ اردن، پرنس آغا کریم، کینیڈا اور جاپان کے سابق وزرائے اعظم، انڈونیشیا کے سابق صدر سوہارتو کے صاحبزادگان، عراقی پارلیمنٹ کے رکن، آسٹریلیا کے سابق چانسلر،بھارتی رکن پارلیمنٹ، بھارتی وزیر ہوا بازی، ترک وزیر اعظم کے دو بیٹے، سعودی اور قطری اکابرین، پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، صدرالدین ہاشوانی، مشہور بزنس مین میاں منشا، حسین داؤد اور سونیری بینک کے مالک وغیرہ، وغیرہ شامل ہیں۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق اس نیک کام میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زیادہ کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے یہ کارنامہ 1950ء سے 2016ء کے درمیان انجام دیا گیا ہے اس نیک کام کی تحقیق میں 67 ملکوں کے 381 صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ تازہ اسکینڈل پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے زیادہ شہری شامل ہیں ان میں سب سے زیادہ امریکا کے 25414 شہری سرفہرست ہیں برطانیہ کے 12707، ہانگ کانگ کے 6120، چین کے 3675، برمودا کے 5124 شامل ہیں۔
پاکستان میں پاناما لیکس کے چار سو سے زیادہ اکابرین میں ہمارے سابق وزیر اعظم، ان کے دو صاحبزادے، ایک دختر نیک اختر، ایک داماد شامل ہیں۔ سرمایہ دار ملکوں کے سربراہوں نے اربوں کھربوں ڈالر کی کرپشن کو چھپانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں جو ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ سوئس بینک ہیں جن میں چوری کے اربوں ڈالر بحفاظت رکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کے ''عوام'' کے 200 ارب ڈالر بھی انھی بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اخبارات میں مسلمانوں کے سب سے مقدس ملک سعودی عرب میں بھاری کرپشن کے حوالے سے جو چھ کالمی خبریں لگی ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ اربوں کی کرپشن کے ارتکاب میں درجنوں سعودی شہزادوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ان ''اکابرین'' کے ملک سے فرار کو روکنے کے لیے سعودی حکومت نے نجی پروازوں کو معطل کردیا ہے۔ ذرا غور فرمائیے یہ ایک دو ملکوں کی کرپشن کا مسئلہ نہیں نہ ہزار پانچ سو کرپشن کے مرتکبین کا مسئلہ ہے اس بھاری اسکینڈل میں 87 ملکوں کے ایلیٹ کے لاکھوں شہزادے شہزادیاں ملوث ہیں۔ صرف امریکا کے 25414 متمول لوگ اس لیکس میں شامل ہیں۔ ذرا غور فرمائیے برطانیہ جیسے قانون اور انصاف کے حوالے سے دنیا میں مشہور ملک کی آئینی حکمران ملکہ برطانیہ بھی اس میں شامل ہے۔
امریکا کے حاضر سروس وزیر خارجہ جو ابھی پچھلے دنوں پاکستان اور بھارت کے دورے پر تشریف لائے تھے اس لیکس میں اپنے کولیگ وزیر تجارت کے ساتھ شامل ہیں اور کینیڈا کا متحرک اور مقبول وزیر اعظم اور امریکا کے صدر ٹرمپ کے 13 ساتھی اس لیکس میں لیک ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کے سب سے زیادہ مقدس ملک سعودی عرب کے اعلیٰ مرتبت لوگ بھی اس لیکس میں شامل ہیں اور اس حوالے سے دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن میں 11 شہزادے 4 وزرا سمیت کئی مقدس لوگ گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ان میں سلطنت کے چیئرمین اور کھرب پتی شہزادہ الولید بن طلال، گورنر ریاض شہزادہ ترکی بن عبداللہ وزیر اقتصادیات عادل فقیہہ، نیول کمانڈر عبداللہ سلطان، ڈپٹی ڈیفنس سیکریٹری شہزادہ فہد بن عبداللہ شامل ہیں۔ ان حکومتی اکابرین کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاری سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے مقدس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
امریکا اور برطانیہ قانون اور انصاف کی برتری کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ملک ہیں اور اس برتری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پیراڈائز لیکس میں امریکا کے 25 ہزار سے زیادہ اور برطانیہ کے 12 ہزار سے زیادہ شہری شامل ہیں۔ یہ وبا صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں دنیا کی مشہور گلوکارہ میڈونا اور برطانیہ و اردن کی ملکائیں بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں اس بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزام میں گرفتاریاں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کے حکم پر اینٹی کرپشن کمیٹی نے اپنے وجود میں آنے کے چند گھنٹوں بعد ہی کی ہیں۔
آج پاکستان کی سیاست میں پاناما لیکس کے حوالے سے ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ سابق وزیر اعظم کو اعلیٰ عدلیہ نے نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا ہے۔ ان کے بیٹوں، بیٹی اور داماد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں، وزیر اعظم نیب کورٹ میں حاضریاں دے رہے ہیں۔ حکومت کی چولیں ہل گئی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاسی اخلاقیات بہرحال ابھی زندہ ہے ان ملکوں کے کئی سربراہ جن کے نام پانامالیکس میں شامل تھے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے، لیکن ہماری سیاسی اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ ہمارے نااہل حکمران فرما رہے ہیں کہ عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور چونکہ جمہوریت میں عوام کو برتری حاصل ہوتی ہے لہٰذا ہم عوام کے فیصلے کو مانیں گے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔
کرپشن اپنی اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے اور اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ داروں کا محافظ ہوتا ہے اور اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دار ہی عموماً قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کے مطابق قانون بناتے ہیں اور اس میں ترامیم کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں نااہل وزیر اعظم کی پارٹی کی سربراہی سے علیحدگی کے عدالتی فیصلے کو آئین میں ترمیم کرکے کالعدم قرار دے دیا گیا۔
اس قسم کے کھیل تماشے اس نظام میں اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک ملکوں کے آئین میں لامحدود حق ملکیت کو تحفظ دیا جاتا رہے گا۔ لامحدود حق ملکیت ہی کی وجہ سے چند ہاتھوں میں ارتکاز زر ہوتا ہے اور یہ ارتکاز زر ہر ملک میں کرپشن کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔
کرپشن کے جن کو پیدا ہوئے لگ بھگ ڈھائی سو سال ہو رہے ہیں، یہ جن سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہی وجود میں آیا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سرمایہ دارانہ نظام اورکرپشن ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے۔ ویسے تو کرپشن کے قصے کہانیاں صدیوں پرانے ہیں لیکن اکیسویں صدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس صدی میں کرپشن آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی اور دنیا میں رہنے والے انسان جو اس کے زہر سے تو آلودہ رہے ہیں لیکن اس کے اصلی چہرے سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔
اب اکیسویں صدی میں نہ صرف اس جن کے مکروہ اور خوفناک چہرے سے واقف ہو رہے ہیں بلکہ انھیں اس کی ہلاکت آفرینی کا اندازہ بھی ہو رہا ہے۔ اس وحشی جن کو قابو کرنے کے لیے عامل کامل تعویذ گنڈے کرتے آرہے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے۔
ابھی پانامالیکس کا شور شرابا جاری ہی ہے کہ پیراڈائز پیپرز کے نام سے ایک ایسا بم پھاڑا گیا ہے کہ ساری دنیا کے کان بہرے ہو رہے ہیں۔ اس حیران کن اسکینڈل کی ایک کروڑ چونتیس لاکھ سے زیادہ دستاویزات سامنے آئی ہیں اور 47 ملکوں کے دو سو کے لگ بھگ ''اکابرین'' اس میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ جن میں برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ، امریکا کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، وزیر تجارت ولبر راس، ملکہ اردن، پرنس آغا کریم، کینیڈا اور جاپان کے سابق وزرائے اعظم، انڈونیشیا کے سابق صدر سوہارتو کے صاحبزادگان، عراقی پارلیمنٹ کے رکن، آسٹریلیا کے سابق چانسلر،بھارتی رکن پارلیمنٹ، بھارتی وزیر ہوا بازی، ترک وزیر اعظم کے دو بیٹے، سعودی اور قطری اکابرین، پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، صدرالدین ہاشوانی، مشہور بزنس مین میاں منشا، حسین داؤد اور سونیری بینک کے مالک وغیرہ، وغیرہ شامل ہیں۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق اس نیک کام میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زیادہ کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے یہ کارنامہ 1950ء سے 2016ء کے درمیان انجام دیا گیا ہے اس نیک کام کی تحقیق میں 67 ملکوں کے 381 صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ تازہ اسکینڈل پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے زیادہ شہری شامل ہیں ان میں سب سے زیادہ امریکا کے 25414 شہری سرفہرست ہیں برطانیہ کے 12707، ہانگ کانگ کے 6120، چین کے 3675، برمودا کے 5124 شامل ہیں۔
پاکستان میں پاناما لیکس کے چار سو سے زیادہ اکابرین میں ہمارے سابق وزیر اعظم، ان کے دو صاحبزادے، ایک دختر نیک اختر، ایک داماد شامل ہیں۔ سرمایہ دار ملکوں کے سربراہوں نے اربوں کھربوں ڈالر کی کرپشن کو چھپانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں جو ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ سوئس بینک ہیں جن میں چوری کے اربوں ڈالر بحفاظت رکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کے ''عوام'' کے 200 ارب ڈالر بھی انھی بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اخبارات میں مسلمانوں کے سب سے مقدس ملک سعودی عرب میں بھاری کرپشن کے حوالے سے جو چھ کالمی خبریں لگی ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ اربوں کی کرپشن کے ارتکاب میں درجنوں سعودی شہزادوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ان ''اکابرین'' کے ملک سے فرار کو روکنے کے لیے سعودی حکومت نے نجی پروازوں کو معطل کردیا ہے۔ ذرا غور فرمائیے یہ ایک دو ملکوں کی کرپشن کا مسئلہ نہیں نہ ہزار پانچ سو کرپشن کے مرتکبین کا مسئلہ ہے اس بھاری اسکینڈل میں 87 ملکوں کے ایلیٹ کے لاکھوں شہزادے شہزادیاں ملوث ہیں۔ صرف امریکا کے 25414 متمول لوگ اس لیکس میں شامل ہیں۔ ذرا غور فرمائیے برطانیہ جیسے قانون اور انصاف کے حوالے سے دنیا میں مشہور ملک کی آئینی حکمران ملکہ برطانیہ بھی اس میں شامل ہے۔
امریکا کے حاضر سروس وزیر خارجہ جو ابھی پچھلے دنوں پاکستان اور بھارت کے دورے پر تشریف لائے تھے اس لیکس میں اپنے کولیگ وزیر تجارت کے ساتھ شامل ہیں اور کینیڈا کا متحرک اور مقبول وزیر اعظم اور امریکا کے صدر ٹرمپ کے 13 ساتھی اس لیکس میں لیک ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کے سب سے زیادہ مقدس ملک سعودی عرب کے اعلیٰ مرتبت لوگ بھی اس لیکس میں شامل ہیں اور اس حوالے سے دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن میں 11 شہزادے 4 وزرا سمیت کئی مقدس لوگ گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ان میں سلطنت کے چیئرمین اور کھرب پتی شہزادہ الولید بن طلال، گورنر ریاض شہزادہ ترکی بن عبداللہ وزیر اقتصادیات عادل فقیہہ، نیول کمانڈر عبداللہ سلطان، ڈپٹی ڈیفنس سیکریٹری شہزادہ فہد بن عبداللہ شامل ہیں۔ ان حکومتی اکابرین کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاری سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے مقدس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
امریکا اور برطانیہ قانون اور انصاف کی برتری کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ملک ہیں اور اس برتری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پیراڈائز لیکس میں امریکا کے 25 ہزار سے زیادہ اور برطانیہ کے 12 ہزار سے زیادہ شہری شامل ہیں۔ یہ وبا صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں دنیا کی مشہور گلوکارہ میڈونا اور برطانیہ و اردن کی ملکائیں بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں اس بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزام میں گرفتاریاں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کے حکم پر اینٹی کرپشن کمیٹی نے اپنے وجود میں آنے کے چند گھنٹوں بعد ہی کی ہیں۔
آج پاکستان کی سیاست میں پاناما لیکس کے حوالے سے ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ سابق وزیر اعظم کو اعلیٰ عدلیہ نے نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا ہے۔ ان کے بیٹوں، بیٹی اور داماد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں، وزیر اعظم نیب کورٹ میں حاضریاں دے رہے ہیں۔ حکومت کی چولیں ہل گئی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاسی اخلاقیات بہرحال ابھی زندہ ہے ان ملکوں کے کئی سربراہ جن کے نام پانامالیکس میں شامل تھے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے، لیکن ہماری سیاسی اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ ہمارے نااہل حکمران فرما رہے ہیں کہ عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور چونکہ جمہوریت میں عوام کو برتری حاصل ہوتی ہے لہٰذا ہم عوام کے فیصلے کو مانیں گے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔
کرپشن اپنی اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے اور اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ داروں کا محافظ ہوتا ہے اور اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دار ہی عموماً قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کے مطابق قانون بناتے ہیں اور اس میں ترامیم کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں نااہل وزیر اعظم کی پارٹی کی سربراہی سے علیحدگی کے عدالتی فیصلے کو آئین میں ترمیم کرکے کالعدم قرار دے دیا گیا۔
اس قسم کے کھیل تماشے اس نظام میں اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک ملکوں کے آئین میں لامحدود حق ملکیت کو تحفظ دیا جاتا رہے گا۔ لامحدود حق ملکیت ہی کی وجہ سے چند ہاتھوں میں ارتکاز زر ہوتا ہے اور یہ ارتکاز زر ہر ملک میں کرپشن کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔