اب نہیں کوئی بات خطرے کی

ایک مظلوم اقلیت اکثریت میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس کی عینک کا نمبر بھی راتوں رات بدل جاتا ہے۔

یہ داستان اتنی ہی پرانی ہے جتنی تہذیب کی کہانی۔ جب کچھ رومی عیسائی ہو گئے اور دیگر کو بھی چپکے چپکے ترغیب دینے لگے تو ان ابتدائی عیسائیوں کو رومن بادشاہتیں کفر و الحاد پھیلانے والے باغی قرار دے کر گرفتار اور قتل کرنے لگیں۔ لیکن شہنشاہ کانسٹنٹین اول نے مسیحیت قبول کی تو پھر رومن دیوی دیوتاوں کو ماننے والے کافر ہو گئے اور انھیں ترغیب دی گئی کہ وہ جوق در جوق عیسائیت قبول کر لیں اور انھوں نے قبول کرنا شروع بھی کر دی۔

جب مامون الرشید نے ہر شے کو اندھا دھند تقلید کے بجائے عقل کی میزان پر پرکھنے والی معتزلہ سوچ کو دربار میں سر آنکھوں پر بٹھایا تو امام احمد بن حنبل کو معتزلہ افکار قبول نہ کرنے کی پاداش میں قید خانے بھیج دیا گیا۔لیکن جب خلیفہ المتوکل نے معتزلہ سوچ کو زندیقی قرار دیا تو عوام بھی معتزلائیوں پر تھو تھو کرنے لگے اور ان تحریف پسند گستاخوں کو پکڑے جانے اور سزا سے بچنے کے لیے منتشر و روپوش ہونا پڑا۔

جب 1492ء میں فرڈینینڈ اور ازابیلا کی مشترکہ ہسپانوی حکومت نے اموی اسپین کا وجود مٹا دیا، مسلمانوں اور یہودیوں کو ایک ساتھ اسپین سے نکالنے کا عمل شروع ہوا تو جو نہ جا سکے ان میں سے بہت سوں نے عیسائیت قبول کر لی۔مگر حکومت اور کیتھولک علما کو شبہہ تھا کہ یہ دل سے مسیحی نہیں بلکہ جان بخشی کے لالچ میں مذہب تبدیل کر بیٹھے ہیں لہذا یہ اپنی سازشوں سے باز نہیں آئیں گے اور کیتھولک عقائد اور ریاست کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔چنانچہ پاپائے روم سکستھس چہارم کی اجازت سے مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں تا کہ وہ سختی سے نئے مسیحوں کے عقائد کی چھان بین کر سکیں۔ یوں وہ دور شروع ہوا جسے ''اسپینش اینکوزیشن'' کہا جاتا ہے۔

عقائد کی پرکھ کا یہ دور لگ بھگ ساڑھے تین سو برس تک چلا۔ پہلے مرحلے میں بظاہر مسیحی بننے والے یہودیوں اور مسلمانوں کی باری آئی۔ لگ بھگ دو ہزار ''نو مسیحی'' مختلف ادوار میں جلا دیے گئے کیونکہ مذہبی عدالتیں اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ ان کا ایمان مشکوک ہے۔ اس کے بعد نئی نئی اٹھنے والی پروٹسٹنٹ تحریک میں شامل ہونے والوں کا تعاقب کیا گیا اور انھیں اسپین میں پیر ٹکانے کا ماحول نہ مل سکا۔ پھر اکثریتی کیتھولک عقیدے کے اندر کم خالص کمزور عقیدہ کیتھولکس کی باری آئی۔

سینیٹ اگناتئیس کو بدعتی ہونے کے جرم میں دو بار قید کیا گیا جب کہ تولیدو کے آرچ بشپ کے عقیدے میں بعد از تحقیق کجی پائی گئی تو انھیں سترہ برس قید کاٹنا پڑ گئی۔کچھ ایسا ہی بدعت شکن نظام ہمسائیہ ملک پرتگال میں بھی لگ بھگ تین سو برس تک رائج رہا اور کہیں اٹھارویں صدی کی پہلی چوتھائی میں جا کر عقائد کی سختی سے چھان پھٹک کا یہ دور ختم ہو سکا۔کیونکہ باقی یورپ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی اور صنعتی انقلاب کے اثرات کے سبب زمانہ بدل رہا تھا۔

عجب بات ہے کہ سولہویں صدی یورپ میں جدیدیت، روشن خیالی اور نشاط ثانیہ کی صدی کہلاتی ہے۔مگر اسی دور میں عوامی سطح پر جادو گروں اور چڑیلوں کا تعاقب بھی جاری تھا۔جس مرد پر بھی کالا جادوگر یا جس عورت پر بھی چڑیل ہونے کا شبہ ہوتا اسے پادریوں کی جانب سے چھان بین کے بعد یا تو بری کر دیا جاتا یا پھر بھوسے کے ڈھیر پر چوبی کھمبے کے ساتھ باندھ کر جلا دیا جاتا۔اس گھیراؤ جلاؤ کی فضا میں جو ڈکشنری میں وچ ہنٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے ذاتی دشمنیوں، حسد اور رقابت کا حساب کتاب بھی خوب برابر ہوا۔

زمانہ بدلتا گیا مگر وچ ہنٹنگ زمانے کے ساتھ ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ اور موزی روپ اختیار کرتی چلی گئی۔ بیسویں صدی میں اس کی بدترین شکل نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک میں نظر آتی ہے۔ بس یوں ہوا کہ مذہبی برتری کی جگہ نسلی برتری نے لے لی مگر نتائج پہلے سے کہیں بھیانک نکلے۔اور پھر نازی جرمنی کے تجربے کو اسرائیل نے پالش کر کے غرب ِ اردن اور غزہ کے فلسطینیوں پر آزمایا جب کہ اسرائیل کے اندر آباد عرب اقلیت کو بظاہر یہودی شہریوں کی طرح برابر کے آئینی حقوق حاصل ہیں لیکن ان حقوق پر عمل درآمد اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کسی بھی نظریاتی ریاست میں ہوتا ہے۔بھلے وہ کیمونسٹ ریاست ہی کیوں نہ ہو۔

کیمونسٹوں سے یاد آیا کہ آزادیِ اظہار و تحریر کے چیمپین امریکا میں دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد سوویت یونین سے سرد جنگ کے آغازی دور میں سینیٹر جوزف میکارتھی کا ظہور ہوا۔وہ داخلہ امور سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ کیا بنے کہ انھیں ہر اینٹ کے نیچے ملحد کیمونسٹ دکھائی دینے لگے۔بقول ان کے امریکی محکمہ خارجہ میں دو ہزار کیمونسٹ چھپے ہوئے ہیں۔مسلح افواج میں کیمونسٹ گھسے ہوئے ہیں۔


میڈیا اور ہالی وڈ تو خیر کیمونسٹوں کا چھتہ ہے۔چنانچہ طلبیاں ہونے لگیں، فتوی لگنے لگے، لوگوں کی زندگیاں اور کیرئیر برباد ہو گئے، حالت یہ ہو گئی کہ لوگ رضاکارانہ طور پر آگے آنے لگے اور خود کو سرخ لیبل سے بچانے کے لیے سامنے والے کا نام لینے لگے۔ سن54ء سے 57ء تک امریکا میں شائد ہی کوئی ایسا سرکردہ دانشور، ادیب، آرٹسٹ، اداکار بچا ہو جس پر کیمونسٹ ہونے کا شبہہ نہ ہوا ہوا۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 57ء میں جوزف میکارتھی کا انتقال ہوگیا اور بہت سے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

اور خود کیمونسٹوں کے ہاں کیا ہوا؟ سوویت یونین اگرچہ زار کی استبددادیت کی زخم خوردہ تمام مظلوم قومیتوں کا مساوی وفاق تھا۔ مگر اس مساوی دنیا میں بھی کچھ باقیوں سے ذرا زیادہ ہی مساوی نکلے۔ جیسے اسٹیبلشمنٹ کی نظریاتی تشریح ماننے والے ترمیم پسند بدعتی کیمونسٹوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر مادی پوزیشن میں تھے۔چنانچہ نظریاتی تطہیر کے نام پر اسٹالن کے دور میں فاسق کیمونسٹوں کی بھرپور وسیع بیخ کنی ہوئی۔

غیر طبقاتی و غیر مساوی سماج کا نعرہ اپنی جگہ مگر اس سماج میں بھی روسی غیر روسی قومیتوں کے مقابلے میں زیادہ استحقاق کے حامل تھے۔وسطی ایشیا کی ثقافتی و تاریخی شناخت پر ''روسیفکیشن'' کا کمبل ڈالنے کا جو عمل زار شاہی کے دور میں تھا وہی عمل نظریاتی تبدیلی کے باوجود کیمونسٹ دور میں بھی برقرار رہا۔

چین میں اگرچہ ماؤ کا مزدور کسان انقلاب سب کے لیے تھا مگر ہان نسلی اکثریت کو جس طرح دیگر نسلی اقلیتوں پر سرکاری سرپرستی میں غالب کیا گیا تبت اور شن جیانگ اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ ویسے تو چینی ریاست کا کسی بھی مذہبی عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں مگر حالیہ برسوں میں فالن گانگ فرقے کا جس نظریاتی جوش و خروش سے ناطقہ بند کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلبہ پرستی ختم نہیں ہوتی بس چولہ بدل لیتی ہے۔

اس بیچ ایک اور مسئلہ بھی تو ہے۔ ایک مظلوم اقلیت اکثریت میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس کی عینک کا نمبر بھی راتوں رات بدل جاتا ہے۔جیسے سعودی، بحرینی اور کویتی شیعہ جتنا سنی حکومتوں کا امتیازی سلوک سہہ رہے ہیں اتنا ہی امتیاز ایران کے اندر بہائی اقلیت سہہ رہی ہے۔جتنا امتیاز بھارت کے ''غیر ملکی گاؤکش مسلمان'' جوشیلے ہندوتوا کے ہاتھوں سہہ رہے ہیں اتنا ہی امتیاز پاکستان کے ہندوؤں کو بھی جبری شادیوں اور مسیحوں کو توہینِ مذہب اور شیعہ ہزارگیوں کو منگول چہرے کے سبب درپیش ہے۔

حالانکہ سرکاری تاریخ کے مطابق پاکستان ایک اقلیت نے ایک اکثریت کے جبر سے نجات کے لیے بنایا۔مگر جب وہی مظلوم اقلیت غالب اکثریت میں تبدیل ہوئی تو اس کی ذہنیت بھی اکثریت کی نظریاتی برتری میں بدل گئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برتری کا زعم ''اسپینشن اینکوزیشن'' کا روپ لیتا چلا گیا۔ آج یہ حالت ہے کہ اگر زید کو بکر کے عقیدے پر کسی بھی سبب یا بلا سبب شک ہو جاتا ہے تو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں۔اب بکر کو یہ شک عملاً دور کرنا پڑے گا بھلے وہ منہ سے کچھ بھی کہتا رہے۔ ورنہ پرہیز گار علما یا پاکباز ہجوم یا عدالتی پٹیشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔اور ان سب شک کرنے اور پھیلانے والوں کے اوپر وہ تکفیری ہیں جو ان سب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں جو ان کے کھینچے ہوئے دائرے سے خارج ہیں۔

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے ( جون ایلیا )

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
Load Next Story