مشرقی کے ساتھ ساتھ شمال مغربی سرحد بھی حساس ہے
مشرقی سرحد پر خطرات کے پیش نظر جواب میں ہماری تیاریاں کم نہیں ہونی چاہئیں، سربراہ پاک فوج
ISLAMABAD:
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مشرقی سرحد پر خطرات کے پیش نظر جواب میں ہماری تیاریاں کم نہیں ہونی چاہئیں، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز راولپنڈی میں کور ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا، آرمی چیف کو کنٹرول لائن کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی اور آپریشنل تیاریوں سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پرانھوں نے سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر پاک فوج کے مؤثر جواب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی سرحد پر خطرات کے جواب میں ہماری تیاریاں کم نہیں ہونی چاہیے۔
ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جمعہ کو افغان امورکے چین کے خصوصی مندوب ڈینگ شی جن نے ملاقات کی ،آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف سے چینی وزارت خارجہ میں افغان امور کے خصوصی مندوب ڈینگ شی جن نے ملاقات کی جس میں پاک افغان سرحدی امور ،خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر چینی مندوب نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کی کوششیں اور پاکستان کی قربانیاں قابل ستائش ہیں۔
پاکستان کی مشرقی سرحد پر جو خطرات ہیں وہ نئے نہیں ہیں اور نہ ہی کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کوئی نئی بات ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو مشرقی سرحد کے خطرات سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔پاک فوج کے پروفیشنل ازم پر کسی کو شک بھی نہیں ہے اور بھارت بھی اس سے بخوبی آگاہ ہے تاہم بھارت کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یہ خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں۔ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کے باعث پاکستانی شہریوں کا جانی نقصان بھی ہو رہا ہے اور فصلیں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ عالمی برادری بھی اس صورتحال سے آگاہ ہے۔
گزشتہ روز بھی بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی دیہاتی خاتون شہید ہوئی اور ایک نوجوان زخمی ہوا۔ اس فائرنگ کا نشانہ عباس پور لائن آف کنٹرول کے نواحی دیہات، پولس، ککوٹہ اور تروٹی تھے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے بھاری ہتھیاروں سے ان دیہات کو نشانہ بنایا۔ لائن آف کنٹرول پر ہی چیری کوٹ اور نیزہ پیر سیکٹرز میں بھی بھارتی فوج نے گولہ باری کی۔ بھارت کی اس جارحیت پر پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو جمعہ کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ یہ صورت حال تو بھارت کے ساتھ سرحد کی ہے۔ اس سرحد پر پاکستانی فوج کو ہر دم چاق وچوبند رہنا پڑتا ہے۔ اب اگر شمال مغربی سرحد کا جائزہ لیا جائے تو حالات وہاں بھی سازگار نہیں ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کی بھی اکثر خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے۔ افغانستان سے آئے روز دہشت گرد پاکستانی علاقے میں آ کر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔چند روز پہلے بھی افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستانی سیکیورٹی پوسٹ پر حملہ کیا جس میں ایک کیپٹن اور جوان شہید ہوئے۔کچھ عرصہ پہلے چمن کے قریب ڈیورنڈ لائن پر واقع دیہات میں پاکستانی مردم شماری ٹیم پر افغانستان کے فوجیوں نے فائرنگ کر دی تھی۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبدﷲ عبدﷲ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی کالعدم دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کے بھگوڑے افغانستان میں موجود ہیں۔پاکستان اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کو کئی بار آگاہ بھی کرچکا ہے لیکن افغانستان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے بھگوڑوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ وہ ڈیورنڈ لائن سے متصل سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی پر کوئی توجہ دے رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان کے ساتھ سرحد بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
افغانستان کی حکومت کی دیدہ دانستہ کوتاہی اور غلط پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہورہی بلکہ اردگر گرد کے علاقوں کو بھی متاثر کررہی ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے خصوصی مندوب برائے افغان امور ڈینگ شی جن کے ساتھ پاک فوج کے سربراہ کی جو ملاقات ہوئی ہے اس میں سرحدی امور پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کی سرحد بھی پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں بھی صورت حال زیادہ اچھی نہیں ہے۔ وہاں مشرقی ترکستان تحریک خاصے عرصے سے سرگرم ہے ۔ ان حالات کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان اس وقت مشرق اور شمالی مغرب میں تقریباً ایک جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔
بلوچستان میں ایران کے ساتھ جو سرحد ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ خاصے مشکل اور پیچیدہ حالات ہیں۔پاکستان کے ہمسایہ میں چین اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں جب کہ پاکستان خود بھی ایٹمی طاقت ہے۔افغانستان میں انارکی ہے جب کہ ایران مشرق وسطیٰ میں پراکسی جنگ کا حصہ بنا ہوا ہے ۔عرب ممالک اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔اس کشیدگی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ان حالات میں پاکستان اب اپنے سرحدی معاملات سے غافل نہیں رہ سکتا۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ صرف مشرقی سرحد پر توجہ دی جائے اور باقی سرحدوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے، سرد جنگ کے دور کی صورتحال اب تبدیل ہوگئی ہے۔ پاکستان کو افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ سرحدی معاملات پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے جس طرح بلا روک ٹوک پیدل کراسنگ ہوتی ہے اس کو بند کرنا ہو گا۔ اسی طرح ایرانی سرحد کو بھی فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈیورنڈ لائن کے پار طالبان کی وجہ سے مسائل ہیں تو ایرانی سرحد کے ساتھ جندﷲ کا مسئلہ موجود ہے۔ یہ غیر معمولی حالات ہیں، ان حالات میں پاکستان کو غیرمعمولی طور پر چوکنا رہنا ہوگا، پاکستان کے دفاع کے لیے پاک فوج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنا ہوگا جب کہ معاشی طور پر بھی مضبوطی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ مضبوط معیشت کے بغیر دفاع بھی مضبوط نہیں ہوسکتا۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مشرقی سرحد پر خطرات کے پیش نظر جواب میں ہماری تیاریاں کم نہیں ہونی چاہئیں، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز راولپنڈی میں کور ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا، آرمی چیف کو کنٹرول لائن کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی اور آپریشنل تیاریوں سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پرانھوں نے سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر پاک فوج کے مؤثر جواب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی سرحد پر خطرات کے جواب میں ہماری تیاریاں کم نہیں ہونی چاہیے۔
ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جمعہ کو افغان امورکے چین کے خصوصی مندوب ڈینگ شی جن نے ملاقات کی ،آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف سے چینی وزارت خارجہ میں افغان امور کے خصوصی مندوب ڈینگ شی جن نے ملاقات کی جس میں پاک افغان سرحدی امور ،خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر چینی مندوب نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کی کوششیں اور پاکستان کی قربانیاں قابل ستائش ہیں۔
پاکستان کی مشرقی سرحد پر جو خطرات ہیں وہ نئے نہیں ہیں اور نہ ہی کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کوئی نئی بات ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو مشرقی سرحد کے خطرات سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔پاک فوج کے پروفیشنل ازم پر کسی کو شک بھی نہیں ہے اور بھارت بھی اس سے بخوبی آگاہ ہے تاہم بھارت کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یہ خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں۔ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کے باعث پاکستانی شہریوں کا جانی نقصان بھی ہو رہا ہے اور فصلیں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ عالمی برادری بھی اس صورتحال سے آگاہ ہے۔
گزشتہ روز بھی بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی دیہاتی خاتون شہید ہوئی اور ایک نوجوان زخمی ہوا۔ اس فائرنگ کا نشانہ عباس پور لائن آف کنٹرول کے نواحی دیہات، پولس، ککوٹہ اور تروٹی تھے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے بھاری ہتھیاروں سے ان دیہات کو نشانہ بنایا۔ لائن آف کنٹرول پر ہی چیری کوٹ اور نیزہ پیر سیکٹرز میں بھی بھارتی فوج نے گولہ باری کی۔ بھارت کی اس جارحیت پر پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو جمعہ کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ یہ صورت حال تو بھارت کے ساتھ سرحد کی ہے۔ اس سرحد پر پاکستانی فوج کو ہر دم چاق وچوبند رہنا پڑتا ہے۔ اب اگر شمال مغربی سرحد کا جائزہ لیا جائے تو حالات وہاں بھی سازگار نہیں ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کی بھی اکثر خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے۔ افغانستان سے آئے روز دہشت گرد پاکستانی علاقے میں آ کر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔چند روز پہلے بھی افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستانی سیکیورٹی پوسٹ پر حملہ کیا جس میں ایک کیپٹن اور جوان شہید ہوئے۔کچھ عرصہ پہلے چمن کے قریب ڈیورنڈ لائن پر واقع دیہات میں پاکستانی مردم شماری ٹیم پر افغانستان کے فوجیوں نے فائرنگ کر دی تھی۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبدﷲ عبدﷲ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی کالعدم دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کے بھگوڑے افغانستان میں موجود ہیں۔پاکستان اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کو کئی بار آگاہ بھی کرچکا ہے لیکن افغانستان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے بھگوڑوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ وہ ڈیورنڈ لائن سے متصل سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی پر کوئی توجہ دے رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان کے ساتھ سرحد بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
افغانستان کی حکومت کی دیدہ دانستہ کوتاہی اور غلط پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہورہی بلکہ اردگر گرد کے علاقوں کو بھی متاثر کررہی ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے خصوصی مندوب برائے افغان امور ڈینگ شی جن کے ساتھ پاک فوج کے سربراہ کی جو ملاقات ہوئی ہے اس میں سرحدی امور پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کی سرحد بھی پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں بھی صورت حال زیادہ اچھی نہیں ہے۔ وہاں مشرقی ترکستان تحریک خاصے عرصے سے سرگرم ہے ۔ ان حالات کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان اس وقت مشرق اور شمالی مغرب میں تقریباً ایک جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔
بلوچستان میں ایران کے ساتھ جو سرحد ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ خاصے مشکل اور پیچیدہ حالات ہیں۔پاکستان کے ہمسایہ میں چین اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں جب کہ پاکستان خود بھی ایٹمی طاقت ہے۔افغانستان میں انارکی ہے جب کہ ایران مشرق وسطیٰ میں پراکسی جنگ کا حصہ بنا ہوا ہے ۔عرب ممالک اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔اس کشیدگی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ان حالات میں پاکستان اب اپنے سرحدی معاملات سے غافل نہیں رہ سکتا۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ صرف مشرقی سرحد پر توجہ دی جائے اور باقی سرحدوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے، سرد جنگ کے دور کی صورتحال اب تبدیل ہوگئی ہے۔ پاکستان کو افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ سرحدی معاملات پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے جس طرح بلا روک ٹوک پیدل کراسنگ ہوتی ہے اس کو بند کرنا ہو گا۔ اسی طرح ایرانی سرحد کو بھی فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈیورنڈ لائن کے پار طالبان کی وجہ سے مسائل ہیں تو ایرانی سرحد کے ساتھ جندﷲ کا مسئلہ موجود ہے۔ یہ غیر معمولی حالات ہیں، ان حالات میں پاکستان کو غیرمعمولی طور پر چوکنا رہنا ہوگا، پاکستان کے دفاع کے لیے پاک فوج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنا ہوگا جب کہ معاشی طور پر بھی مضبوطی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ مضبوط معیشت کے بغیر دفاع بھی مضبوط نہیں ہوسکتا۔