ملکی افق پر غیر یقینی پن کے گھنے بادل
پاکستان میں بالخصوص جہاں مشترکہ خاندانی نظام غالب ہے، ایک انسان کے ذہنی مریض ہوجانے سے سارا گھر متاثر ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ صحت مند قومیں ہی ترقی کی منازل کامیابی سے طے کرتی ہیں اور قوموں میں لگن، امنگ کا تناسب نوجوانوں (نئی نسل) میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ افسوس ہمارے ملک کا ہر دوسرا نوجوان بیزار، اداس اور مایوس نظر آتا ہے،کسی کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ امتحان میں امتیازی نمبر نہیں لے سکا، توکوئی اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ سالہا سال دفتروں اوراداروں کی خاک چھاننے کے باوجود اسے ملازمت نہیں ملی۔
اسی طرح کوئی ازخود یہ طے کرکے بیٹھا ہے کہ اس کے ستارے گردش میں ہیں، سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو مٹی ہوجاتا ہے۔ ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے اکثر لوگ اداسی کی ایسی تصویر بنے پھرتے ہیں جیسے ناکامیوں نے ان کے آنگن میں مستقل پڑاؤ ڈال لیا ہو۔ بیشترگھروں کے سربراہ اپنی بچیوں کے رشتے مہیا نہ ہونے پر شدید ڈپریشن کا شکار نظر آتے ہیں، اکثرگھروں کی لڑکیاں گھر چلاتے ہوئے یا تو اپنی شادی کی عمر گزار دیتی ہیں یا پھر اپنے سے چھوٹی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں غلطاں ہوجاتی ہیں۔
ہمارے ہاں ناکامی، کامیابی کا زینہ بننے کے بجائے مایوسی کا سفینہ اس لیے بن جاتی ہے کہ ہم اس کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے اپنی غلطی یا نااہلی چھپانے کے لیے تاویلات اور توجیحات ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ انسان کوئی بھی ہو اسے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زندگی میں ایک دن ایسا موڑ ضرور آتا ہے جہاں سے درست راستے کا انتخاب کرکے منزل مراد پائی جاسکتی ہے۔ جو لوگ ناکامی کو عذر بناکر پریشانی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں، ان کی زندگی روگ بن جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ اب ہنسنا بھول گئے ہیں کیونکہ زخم تازہ یا گہرے ہوں اور دکھ جسم و جاں سے لپٹا ہوا ہو تو مسکرانا مشکل ہی ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنھوں نے خوشیوں کا چہرہ سرے سے دیکھا ہی نہیں لہٰذا وہ غم، دکھ، رنج والم سے ہی اپنا رشتہ استوارکیے ہوتے ہیں۔ کاش ایسا لیڈر ایسا مسیحا وطن عزیزکو میسر آجائے جو عام انسانوں کی زندگی کے ہر دن کو ''یوم تبسم'' میں بدل دے۔
اخبارات، ٹیلی ویژن کی بریکنگ نیوز، سوشل میڈیا اور دوستوں کی محفل میں چھڑے ہوئے موضوعات سب کے سب من کے اندر چھپے جذبوں اور احساس کو روند ڈالتے ہیں اور یہ سب ہمارے ملک میں ہی نہیں اب تو دنیا بھر میں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔ دانشوروں کے بقول مسکراہٹ دل جیتنے کے بھی کام آتی ہے لیکن گرد و پیش نے لوگوں کے دلوں کا خون کردیا ہے۔ تاہم جس طرح جینے کے لیے ہوا، پانی، خوراک اور دل کے اندر جینے کی آرزو ضروری ہے اسی طرح ایک خفیف سی مسکراہٹ سانسوں کی بحالی کے لیے ازحد ضروری ہوتی ہے۔
صحت کے حوالے سے حال ہی میں ایک سیمینار میں ماہرین کا یہ انکشاف ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں اس وقت دوکروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں اور گویا ہر چوتھے گھر میں ایک نہ ایک ذہنی مریض موجود ہے۔ بائیس کروڑ کی کل آبادی والا ملک پاکستان اگر دو کروڑ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کو اپنی پناہ میں رکھے ہوئے ہے تو یہ بہت ہولناک امر ہے اور یہ بیماری نہ صرف شدت اختیار کر رہی ہے بلکہ اس کے لیے اسپتال اور معالجین بھی کم ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا 70 فیصد افراد کا تعلق بڑے شہروں سے ہے ان میں کراچی کی 35.7 فیصد، کوئٹہ 43 فیصد اور لاہور کی 53.4 فیصد آبادی ڈپریشن (ذہنی مرض) کا شکار ہے، جب کہ خواتین میں ذہنی تناؤ کا عنصر مردوں سے 40 فیصد زیادہ پایا گیا ہے۔ ماہرین ڈپریشن کی بڑی وجہ یوں تو جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نقائص کو قرار دیتے ہیں جو زیادہ تر تفکرات، خاندانی مسائل، بیروزگاری، شادی کا نہ ہونا اور صحت کی خرابی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں ڈپریشن کے باعث ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں بالخصوص جہاں مشترکہ خاندانی نظام غالب ہے، ایک انسان کے ذہنی مریض ہوجانے سے سارا گھر متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ذہنی بیماریاں جسمانی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں، منشیات کی طرف راغب ہونے کی ایک وجہ بھی ڈپریشن ہے۔ مزید برآں دائمی امراض مثلاً شوگر، کینسر، ہیپاٹائٹس، ہائی بلڈ پریشر، تھائی راڈ، استرھوٹیکس (ہڈیوں کا بھربھراپن) اور سماجی مسائل جیسے بے روزگاری، شادی بیاہ، بے اولادی، اپنا گھر نہ ہونا بھی ذہنی امراض کی وجہ بنتے ہیں۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی ہیلتھ ویک 2017ء کی تازہ ترین رپورٹ مجموعی طور پر ملک بھر میں صحت عامہ کی خرابی اور تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جس کے مطابق وطن عزیز میں 2000 کے لگ بھگ ایڈز کے مریضوں کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ 2 کروڑ ذہنی امراض میں مبتلا لوگ ہیں، ڈیڑھ لاکھ ہیپاٹائٹس کے مریض، ایک لاکھ سے زیادہ شوگر (ذیابیطس) کے مریض اور ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ دل کے مختلف عارضوں میں مبتلا لوگ موجود ہیں اور بے خوابی کے شکار افراد کی تعداد تین لاکھ سے متجاوز ہے۔
اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد وشمار جہاں ملک بھر میں صحت کے شعبے کو نظرانداز کرنے کی حد تک روا رکھے جانے والے سلوک کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں انسانی صحت کے ضمن میں ہمارے معاشرتی اور سماجی رویوں میں پائی جانے والی غفلت کی بھی غمازی کرتے ہیں۔ اس لیے حکومتی سطح پر بہترین طبی سہولتوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنی صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرنے، متوازن خوراک کی اہمیت اجاگرکرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ اہم ہوگئی ہے۔
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ذہنی معذوری کا اعشاریہ 2 کروڑ تک جا پہنچا وگرنہ آج سے تیس سال پہلے لوگ ذہنی امراض سے ناآشنا تھے اور چشم کشا حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس وقت صرف 300 ذہنی امراض کے معالج موجود ہیں، یعنی پانچ لاکھ افراد کے لیے صرف ایک دماغ کا ڈاکٹر ۔گاؤں دیہات میں ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ تو بہت لرزہ خیز سلوک کیا جاتا ہے وہاں آج بھی ذہنی امراض میں مبتلا افراد (جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے) کو درختوں اور زنجیروں سے باندھا جاتا ہے اور ان کے سر سے خون نکالا جاتا ہے۔
شہر میں اگرکوئی شخص ذہنی مریض کے معالج کے کلینک جاتا ہے تو لوگ اسے پاگل سمجھ لیتے ہیں، اس سوچ کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے اور ایسا حکومت ہی کرسکتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ لوگ ڈر، دقیانوسی سوچ اور خوف کی کیفیت سے نکلیں۔ سماجی طور پر سب سے اچھا اور بہتر علاج صبر و تحمل، برداشت بالخصوص اسلامی شعائر سے وابستگی ہے،کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آگاہی یا شعور کی کمی کے باعث لوگ ذہنی امراض کو جادو ٹونے سے تعبیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ امراض شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ ملک میں فالج کے مریضوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت سالانہ 2 لاکھ کے قریب افراد ہر سال فالج کا شکار ہوکر مستقل معذوری میں مبتلا ہورہے ہیں، لیکن کبھی کسی حکومت کے کسی بھی سربراہ نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ عوام جن کے ووٹوں سے وہ طاقت، اختیار حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت میں مزید اضافہ کرکے اس کے انبار لگاتے ہیں وہ آج کل کس حال میں ہیں۔ وہ کبھی اپنے ووٹروں کے گھر اچانک جاکر دیکھیں کہ وہ کھانا کیا کھاتے ہیں اور پانی کون سا پیتے ہیں؟
ملکی تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ اس ملک کی عوام کی قسمت کبھی نہیں بدلی، ان کے حالات بد سے بدتر ہوئے، حالات صرف اور صرف حکمرانوں کے ہی بدلیں گے اور انھی کے لیے سازگار رہیں گے۔آج لوگ صرف اپنے سروائیول کے لیے ایک دوسرے کو روند کر گزر جانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہم نے اپنی جان بچانے کے لیے ایک دوسرے کی گردنوں کو گزرگاہ بنالیا ہے۔
اسی طرح کوئی ازخود یہ طے کرکے بیٹھا ہے کہ اس کے ستارے گردش میں ہیں، سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو مٹی ہوجاتا ہے۔ ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے اکثر لوگ اداسی کی ایسی تصویر بنے پھرتے ہیں جیسے ناکامیوں نے ان کے آنگن میں مستقل پڑاؤ ڈال لیا ہو۔ بیشترگھروں کے سربراہ اپنی بچیوں کے رشتے مہیا نہ ہونے پر شدید ڈپریشن کا شکار نظر آتے ہیں، اکثرگھروں کی لڑکیاں گھر چلاتے ہوئے یا تو اپنی شادی کی عمر گزار دیتی ہیں یا پھر اپنے سے چھوٹی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں غلطاں ہوجاتی ہیں۔
ہمارے ہاں ناکامی، کامیابی کا زینہ بننے کے بجائے مایوسی کا سفینہ اس لیے بن جاتی ہے کہ ہم اس کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے اپنی غلطی یا نااہلی چھپانے کے لیے تاویلات اور توجیحات ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ انسان کوئی بھی ہو اسے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زندگی میں ایک دن ایسا موڑ ضرور آتا ہے جہاں سے درست راستے کا انتخاب کرکے منزل مراد پائی جاسکتی ہے۔ جو لوگ ناکامی کو عذر بناکر پریشانی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں، ان کی زندگی روگ بن جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ اب ہنسنا بھول گئے ہیں کیونکہ زخم تازہ یا گہرے ہوں اور دکھ جسم و جاں سے لپٹا ہوا ہو تو مسکرانا مشکل ہی ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنھوں نے خوشیوں کا چہرہ سرے سے دیکھا ہی نہیں لہٰذا وہ غم، دکھ، رنج والم سے ہی اپنا رشتہ استوارکیے ہوتے ہیں۔ کاش ایسا لیڈر ایسا مسیحا وطن عزیزکو میسر آجائے جو عام انسانوں کی زندگی کے ہر دن کو ''یوم تبسم'' میں بدل دے۔
اخبارات، ٹیلی ویژن کی بریکنگ نیوز، سوشل میڈیا اور دوستوں کی محفل میں چھڑے ہوئے موضوعات سب کے سب من کے اندر چھپے جذبوں اور احساس کو روند ڈالتے ہیں اور یہ سب ہمارے ملک میں ہی نہیں اب تو دنیا بھر میں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔ دانشوروں کے بقول مسکراہٹ دل جیتنے کے بھی کام آتی ہے لیکن گرد و پیش نے لوگوں کے دلوں کا خون کردیا ہے۔ تاہم جس طرح جینے کے لیے ہوا، پانی، خوراک اور دل کے اندر جینے کی آرزو ضروری ہے اسی طرح ایک خفیف سی مسکراہٹ سانسوں کی بحالی کے لیے ازحد ضروری ہوتی ہے۔
صحت کے حوالے سے حال ہی میں ایک سیمینار میں ماہرین کا یہ انکشاف ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں اس وقت دوکروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں اور گویا ہر چوتھے گھر میں ایک نہ ایک ذہنی مریض موجود ہے۔ بائیس کروڑ کی کل آبادی والا ملک پاکستان اگر دو کروڑ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کو اپنی پناہ میں رکھے ہوئے ہے تو یہ بہت ہولناک امر ہے اور یہ بیماری نہ صرف شدت اختیار کر رہی ہے بلکہ اس کے لیے اسپتال اور معالجین بھی کم ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا 70 فیصد افراد کا تعلق بڑے شہروں سے ہے ان میں کراچی کی 35.7 فیصد، کوئٹہ 43 فیصد اور لاہور کی 53.4 فیصد آبادی ڈپریشن (ذہنی مرض) کا شکار ہے، جب کہ خواتین میں ذہنی تناؤ کا عنصر مردوں سے 40 فیصد زیادہ پایا گیا ہے۔ ماہرین ڈپریشن کی بڑی وجہ یوں تو جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نقائص کو قرار دیتے ہیں جو زیادہ تر تفکرات، خاندانی مسائل، بیروزگاری، شادی کا نہ ہونا اور صحت کی خرابی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں ڈپریشن کے باعث ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں بالخصوص جہاں مشترکہ خاندانی نظام غالب ہے، ایک انسان کے ذہنی مریض ہوجانے سے سارا گھر متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ذہنی بیماریاں جسمانی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں، منشیات کی طرف راغب ہونے کی ایک وجہ بھی ڈپریشن ہے۔ مزید برآں دائمی امراض مثلاً شوگر، کینسر، ہیپاٹائٹس، ہائی بلڈ پریشر، تھائی راڈ، استرھوٹیکس (ہڈیوں کا بھربھراپن) اور سماجی مسائل جیسے بے روزگاری، شادی بیاہ، بے اولادی، اپنا گھر نہ ہونا بھی ذہنی امراض کی وجہ بنتے ہیں۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی ہیلتھ ویک 2017ء کی تازہ ترین رپورٹ مجموعی طور پر ملک بھر میں صحت عامہ کی خرابی اور تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جس کے مطابق وطن عزیز میں 2000 کے لگ بھگ ایڈز کے مریضوں کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ 2 کروڑ ذہنی امراض میں مبتلا لوگ ہیں، ڈیڑھ لاکھ ہیپاٹائٹس کے مریض، ایک لاکھ سے زیادہ شوگر (ذیابیطس) کے مریض اور ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ دل کے مختلف عارضوں میں مبتلا لوگ موجود ہیں اور بے خوابی کے شکار افراد کی تعداد تین لاکھ سے متجاوز ہے۔
اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد وشمار جہاں ملک بھر میں صحت کے شعبے کو نظرانداز کرنے کی حد تک روا رکھے جانے والے سلوک کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں انسانی صحت کے ضمن میں ہمارے معاشرتی اور سماجی رویوں میں پائی جانے والی غفلت کی بھی غمازی کرتے ہیں۔ اس لیے حکومتی سطح پر بہترین طبی سہولتوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنی صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرنے، متوازن خوراک کی اہمیت اجاگرکرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ اہم ہوگئی ہے۔
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ذہنی معذوری کا اعشاریہ 2 کروڑ تک جا پہنچا وگرنہ آج سے تیس سال پہلے لوگ ذہنی امراض سے ناآشنا تھے اور چشم کشا حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس وقت صرف 300 ذہنی امراض کے معالج موجود ہیں، یعنی پانچ لاکھ افراد کے لیے صرف ایک دماغ کا ڈاکٹر ۔گاؤں دیہات میں ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ تو بہت لرزہ خیز سلوک کیا جاتا ہے وہاں آج بھی ذہنی امراض میں مبتلا افراد (جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے) کو درختوں اور زنجیروں سے باندھا جاتا ہے اور ان کے سر سے خون نکالا جاتا ہے۔
شہر میں اگرکوئی شخص ذہنی مریض کے معالج کے کلینک جاتا ہے تو لوگ اسے پاگل سمجھ لیتے ہیں، اس سوچ کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے اور ایسا حکومت ہی کرسکتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ لوگ ڈر، دقیانوسی سوچ اور خوف کی کیفیت سے نکلیں۔ سماجی طور پر سب سے اچھا اور بہتر علاج صبر و تحمل، برداشت بالخصوص اسلامی شعائر سے وابستگی ہے،کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آگاہی یا شعور کی کمی کے باعث لوگ ذہنی امراض کو جادو ٹونے سے تعبیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ امراض شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ ملک میں فالج کے مریضوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت سالانہ 2 لاکھ کے قریب افراد ہر سال فالج کا شکار ہوکر مستقل معذوری میں مبتلا ہورہے ہیں، لیکن کبھی کسی حکومت کے کسی بھی سربراہ نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ عوام جن کے ووٹوں سے وہ طاقت، اختیار حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت میں مزید اضافہ کرکے اس کے انبار لگاتے ہیں وہ آج کل کس حال میں ہیں۔ وہ کبھی اپنے ووٹروں کے گھر اچانک جاکر دیکھیں کہ وہ کھانا کیا کھاتے ہیں اور پانی کون سا پیتے ہیں؟
ملکی تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ اس ملک کی عوام کی قسمت کبھی نہیں بدلی، ان کے حالات بد سے بدتر ہوئے، حالات صرف اور صرف حکمرانوں کے ہی بدلیں گے اور انھی کے لیے سازگار رہیں گے۔آج لوگ صرف اپنے سروائیول کے لیے ایک دوسرے کو روند کر گزر جانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہم نے اپنی جان بچانے کے لیے ایک دوسرے کی گردنوں کو گزرگاہ بنالیا ہے۔