شادی بہت ضروری ہے…
بد قسمتی سے ہمارے ہاں شادی کے لیے جب جوڑ کا انتخاب ہوتا ہے تو لڑکی کو تو چھلنی میں سے گزارا جاتا ہے
حسن کی شادی کا کارڈ ہے، ''تو ا س کا مطلب ہے کہ اب وہ کوئی نہ کوئی ملازمت کر رہا ہو گا...'' میں نے کارڈ پڑھا اور دل میں سوچا۔ آج کل کے زمانے میں لڑکوں کی شادی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ کوئی کام کرتا ہو اور اس قابل ہو کہ اپنا اور اپنی بیوی اور پھر بچوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہو۔ جہاں لڑکے اپنا کماتے نہ ہوں وہاں شادی کا خمار اترتے ہی فریقین کے ما بین چخ چخ شروع ہو جاتی ہے اور کئی بار تو معاملہ حد سے بگڑجاتا ہے۔
ہمار ے خطے میں تو عموما شادی کو اتنا جلد کر دینا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ لڑکا چاہے کچھ کرتا ہو یا نہیں، کمائے یا نہ کمائے اور ہمارے مذہب کے مطابق اس کی شادی کی عمر ہو گئی ہے... اس کے ساتھ پڑھنے والے دو دو بچوں کے باپ بن گئے ہیں، اتنے برسوں سے تایا ؍ چاچاکے ہاں اس کی نسبت طے ہے... آنے والی اپنے نصیب لے کر آئے گی، جہاں اتنے لوگ رہتے ہیں وہاں ایک نیا فرد آ جانے سے کتنا فرق پڑ جائے گا؟ سر پر پڑے گی تو کچھ کر لے گا... لوگ کہیں گے کہ خواہ مخواہ ملازمت کے انتظار میں بچے کی عمر نکلی جا رہی ہے اور والدین شادی نہیں کر رہے۔ بگڑا ہوا ہے، بال بچے کی ذمے داری سر پر پڑے گی تو سیدھا ہو جائے گا!! اس نوعیت کے جواز پیش کر کے ان لڑکوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔
حسن کے والدین نے اس کی شادی کو اس کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے مشروط کر دیا تھا۔ اس دور میں زیادہ تر شادیاں اسی لیے ناکام ہوتی ہیں کہ لڑکے طرح طرح کی عیاشیوں میں پڑ گئے ہیں، والدین کے بل بوتے پر اپنی زندگیاں گزارتے ہوئے خوش ہیں، نہ شادی کر کے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنا گھر چلانا چاہتے ہیں۔ والدین بھی اس بات پر خوش کہ چلو اسی بہانے ان کا بچہ ان کے ساتھ رہے گا، چاہے مجبورا ہی سہی۔ انھیں ان مسائل کی سمجھ نہیں ہوتی جو بچوں کی شادیوںکے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی جنم لے لیتے ہیں۔
مائیں بچوں کے اپنے ساتھ نتھی رہنے پر خوش ہوتی ہیں کہ چلو ہمارا سہارا بنے رہیں گے۔ کہتی ہیں کہ کوئی بات نہیں... اس کی شادی ہو گی تو ایک کھانے والا منہ ہی بڑھے گا نا... جہاں اتنے لوگ کھانا کھا لیتے ہیں اس دستر خوان پر ایک فرد کے اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات ایک منہ کی نہیں ہوتی... اس منہ کے ساتھ ایک پوری لڑکی ہوتی ہے۔ ایک لڑکی جس کا ایک دل ہوتا ہے اور اس دل میں ارمان بھی۔ اس کے پاس دل کے علاوہ دماغ بھی ہوتا ہے جس میں کئی خواہشات ہوتی ہیں اور اس دماغ میں عقل اور شعور بھی ہوتا ہے۔ اس کی دو آنکھوںمیں نئی زندگی، نئے گھر اور زندگی میں شامل ہونے والے اہم ترین فرد اور اس کے خاندان کے حوالے سے کچھ خواب ہوتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں شادی کے لیے جب جوڑ کا انتخاب ہوتا ہے تو لڑکی کو تو چھلنی میں سے گزارا جاتا ہے، اس کی شکل، چال ڈھال، بات چیت، نین نقش، تعلیم ، کردار، ہنر اور سلیقہ، ملازمت اور حسب نسب اچھی طرح چھان پھٹک کر چیک کیا جاتا ہے اور لڑکوں کو لڑکا ہونے کا بھر پور فائدہ دیا جاتا ہے... اس کا لڑکا ہونا کافی ہے۔ ہمارے ہاں کا بچہ سولہ برس کی عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتا ہے، وہ اس قابل ہوتا ہے کہ گھر سے باہر نکلے تو اپنا راستہ بنا سکتا ہے مگر ہم اس پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے کہ وہ ہمیں ظالم نہ سمجھے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں چائلڈ لیبر کی شرح دیکھ لیں، سات سات برس یا شاید اس سے بھی کم عمر کے بچوں کو بھٹہ مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ غریب کا بچہ ہے، غریب کہ جس کے گھر میں اضافہ ہونے والے ہر پیٹ کو اپنا ایندھن خود پیدا کرنا ہے۔
ان کا بچہ جونہی بلوغت کی حد کو چھوتا ہے... اس کی شادی کر دیتے ہیں خواہ وہ شادی کے مفہوم سے بھی نا آشناہو تا کہ اس کے ہاں جلد از جلد بچے پیدا ہوں اور وہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی بن جائیں جس میں صرف پیٹ کی طلب ہے اوراور اس کی تسکین کے لیے مشقت۔
اگر امیر کا بچہ سولہ برس کی عمر میں... یا اس کے بعد، کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران چند گھنٹوںکے لیے کام کرے اس لیے کہ اسے کام کر کے کمانے کی عادت ہو، تو اس میں کیا حرج ہے؟؟ جب ماں باپ اپنا آپ تج کر... اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ان بچوںکے لیے سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور انھیں بے فکری کی زندگی فراہم کرتے ہیں تو انھیں توقع ہوتی ہے کہ کل کلاں کو یہ بچے ان کا اسی طرح خیال رکھیں گے جس طرح وہ رکھتے ہیں- مگر ہوتا کیا ہے... جب والدین اس عمر کو پہنچتے ہیں جب اولاد کی توجہ اور محبت کے محتاج ہوتے ہیں اور ان کے لیے اپنی ضروریات پورا کرنا ممکن نہیں رہتا تو وہ اس اولاد کی طرف دیکھتے ہیں جسے انھوں نے بڑے ناز سے پالا ہوتا ہے، ان کے سارے بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں- ان کی حسرت بھری نظریں خالی رہ جاتی ہیں کیونکہ ان کی اولاد پر اب اپنی اولاد کی ذمے داری ہوتی ہے۔
پرندے کا چھوٹا سا بچہ بھی ہوتا ہے تو ماں اس کے سنبھلتے ہی اسے اڑنا سکھاتی ہے... اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا گھونسلا چھوڑ کر خوراک کی تلاش میں خود نکلے اور اپنے لیے انتظام کرے۔ کیا اس سے ان پرندوں کی ماں کی محبت میں شک پیدا ہو جاتا ہے؟
ہم اپنے بچوں کو پہلے دن سے زندگی کا مقابلہ کرنا سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ بیٹھنا، رینگنا، کھڑے ہونا، چلنا، بولنا، پڑھنا، ہاتھ پکڑ کر قلم سے لکھنا... غرض یہ سارے کام اس سے قدرت مقررہ وقت پر کرواتی ہے مگر ماں باپ اسے ہر کام اسے اسی طرح سکھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب وہ وقت آتا ہے کہ ہم اس بچے کو سکھائیں کہ اسے اپنا بوجھ کیسے اٹھانا ہے... دنیا میں اپنی جگہ اور مقام کس طرح بنانا ہے وہاں ہم اس کی انگلی چھوڑ کر اسے دنیا کے سمندر میں دھکا دینے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہ ہماری بچے سے محبت نہیں بلکہ خود غرضی ہوتی ہے کہ ہم اسے اپنا محتاج کیے رکھنا چاہتے ہوتے ہیں۔
بچوں کی شادیاں کرنے سے پہلے... خواہ وہ لڑکے ہوں یا وہ لڑکیاں جو ملازمت کرنا چاہتی ہیں، شوق سے یا ضرورت سے، ماں باپ انھیں سکھائیں کہ انھیں گھر کے اخراجات اور کام کار میں حصہ کس طرح ڈالنا ہے۔ ملازمت کرتے ہیں تو وہ صرف ان کے اپنے لیے نہیں ہے۔ انھیں بیاہ کر ان پر ذمے داریوں کے پہاڑ اچانک ڈالنے سے پہلے ان کی تربیت کریں کہ جو بوجھ ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہے اس کو اٹھانے کی سکت اور طریقہ ہوتا ہے۔ اگر اس بات پر آ پ کے بیٹے سمجھتے ہیں کہ آپ ان پر ظلم کر رہے ہیں تو انھیں ایسا سمجھنے دیں، وقت انھیں خود بتا دے گا کہ آپ کے اس اقدام کے پیچھے کیا حکمت تھی۔ہمارا مذہب بھی بچوں کی بلوغت کی عمر پر پہنچنے کے بعد جلد از جلد شادیوں کا حکم دیتا ہے، اس لیے ان پر ذمے داریوں کا بوجھ بھی جلد ڈالیں ... آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کا بچہ کس قدر اہل ہے - میں نے کارڈ تہہ کر کے رکھا، حسن کی والدہ کو مبارک باد بھی دینا ہے کہ ان کا بیٹا چوبیس برس کی عمر میں اس قابل ہو گیا ہے کہ اپنا اور اپنی بیوی کا بوجھ اٹھا لے گا ، انشا اللہ!!!
ہمار ے خطے میں تو عموما شادی کو اتنا جلد کر دینا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ لڑکا چاہے کچھ کرتا ہو یا نہیں، کمائے یا نہ کمائے اور ہمارے مذہب کے مطابق اس کی شادی کی عمر ہو گئی ہے... اس کے ساتھ پڑھنے والے دو دو بچوں کے باپ بن گئے ہیں، اتنے برسوں سے تایا ؍ چاچاکے ہاں اس کی نسبت طے ہے... آنے والی اپنے نصیب لے کر آئے گی، جہاں اتنے لوگ رہتے ہیں وہاں ایک نیا فرد آ جانے سے کتنا فرق پڑ جائے گا؟ سر پر پڑے گی تو کچھ کر لے گا... لوگ کہیں گے کہ خواہ مخواہ ملازمت کے انتظار میں بچے کی عمر نکلی جا رہی ہے اور والدین شادی نہیں کر رہے۔ بگڑا ہوا ہے، بال بچے کی ذمے داری سر پر پڑے گی تو سیدھا ہو جائے گا!! اس نوعیت کے جواز پیش کر کے ان لڑکوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔
حسن کے والدین نے اس کی شادی کو اس کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے مشروط کر دیا تھا۔ اس دور میں زیادہ تر شادیاں اسی لیے ناکام ہوتی ہیں کہ لڑکے طرح طرح کی عیاشیوں میں پڑ گئے ہیں، والدین کے بل بوتے پر اپنی زندگیاں گزارتے ہوئے خوش ہیں، نہ شادی کر کے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنا گھر چلانا چاہتے ہیں۔ والدین بھی اس بات پر خوش کہ چلو اسی بہانے ان کا بچہ ان کے ساتھ رہے گا، چاہے مجبورا ہی سہی۔ انھیں ان مسائل کی سمجھ نہیں ہوتی جو بچوں کی شادیوںکے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی جنم لے لیتے ہیں۔
مائیں بچوں کے اپنے ساتھ نتھی رہنے پر خوش ہوتی ہیں کہ چلو ہمارا سہارا بنے رہیں گے۔ کہتی ہیں کہ کوئی بات نہیں... اس کی شادی ہو گی تو ایک کھانے والا منہ ہی بڑھے گا نا... جہاں اتنے لوگ کھانا کھا لیتے ہیں اس دستر خوان پر ایک فرد کے اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات ایک منہ کی نہیں ہوتی... اس منہ کے ساتھ ایک پوری لڑکی ہوتی ہے۔ ایک لڑکی جس کا ایک دل ہوتا ہے اور اس دل میں ارمان بھی۔ اس کے پاس دل کے علاوہ دماغ بھی ہوتا ہے جس میں کئی خواہشات ہوتی ہیں اور اس دماغ میں عقل اور شعور بھی ہوتا ہے۔ اس کی دو آنکھوںمیں نئی زندگی، نئے گھر اور زندگی میں شامل ہونے والے اہم ترین فرد اور اس کے خاندان کے حوالے سے کچھ خواب ہوتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں شادی کے لیے جب جوڑ کا انتخاب ہوتا ہے تو لڑکی کو تو چھلنی میں سے گزارا جاتا ہے، اس کی شکل، چال ڈھال، بات چیت، نین نقش، تعلیم ، کردار، ہنر اور سلیقہ، ملازمت اور حسب نسب اچھی طرح چھان پھٹک کر چیک کیا جاتا ہے اور لڑکوں کو لڑکا ہونے کا بھر پور فائدہ دیا جاتا ہے... اس کا لڑکا ہونا کافی ہے۔ ہمارے ہاں کا بچہ سولہ برس کی عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتا ہے، وہ اس قابل ہوتا ہے کہ گھر سے باہر نکلے تو اپنا راستہ بنا سکتا ہے مگر ہم اس پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے کہ وہ ہمیں ظالم نہ سمجھے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں چائلڈ لیبر کی شرح دیکھ لیں، سات سات برس یا شاید اس سے بھی کم عمر کے بچوں کو بھٹہ مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ غریب کا بچہ ہے، غریب کہ جس کے گھر میں اضافہ ہونے والے ہر پیٹ کو اپنا ایندھن خود پیدا کرنا ہے۔
ان کا بچہ جونہی بلوغت کی حد کو چھوتا ہے... اس کی شادی کر دیتے ہیں خواہ وہ شادی کے مفہوم سے بھی نا آشناہو تا کہ اس کے ہاں جلد از جلد بچے پیدا ہوں اور وہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی بن جائیں جس میں صرف پیٹ کی طلب ہے اوراور اس کی تسکین کے لیے مشقت۔
اگر امیر کا بچہ سولہ برس کی عمر میں... یا اس کے بعد، کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران چند گھنٹوںکے لیے کام کرے اس لیے کہ اسے کام کر کے کمانے کی عادت ہو، تو اس میں کیا حرج ہے؟؟ جب ماں باپ اپنا آپ تج کر... اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ان بچوںکے لیے سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور انھیں بے فکری کی زندگی فراہم کرتے ہیں تو انھیں توقع ہوتی ہے کہ کل کلاں کو یہ بچے ان کا اسی طرح خیال رکھیں گے جس طرح وہ رکھتے ہیں- مگر ہوتا کیا ہے... جب والدین اس عمر کو پہنچتے ہیں جب اولاد کی توجہ اور محبت کے محتاج ہوتے ہیں اور ان کے لیے اپنی ضروریات پورا کرنا ممکن نہیں رہتا تو وہ اس اولاد کی طرف دیکھتے ہیں جسے انھوں نے بڑے ناز سے پالا ہوتا ہے، ان کے سارے بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں- ان کی حسرت بھری نظریں خالی رہ جاتی ہیں کیونکہ ان کی اولاد پر اب اپنی اولاد کی ذمے داری ہوتی ہے۔
پرندے کا چھوٹا سا بچہ بھی ہوتا ہے تو ماں اس کے سنبھلتے ہی اسے اڑنا سکھاتی ہے... اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا گھونسلا چھوڑ کر خوراک کی تلاش میں خود نکلے اور اپنے لیے انتظام کرے۔ کیا اس سے ان پرندوں کی ماں کی محبت میں شک پیدا ہو جاتا ہے؟
ہم اپنے بچوں کو پہلے دن سے زندگی کا مقابلہ کرنا سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ بیٹھنا، رینگنا، کھڑے ہونا، چلنا، بولنا، پڑھنا، ہاتھ پکڑ کر قلم سے لکھنا... غرض یہ سارے کام اس سے قدرت مقررہ وقت پر کرواتی ہے مگر ماں باپ اسے ہر کام اسے اسی طرح سکھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب وہ وقت آتا ہے کہ ہم اس بچے کو سکھائیں کہ اسے اپنا بوجھ کیسے اٹھانا ہے... دنیا میں اپنی جگہ اور مقام کس طرح بنانا ہے وہاں ہم اس کی انگلی چھوڑ کر اسے دنیا کے سمندر میں دھکا دینے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہ ہماری بچے سے محبت نہیں بلکہ خود غرضی ہوتی ہے کہ ہم اسے اپنا محتاج کیے رکھنا چاہتے ہوتے ہیں۔
بچوں کی شادیاں کرنے سے پہلے... خواہ وہ لڑکے ہوں یا وہ لڑکیاں جو ملازمت کرنا چاہتی ہیں، شوق سے یا ضرورت سے، ماں باپ انھیں سکھائیں کہ انھیں گھر کے اخراجات اور کام کار میں حصہ کس طرح ڈالنا ہے۔ ملازمت کرتے ہیں تو وہ صرف ان کے اپنے لیے نہیں ہے۔ انھیں بیاہ کر ان پر ذمے داریوں کے پہاڑ اچانک ڈالنے سے پہلے ان کی تربیت کریں کہ جو بوجھ ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہے اس کو اٹھانے کی سکت اور طریقہ ہوتا ہے۔ اگر اس بات پر آ پ کے بیٹے سمجھتے ہیں کہ آپ ان پر ظلم کر رہے ہیں تو انھیں ایسا سمجھنے دیں، وقت انھیں خود بتا دے گا کہ آپ کے اس اقدام کے پیچھے کیا حکمت تھی۔ہمارا مذہب بھی بچوں کی بلوغت کی عمر پر پہنچنے کے بعد جلد از جلد شادیوں کا حکم دیتا ہے، اس لیے ان پر ذمے داریوں کا بوجھ بھی جلد ڈالیں ... آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کا بچہ کس قدر اہل ہے - میں نے کارڈ تہہ کر کے رکھا، حسن کی والدہ کو مبارک باد بھی دینا ہے کہ ان کا بیٹا چوبیس برس کی عمر میں اس قابل ہو گیا ہے کہ اپنا اور اپنی بیوی کا بوجھ اٹھا لے گا ، انشا اللہ!!!