قرطبہ
فن تعمیر میں مسلمان ہنرمندوں کے کمال فن کی ایک دنیا قائل ہے.
الحمراء کے محلات کے ساتھ ہمارے لیے ایک اجتماعی تاریخی آشوب تو وابستہ ہے ہی مگر ان سے پہلا واسطہ ذاتی سطح پر بھی میرے لیے ایک ناخوشگوار یاد کی حیثیت رکھتا ہے کہ 2012ء میں جب پہلی بار غرناطہ کے قیام کے دوران ان کی سیر کا پروگرام بنا تو روانگی سے کچھ ہی دیر قبل ہوٹل میں ناشتے کے دوران میرا ہینڈ بیگ چوری ہوگیا جس میں نقدی اور دیگر کاغذات سمیت میرے ایک ساتھ نتھی کیے گئے چار پاسپورٹ بھی تھے جن میں دس بارہ سال کے ٹریول ریکارڈ کے علاوہ کئی قابل استعمال ویزے بھی تھے جب کہ پروگرام کے مطابق ہمیں ابھی اٹلی اور ناروے بھی جانا تھا۔ سو پریشانی، پولیس رپورٹ کی خانہ پری اور میڈرڈ جاکر نیا پاسپورٹ بنوانے کے مسائل میں الجھنے کی وجہ سے ہماری بکنگ کا وقت بھی نکل گیا اور یوں الحمرا کی زیارت سے محروم رہ گئے۔
خالد مسعود کا مشورہ بہت صائب رہا کہ کہنے کو تو ہمارے پاس تین گھنٹے ہیں مگر تھوڑی دیر میں شام گہری ہوجائے گی۔ سو پہلے قصر الحمرا کا رخ کیا جائے کہ اس سارے علاقے کا مرکز نگاہ یعنی مین اٹریکشن یہی حصہ ہے، باقی جگہیں اور عمارات اگر رہ بھی گئیں تو گزارہ ہوسکتا ہے۔ ٹھیک پانچ بجے داخلے کا دروازہ کھول دیا گیا۔ پتہ نہیں میرے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ''الحمرا'' کی رعائت سے اس کی عمارت کا رنگ سرخ ہوگا مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔
کسی نے بتایا کہ شائد تعمیر کے وقت اس کی دور سے نظر آنے والی چاردیواری کا رنگ سرخ ہوگا لیکن اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ دنیا کے کئی ممالک میں مختلف ادوار کے محلات دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن طرزتعمیر کی خوبصورتی، دیواروں، چھتوں اور محرابوں پر کی گئی کندہ کاری، اندرونی آرائش سے متعلق نقش و نگارہ میں رنگوں کی جادوگری اور پچی کاری کا جو حسن اس کے مختلف کمروں اور دالانوں میں نظر آیا، بلاشبہ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
فن تعمیر میں مسلمان ہنرمندوں کے کمال فن کی ایک دنیا قائل ہے کہ حسن تناسب، جیومیٹری اور سنگ تراشی کے حوالے سے ان کی بنائی ہوئی عمارات کی شان و شوکت اور دلکشی واقعی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی ہے۔ ایک پانی سے بھرے ہوئے صحن نما حصے میں قدرے فاصلے پر بنی ہوئی عمارتوں اور ان میں جلتی ہوئی روشنیوں کا عکس ایسا دلفریب اور حیرت انگیز حد تک مکمل اور متناسب تھا کہ ہم کتنی دیر اس میں کھوئے رہے۔
ہاتھ سے بنائے ہوئے مختلف ڈیزائنز کی ترتیب اپنے تنوع، پیمائش اور اجتماعی تاثر کے حوالے سے فنی مہارت کے نئے سے نئے دروازے وا کرتی چلی جارہی تھی اور یہی حسن کمال اس کی زمین کے مختلف تختوں پر بنائے گئے باغات میں بھی نمایاں تھا۔ ہم نے وہ کمرہ بھی دیکھا جس میں قصص الحمرا کے مصنف واشنگٹن ارونگ نے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل قیام کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت یہ سارا علاقہ ملبے میں دبے ہوئے کھنڈرات کا ایک ڈھیر تھا۔
ایسے عظیم اور بے مثال تاریخی ورثے کے ساتھ کئی صدیوں تک یہ دشمنوں کا سا سلوک کیوں روا رکھا گیا اور ان عمارات کی دریافت، مرمت، تعمیرنو اور اس میں جدید سہولیات کے اضافے کی کہانی جاننے کے لیے مختلف کتابوں اور سووینئر شاپس سے مدد لینے کا ارادہ تھا مگر ایک دم رات کی تاریکی اور سردی گہری ہوگئی اور ہمیں اس تحقیق اور دیگر عمارتوں کی سیر کو کسی آئندہ موقعے کی خواہش اور دعا کے سپرد کرنا پڑا کہ تھکان کی وجہ سے پارکنگ ایریا تک کا سفر بھی ایک مہم کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
اشبیلہ عرف سولی تک کا سفر تقریباً 200 کلو میٹر کا تھا جہاں کے ایک قدیم اور تاریخی گرجے کی عمارت کا ایک مینار اب تک اپنی اسی شکل میں موجود ہے، جب یہ ایک بڑی مسجد کا حصہ ہوا کرتا تھا اور جسے خود دوسری اور ہمیں پہلی بار دکھانے کے لیے خالد مسعود مسلسل اور بار بار زور دے رہا تھا لیکن یہاں بھی مسئلہ قدیم شہر کے تنگ اور اجنبی راستوں اور پارکنگ کا تھا۔
وقت کی محدودیت اور قابل دید مقامات کی وسعت اور کثرت کے باعث طے کیا گیا کہ ایک بگھی کے ذریعے یہ منزل سر کی جائے جس کے نشئی قسم کے کوچوان نے ایک یورو فی منٹ کے حساب سے 45 منٹ میں ہمیں بیشتر اہم مقامات کی سیر کرادی۔ گرجا گھر سے ملحق کچھ علاقے سے قطع نظر سارا شہر بہت جدید، خوبصورت اور کھلا کھلا ہے۔جس طرح آگرہ کا نام آتے ہی ذہن فوراً تاج محل کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس طرح کم از کم میرے جیسے تاریخی اور ادبی ناسٹلجیا کے شکار شخص کے لیے قرطبہ نامی شہر علامہ اقبال کی عظیم اور مشہور نظم ''مسجد قرطبہ'' کا ہی ایک حوالہ اور استعارہ ہے۔
پانچ برس قبل اس کی فضا میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا جس کی خوشبو اب تک ساتھ تھی البتہ اس تجدید ملاقات کا ایک اضافی پہلو یہ تھا کہ اس بار مجھے اس ڈاکیومینٹری سے متعلق کچھ شوٹنگ بھی کرنا تھا جس پر آج کل میں اور میرا بیٹا علی ذی شان امجد کام کررہے ہیں۔ مقامی میزبان فیاض بٹ سے اس ضمن میں فون پر بات ہوئی تو اس نے یاد دلایا کہ وہ نہ صرف اسی ریاض بٹ کا بھائی ہے جو گزشتہ دورے میں ہمارا میزبان تھا بلکہ چند ماہ قبل لاہور کے ایکسپوسنٹر میں ہونے والے کتاب میلے میں وہ مجھے جہلم کے دوستوں امر اور گگن شاہد کے اشاعتی ادارے ''بک کارنر'' کے اسٹال پر مل بھی چکا ہے۔
قرطبہ کی تقریب اسی ہوٹل میں ہونا تھی جس میں ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا اور جہاں سے مسجد قرطبہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ پرانی اینٹوں اور قدیم طرز تعمیر کی گلیوں میں کچھ دیر گھومنے اور تصویریں بنانے کے بعد ہم وہاں کے واحد باقاعدہ پاکستانی ہوٹل میں گئے۔ یہ بتانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ اس کے مالکان کا تعلق بھی کھاریاں اور گجرات کی پٹی سے تھا۔ بارسلونا سے عزیزی ارشد نذیر ساحل اور گزشتہ سفر کے میزبان فیض اللہ ساہی کے دوست حافظ احمد اور ادب دوستوں کے ساتھ بارہ گھنٹے کی ڈائیو کے بعد نومبر کی صبح ہم سے ملنے اور تقریب میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔
سو طے پایا کہ ناشتہ اکٹھے کیا جائے اور وہیں سے مسجد کی زیارت کو نکلیں تاکہ تقریب کے آغاز سے پہلے آرام کا کچھ وقت مل جائے۔ یہ مسجد اب ایک قدیم گرجے کے ایک ایسے نمائشی حصے کی شکل اختیار کرچکی ہے جہاں نہ اذان کی اجازت ہے اور نہ نماز کی بلکہ اس کے اندر داخل ہونے والوں کو نماز کی ٹوپی پہننے اور جوتے اتارنے تک کی بھی ممانعت ہے۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوتا ہے۔ یہاں کا انتظام مقامی کلیسا کے سپرد ہے۔ یہ مسجد فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس کے مرکزی ہال کی چھت 1300 ستونوں پر استادہ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنی نظم میں یوں اشارہ کیا ہے کہ
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
مسجد کے داخلی دروازے سے کوئی سو گز کے فاصلے سے وہ دریائے کبیر گزرتا ہے جس کا ذکر اسی نظم میں کچھ یوں کیا گیا ہے۔
آب روان کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
قبلے کے رخ والی دیوار پر تقریباً بیس گزر کی چوڑائی میں وہ چار محرابیں ہیں جن کی اصل شکل میں قرآنی آیات اور عربی خطاطی سمیت محفوظ رکھا گیا ہے اور یہ اس عمارت کا واحد حصہ ہے جس سے اس کی سابقہ شکل کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے اور غالباً ان ہی میں سے کسی محراب کے سامنے علامہ صاحب نے 440 برس بعد (1492-1932) نماز ادا کی تھی۔ ہمارے ساتھی میاں طیب نے سیلفی سٹک کی مدد سے ہجوم اور سیکیورٹی عملے کی موجودگی میں اذان دیتے ہوئے اپنی ویڈیو بنائی جس پر ہم سب نے ان کی ہمت اور ہوشیاری اور جذبے کی داد دی اور اس ویڈیو کو بار بار دیکھا اور سنا۔ اب غالباً وہ اسے فیس بک پر بھی ڈال رہے ہیں۔
خالد مسعود کا مشورہ بہت صائب رہا کہ کہنے کو تو ہمارے پاس تین گھنٹے ہیں مگر تھوڑی دیر میں شام گہری ہوجائے گی۔ سو پہلے قصر الحمرا کا رخ کیا جائے کہ اس سارے علاقے کا مرکز نگاہ یعنی مین اٹریکشن یہی حصہ ہے، باقی جگہیں اور عمارات اگر رہ بھی گئیں تو گزارہ ہوسکتا ہے۔ ٹھیک پانچ بجے داخلے کا دروازہ کھول دیا گیا۔ پتہ نہیں میرے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ''الحمرا'' کی رعائت سے اس کی عمارت کا رنگ سرخ ہوگا مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔
کسی نے بتایا کہ شائد تعمیر کے وقت اس کی دور سے نظر آنے والی چاردیواری کا رنگ سرخ ہوگا لیکن اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ دنیا کے کئی ممالک میں مختلف ادوار کے محلات دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن طرزتعمیر کی خوبصورتی، دیواروں، چھتوں اور محرابوں پر کی گئی کندہ کاری، اندرونی آرائش سے متعلق نقش و نگارہ میں رنگوں کی جادوگری اور پچی کاری کا جو حسن اس کے مختلف کمروں اور دالانوں میں نظر آیا، بلاشبہ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
فن تعمیر میں مسلمان ہنرمندوں کے کمال فن کی ایک دنیا قائل ہے کہ حسن تناسب، جیومیٹری اور سنگ تراشی کے حوالے سے ان کی بنائی ہوئی عمارات کی شان و شوکت اور دلکشی واقعی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی ہے۔ ایک پانی سے بھرے ہوئے صحن نما حصے میں قدرے فاصلے پر بنی ہوئی عمارتوں اور ان میں جلتی ہوئی روشنیوں کا عکس ایسا دلفریب اور حیرت انگیز حد تک مکمل اور متناسب تھا کہ ہم کتنی دیر اس میں کھوئے رہے۔
ہاتھ سے بنائے ہوئے مختلف ڈیزائنز کی ترتیب اپنے تنوع، پیمائش اور اجتماعی تاثر کے حوالے سے فنی مہارت کے نئے سے نئے دروازے وا کرتی چلی جارہی تھی اور یہی حسن کمال اس کی زمین کے مختلف تختوں پر بنائے گئے باغات میں بھی نمایاں تھا۔ ہم نے وہ کمرہ بھی دیکھا جس میں قصص الحمرا کے مصنف واشنگٹن ارونگ نے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل قیام کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت یہ سارا علاقہ ملبے میں دبے ہوئے کھنڈرات کا ایک ڈھیر تھا۔
ایسے عظیم اور بے مثال تاریخی ورثے کے ساتھ کئی صدیوں تک یہ دشمنوں کا سا سلوک کیوں روا رکھا گیا اور ان عمارات کی دریافت، مرمت، تعمیرنو اور اس میں جدید سہولیات کے اضافے کی کہانی جاننے کے لیے مختلف کتابوں اور سووینئر شاپس سے مدد لینے کا ارادہ تھا مگر ایک دم رات کی تاریکی اور سردی گہری ہوگئی اور ہمیں اس تحقیق اور دیگر عمارتوں کی سیر کو کسی آئندہ موقعے کی خواہش اور دعا کے سپرد کرنا پڑا کہ تھکان کی وجہ سے پارکنگ ایریا تک کا سفر بھی ایک مہم کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
اشبیلہ عرف سولی تک کا سفر تقریباً 200 کلو میٹر کا تھا جہاں کے ایک قدیم اور تاریخی گرجے کی عمارت کا ایک مینار اب تک اپنی اسی شکل میں موجود ہے، جب یہ ایک بڑی مسجد کا حصہ ہوا کرتا تھا اور جسے خود دوسری اور ہمیں پہلی بار دکھانے کے لیے خالد مسعود مسلسل اور بار بار زور دے رہا تھا لیکن یہاں بھی مسئلہ قدیم شہر کے تنگ اور اجنبی راستوں اور پارکنگ کا تھا۔
وقت کی محدودیت اور قابل دید مقامات کی وسعت اور کثرت کے باعث طے کیا گیا کہ ایک بگھی کے ذریعے یہ منزل سر کی جائے جس کے نشئی قسم کے کوچوان نے ایک یورو فی منٹ کے حساب سے 45 منٹ میں ہمیں بیشتر اہم مقامات کی سیر کرادی۔ گرجا گھر سے ملحق کچھ علاقے سے قطع نظر سارا شہر بہت جدید، خوبصورت اور کھلا کھلا ہے۔جس طرح آگرہ کا نام آتے ہی ذہن فوراً تاج محل کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس طرح کم از کم میرے جیسے تاریخی اور ادبی ناسٹلجیا کے شکار شخص کے لیے قرطبہ نامی شہر علامہ اقبال کی عظیم اور مشہور نظم ''مسجد قرطبہ'' کا ہی ایک حوالہ اور استعارہ ہے۔
پانچ برس قبل اس کی فضا میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا جس کی خوشبو اب تک ساتھ تھی البتہ اس تجدید ملاقات کا ایک اضافی پہلو یہ تھا کہ اس بار مجھے اس ڈاکیومینٹری سے متعلق کچھ شوٹنگ بھی کرنا تھا جس پر آج کل میں اور میرا بیٹا علی ذی شان امجد کام کررہے ہیں۔ مقامی میزبان فیاض بٹ سے اس ضمن میں فون پر بات ہوئی تو اس نے یاد دلایا کہ وہ نہ صرف اسی ریاض بٹ کا بھائی ہے جو گزشتہ دورے میں ہمارا میزبان تھا بلکہ چند ماہ قبل لاہور کے ایکسپوسنٹر میں ہونے والے کتاب میلے میں وہ مجھے جہلم کے دوستوں امر اور گگن شاہد کے اشاعتی ادارے ''بک کارنر'' کے اسٹال پر مل بھی چکا ہے۔
قرطبہ کی تقریب اسی ہوٹل میں ہونا تھی جس میں ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا اور جہاں سے مسجد قرطبہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ پرانی اینٹوں اور قدیم طرز تعمیر کی گلیوں میں کچھ دیر گھومنے اور تصویریں بنانے کے بعد ہم وہاں کے واحد باقاعدہ پاکستانی ہوٹل میں گئے۔ یہ بتانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ اس کے مالکان کا تعلق بھی کھاریاں اور گجرات کی پٹی سے تھا۔ بارسلونا سے عزیزی ارشد نذیر ساحل اور گزشتہ سفر کے میزبان فیض اللہ ساہی کے دوست حافظ احمد اور ادب دوستوں کے ساتھ بارہ گھنٹے کی ڈائیو کے بعد نومبر کی صبح ہم سے ملنے اور تقریب میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔
سو طے پایا کہ ناشتہ اکٹھے کیا جائے اور وہیں سے مسجد کی زیارت کو نکلیں تاکہ تقریب کے آغاز سے پہلے آرام کا کچھ وقت مل جائے۔ یہ مسجد اب ایک قدیم گرجے کے ایک ایسے نمائشی حصے کی شکل اختیار کرچکی ہے جہاں نہ اذان کی اجازت ہے اور نہ نماز کی بلکہ اس کے اندر داخل ہونے والوں کو نماز کی ٹوپی پہننے اور جوتے اتارنے تک کی بھی ممانعت ہے۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوتا ہے۔ یہاں کا انتظام مقامی کلیسا کے سپرد ہے۔ یہ مسجد فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس کے مرکزی ہال کی چھت 1300 ستونوں پر استادہ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنی نظم میں یوں اشارہ کیا ہے کہ
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
مسجد کے داخلی دروازے سے کوئی سو گز کے فاصلے سے وہ دریائے کبیر گزرتا ہے جس کا ذکر اسی نظم میں کچھ یوں کیا گیا ہے۔
آب روان کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
قبلے کے رخ والی دیوار پر تقریباً بیس گزر کی چوڑائی میں وہ چار محرابیں ہیں جن کی اصل شکل میں قرآنی آیات اور عربی خطاطی سمیت محفوظ رکھا گیا ہے اور یہ اس عمارت کا واحد حصہ ہے جس سے اس کی سابقہ شکل کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے اور غالباً ان ہی میں سے کسی محراب کے سامنے علامہ صاحب نے 440 برس بعد (1492-1932) نماز ادا کی تھی۔ ہمارے ساتھی میاں طیب نے سیلفی سٹک کی مدد سے ہجوم اور سیکیورٹی عملے کی موجودگی میں اذان دیتے ہوئے اپنی ویڈیو بنائی جس پر ہم سب نے ان کی ہمت اور ہوشیاری اور جذبے کی داد دی اور اس ویڈیو کو بار بار دیکھا اور سنا۔ اب غالباً وہ اسے فیس بک پر بھی ڈال رہے ہیں۔