خیرپور میں تین دن
کانفرنس کے پہلے دن مشاعرے کی محفل سجی اور دوسری رات شاہ کی درگاہ سے وابستہ فقیروں نے راگ راگنیوں سے ہم سب کو لوٹ لیا۔
خیرپور میرس ایک ایسا شہر ہے جو تاریخ اور تہذیب کا ایک مسلسل اور مستحکم حوالہ رکھتا ہے۔ میرے لیے یہ شہر اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے میرے والد نے جب گھر چھوڑ کر اس علاقے کا رخ کیا تو وہ لاہور سے ہوتے ہوئے خیرپور آئے تھے اور کچھ دنوں یہاں قیام کیا تھا۔ وہ بہت لگاوٹ سے اس شہر کا ذکر کرتے۔ ایک مہربان اور مہمان نواز شہر جس کے لوگوں کی تعلیمی اور تہذیبی شناخت ایک الگ ہی انداز رکھتی ہے۔
میں نے اس کے کئی پھیرے لگائے۔ حضرت سچل سرمست کی یاد میں ہونے والی محفل جو منصور میرانی نے سجائی تھی، خیرپور کے پہلے پھیرے کا سبب بنی تھی۔ اس کے بعد شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کے ڈین کلیہ فنون والسنہ کے پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور چیئر پرسن شعبہ اردو ڈاکٹر صوفیہ یوسف کی دعوت پر اس سے پہلے بھی خیرپور جانا ہوا تھا اور اس مرتبہ بھی ان لوگوں نے یونیورسٹی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جو پاکستانی اور عالمی تناظر میں ادب اور ماحولیاتی مسائل کا احاطہ کرتی تھی۔ اس میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے اسکالر آئے اور انھوں نے اپنے مقالے پیش کیے۔
اس کی خاص بات یہ تھی کہ امریکا، ڈنمارک، سوئیڈن، جرمنی، برطانیہ، ترکی، مصر، چین، ایران، فن لینڈ اور بنگلہ دیش کے پروفیسروں اور ادیبوں نے حصہ لیا۔ ڈاکٹر صوفیہ یوسف اور ڈاکٹر یوسف خشک قابل ستائش ہیں کہ انھوں نے ایک ایسے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے بارے میں ابھی ہماری اہم یونیورسٹیاں خاموش ہیں۔ ماحولیاتی بحران ہماری بستیوں تک آپہنچا ہے، ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے لیکن ہماری اکثریت اسے امریکا اور یورپ کا مسئلہ سمجھے بیٹھی ہے۔ یہ کانفرنس خوش انتظامی اور خندہ پیشانی کا ایک کمال مظاہرہ تھی جس میں شاہ لطیف یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین شاہ کا ایک بڑا حصہ تھا۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹر تھامس اسٹیمر اور ڈاکٹر ہائیز ویسلر کے مقالے خاصے کی چیز تھے۔ بہ طور خاص ڈاکٹر اسٹیمر نے ہرمن ہیسے کے مشہور ناول 'سدھارت' کو جس طرح ماحولیاتی معاملے سے جوڑا اور سمندر اور جنگل کے رشتے کو بیان کیا، وہ خیال انگیز ہونے کیساتھ ہی ادبی چاشنی رکھتا تھا۔ پاکستان بھر کے اہل علم اپنی زبانوں میں پائے جانے والے ادب اور ماحولیاتی معاملات پر خوب خوب بولے۔
ان سب کا تذکرہ ممکن نہیں لیکن ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نبیلہ رحمن، ڈاکٹر صوفیہ یوسف، بینا گویندی، ڈاکٹڑ فاطمہ حسن، رضا علی عابدی، ترکی سے ڈاکٹر آرزو سورن، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر عطیہ سید، مصر کے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم السید، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر روبینہ ترین، ایران سے ڈاکٹر دفایز دان، مہ جبیں غزل انصاری، ڈاکٹر شگفتہ حسین اور ڈاکٹر فیضی کے علاوہ متعدد ادیب اور دانشور تھے جنھوں نے ادب اور ماحولیاتی مسائل کو اپنے اپنے زاویۂ نظر سے دیکھا اور خوب خوب بیان کیا۔
کانفرنس کے پہلے دن مشاعرے کی محفل سجی اور دوسری رات شاہ کی درگاہ سے وابستہ فقیروں نے راگ راگنیوں سے ہم سب کو لوٹ لیا۔ اس رات اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی بھٹ شاہ کے گدی نشین سید وقار شاہ کے علاوہ کمشنر میرپور خاص انجینئر میاں شفیق احمد مہیسر اور خیرپور کے ایس ایس پی غلام افضل مہیسر بھی موجود تھے۔ سندھ میں مہمانوں کو اجرک کے تحفے سے نوازنا خاص روایت ہے چنانچہ سکھر ڈویژن کے کمشنر ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ نے ہم سب کو اجرک کا تحفہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ خیر پور کے ڈپٹی کمشنر محمد نواز سوہو اور لاڑکانہ ڈویژن کے محمد عباس بلوچ ہماری مہمان نوازی میں پیش پیش تھے۔
پہلے دن میں نے عالمی ادب کے تناظر میں جنگوں اور ماحولیاتی مسائل پر اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ میرا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تباہی زمین پر اپنی تحریر چھوڑتی ہے۔ بعض دانشوروں کے مطابق ہماری تباہی کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے جتنی اس سے پہلے نہیں موجود تھی۔ یوں تو ہزاروں برس سے جنگیں ہوتی آئی ہیں اور ان کے اثرات بھی ماحول پر پڑے ہیں لیکن جنگ کے جدید طریقوں نے اتنی ہیبت ناک صورت اختیار کرلی ہے کہ ماحولیاتی ماہرین نے اس کے لیے Ecocide کی اصطلاح ایجاد کی ہے جس کا مطلب ماحولیات کو قتل کرنا ہے۔
146 برس قبل مسیح سلطنت روما نے جب کار تھیج کو فتح کیا تو قابل کاشت زمین پر نمک چھڑک دیا تاکہ غلہ نہ پیدا ہو سکے اور شہری فاقوں سے ہلاک ہوجائیں۔ سیکڑوں برس بعد ویتنام کی جنگ کے دوران امریکا نے جنگلوں پر ایجنٹ آرنج کا چھڑکاؤ کیا تاکہ جنگل ختم ہوجائیں۔ عراق میں تیل کے کنوؤں کو آگ لگادی گئی، ان کا دھواں انسانوں کو صاف ہوا میں سانس لینے سے محروم کرتا رہا اور آنکھوں کو بینائی سے۔
اب شاید کم لوگوں کو یاد ہو کہ 1992 میں ایک ریو ڈیکلریشن ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جنگیں، پائیدار ترقی کو تباہ و برباد کرتی ہیں اسی لیے ریاستوں کو جنگ کے دوران بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے اور انھیں بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ بم اور گولے جو پھٹے نہیں، وہ بھی جنگ ختم ہونے کے بعد ماحولیاتی تباہی کا سبب بنتے ہیں اور بہ طور خاص بچے اپنی معصومیت میں ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی آزمائش کا معاملہ بھی ماحولیاتی تباہی میں اپنا تباہ کن حصہ ڈالتا ہے۔
پہلے انسان کو فطرت سے نبرد آزما ہونا پڑتا تھا، اب انسان کو خود اپنے ایجاد کیے ہوئے عفریتوں سے خطرہ ہے۔ ہم داستانوں او رکہانیوں میں ان جنوں اور بھوتوں کے بارے میں پڑھتے تھے جن کے قد آسمان کو چھوتے تھے اور جو انسانوں اور بستیوں کو روندتے چلے جاتے تھے۔ یہاں مہاتما بدھ کی ایک نظم ''پیڑ کاٹو گے'' یاد آتی ہے جو ڈھائی ہزار برس پرانی ہے اور جسے ہمارے ستیہ پال آنند نے اردو کا لباس پہنایا۔ اسے پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نظم آج کی ماحولیاتی تباہی کا ذکر کررہی ہے۔
ہم کئی دہائیوں سے گلوبل وارمنگ، اوزون کے پارہ پارہ ہوتے ہوئے غلاف کے بارے میں سن رہے ہیں۔ وہ باتیں جو دیوانوں کی باتیں محسوس ہوتی تھیں،آج ہم ان سے براہِ راست متاثر ہورہے ہیں۔ ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں، ہمارے کھیت اور ہماری ہریالی مرجھا رہی ہے۔ ایسے میں ہمیں دنیا کے ان چند اہم ادیبوں کی طرف دیکھنا چاہیے کہ وہ جنگ سے گزرے تو انھوں نے کیا محسوس کیا اور ان کی جنگ مخالف تحریریں ہمیں کیا بتاتی ہیں۔
ہم ارنسٹ ہیمنگوے کو پڑھتے ہیں۔ وہ ادب کا نوبیل انعام یافتہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران وہ ایمبولینس ڈرائیور تھا اور دو مرتبہ خوفناک گولہ باری کا نشانہ بنا۔ وہ محاذ جنگ پر دوبارہ بھیجا گیا تو پھر زخمی ہوا اور گھر بھیج دیا گیا۔ جنگ کے حوالے سے وہاں اس نے اپنی پہلی کہانی Soldiers Home لکھی۔ ہیمنگوے محاذ جنگ پر سپاہیوں کی کراہیں سنتا رہا اور ان کی اذیتیں دیکھتا رہا، خود ان سے گزرتا رہا۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ جسے ہمارے حکمران اور جرنیل حب وطن اور بہادری سے تعبیر کرتے ہیں، وہ کس طرح انسان کو غیر انسان بنادیتی ہے۔ اس کی تمام خوشیاں اور خواب چھین لیتی ہے۔
ہیمنگوے کے بہت بعد ہماری ملاقات Kewzaburo oe سے ہوتی ہے۔ یہ جاپانی ناول نگار بھی ادب کے نوبیل انعام سے نوزا گیا۔ اوے کہتا ہے کہ ہیروشیما نوٹس اور اس کے بعد اس کے ناول A Personal Matter جنگ کے خلاف اس کی جنگ ہے۔ نوبیل انعام ملنے سے بہت پہلے جنگ، جمہوریت اور جوہری ہتھیاروں کی مخالفت اس کی تحریروں کا بنیادی موضوع رہے ہیں۔ اس کا ناول The Silent Cry ایک مہا بیانیہ ہے جس کا تعلق دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے سے ہے۔ہیروشیما پر ایٹم بم کا گرایا جانا اس کے لیے ذاتی عذاب تھا۔ اس کا بیٹا Hikori اس بم کے اثرات کے سبب ذہنی طور سے معذور پیدا ہوا جس نے اس کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔
ابھی بات ان دو ادیبوں کی ہوئی جنھوں نے جنگ کے خلاف قلم اٹھایا اور نوبیل انعام سے سرفراز ہوئے۔ ہمیں کینیڈا کی ماگریٹ ایٹ ووڈ کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے جنگ اور جوہری ہتھیاروں کے خلاف ایسی مہم چلائی کہ دنیا کا سب سے بڑا ادبی انعام اس سے ہر سال دور ہوتا چلا گیا۔
ماحولیاتی توازن اور اس کا احترام دنیا کے ہر اس فرد کی ضرورت ہے جس کا مفاد اسلحے کی تجارت، تیل کے کنوؤں پر قبضے اور کمزور قوموں کو غلام بنانے سے وابستہ نہیں ہے۔ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں ایک کمال ناول حجاب امتیاز علی نے ''پاگل خانہ'' کے عنوان سے لکھا۔یہ ایک ایسا ناول ہے جسے ہمارے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ اسی طرح اختر جمال کا ''بھوپو شیما'' اور بعض دوسرے افسانے ماحولیات کے مسائل پر سوال اٹھاتے ہیں۔
وہ تصویر تو آپ نے بھی دیکھی ہوگی جس میں ڈیڑھ دو برس کا ایک شامی بچہ ساحل کی ریت پر منہ اوندھائے ابدی نیند سور ہا ہے۔ وہ خوفناک بمباری کے نتیجے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی جائے پناہ کی تلاش میں چلا تھا لیکن اب کبھی نہیں جاگے گا۔ ایسے میں ٹیگور کا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ ہر بچے کی پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ خدا انسان سے ابھی مایوس نہیں ہوا۔ ساحل پر ابدی نیند سوتے ہوئے اس بچے کو دیکھ کر کیا ہم یہ سمجھیں کہ خدا انسانوں سے مایوس ہوچکا ہے؟
میں نے اس کے کئی پھیرے لگائے۔ حضرت سچل سرمست کی یاد میں ہونے والی محفل جو منصور میرانی نے سجائی تھی، خیرپور کے پہلے پھیرے کا سبب بنی تھی۔ اس کے بعد شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کے ڈین کلیہ فنون والسنہ کے پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور چیئر پرسن شعبہ اردو ڈاکٹر صوفیہ یوسف کی دعوت پر اس سے پہلے بھی خیرپور جانا ہوا تھا اور اس مرتبہ بھی ان لوگوں نے یونیورسٹی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جو پاکستانی اور عالمی تناظر میں ادب اور ماحولیاتی مسائل کا احاطہ کرتی تھی۔ اس میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے اسکالر آئے اور انھوں نے اپنے مقالے پیش کیے۔
اس کی خاص بات یہ تھی کہ امریکا، ڈنمارک، سوئیڈن، جرمنی، برطانیہ، ترکی، مصر، چین، ایران، فن لینڈ اور بنگلہ دیش کے پروفیسروں اور ادیبوں نے حصہ لیا۔ ڈاکٹر صوفیہ یوسف اور ڈاکٹر یوسف خشک قابل ستائش ہیں کہ انھوں نے ایک ایسے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے بارے میں ابھی ہماری اہم یونیورسٹیاں خاموش ہیں۔ ماحولیاتی بحران ہماری بستیوں تک آپہنچا ہے، ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے لیکن ہماری اکثریت اسے امریکا اور یورپ کا مسئلہ سمجھے بیٹھی ہے۔ یہ کانفرنس خوش انتظامی اور خندہ پیشانی کا ایک کمال مظاہرہ تھی جس میں شاہ لطیف یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین شاہ کا ایک بڑا حصہ تھا۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹر تھامس اسٹیمر اور ڈاکٹر ہائیز ویسلر کے مقالے خاصے کی چیز تھے۔ بہ طور خاص ڈاکٹر اسٹیمر نے ہرمن ہیسے کے مشہور ناول 'سدھارت' کو جس طرح ماحولیاتی معاملے سے جوڑا اور سمندر اور جنگل کے رشتے کو بیان کیا، وہ خیال انگیز ہونے کیساتھ ہی ادبی چاشنی رکھتا تھا۔ پاکستان بھر کے اہل علم اپنی زبانوں میں پائے جانے والے ادب اور ماحولیاتی معاملات پر خوب خوب بولے۔
ان سب کا تذکرہ ممکن نہیں لیکن ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نبیلہ رحمن، ڈاکٹر صوفیہ یوسف، بینا گویندی، ڈاکٹڑ فاطمہ حسن، رضا علی عابدی، ترکی سے ڈاکٹر آرزو سورن، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر عطیہ سید، مصر کے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم السید، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر روبینہ ترین، ایران سے ڈاکٹر دفایز دان، مہ جبیں غزل انصاری، ڈاکٹر شگفتہ حسین اور ڈاکٹر فیضی کے علاوہ متعدد ادیب اور دانشور تھے جنھوں نے ادب اور ماحولیاتی مسائل کو اپنے اپنے زاویۂ نظر سے دیکھا اور خوب خوب بیان کیا۔
کانفرنس کے پہلے دن مشاعرے کی محفل سجی اور دوسری رات شاہ کی درگاہ سے وابستہ فقیروں نے راگ راگنیوں سے ہم سب کو لوٹ لیا۔ اس رات اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی بھٹ شاہ کے گدی نشین سید وقار شاہ کے علاوہ کمشنر میرپور خاص انجینئر میاں شفیق احمد مہیسر اور خیرپور کے ایس ایس پی غلام افضل مہیسر بھی موجود تھے۔ سندھ میں مہمانوں کو اجرک کے تحفے سے نوازنا خاص روایت ہے چنانچہ سکھر ڈویژن کے کمشنر ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ نے ہم سب کو اجرک کا تحفہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ خیر پور کے ڈپٹی کمشنر محمد نواز سوہو اور لاڑکانہ ڈویژن کے محمد عباس بلوچ ہماری مہمان نوازی میں پیش پیش تھے۔
پہلے دن میں نے عالمی ادب کے تناظر میں جنگوں اور ماحولیاتی مسائل پر اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ میرا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تباہی زمین پر اپنی تحریر چھوڑتی ہے۔ بعض دانشوروں کے مطابق ہماری تباہی کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے جتنی اس سے پہلے نہیں موجود تھی۔ یوں تو ہزاروں برس سے جنگیں ہوتی آئی ہیں اور ان کے اثرات بھی ماحول پر پڑے ہیں لیکن جنگ کے جدید طریقوں نے اتنی ہیبت ناک صورت اختیار کرلی ہے کہ ماحولیاتی ماہرین نے اس کے لیے Ecocide کی اصطلاح ایجاد کی ہے جس کا مطلب ماحولیات کو قتل کرنا ہے۔
146 برس قبل مسیح سلطنت روما نے جب کار تھیج کو فتح کیا تو قابل کاشت زمین پر نمک چھڑک دیا تاکہ غلہ نہ پیدا ہو سکے اور شہری فاقوں سے ہلاک ہوجائیں۔ سیکڑوں برس بعد ویتنام کی جنگ کے دوران امریکا نے جنگلوں پر ایجنٹ آرنج کا چھڑکاؤ کیا تاکہ جنگل ختم ہوجائیں۔ عراق میں تیل کے کنوؤں کو آگ لگادی گئی، ان کا دھواں انسانوں کو صاف ہوا میں سانس لینے سے محروم کرتا رہا اور آنکھوں کو بینائی سے۔
اب شاید کم لوگوں کو یاد ہو کہ 1992 میں ایک ریو ڈیکلریشن ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جنگیں، پائیدار ترقی کو تباہ و برباد کرتی ہیں اسی لیے ریاستوں کو جنگ کے دوران بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے اور انھیں بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ بم اور گولے جو پھٹے نہیں، وہ بھی جنگ ختم ہونے کے بعد ماحولیاتی تباہی کا سبب بنتے ہیں اور بہ طور خاص بچے اپنی معصومیت میں ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی آزمائش کا معاملہ بھی ماحولیاتی تباہی میں اپنا تباہ کن حصہ ڈالتا ہے۔
پہلے انسان کو فطرت سے نبرد آزما ہونا پڑتا تھا، اب انسان کو خود اپنے ایجاد کیے ہوئے عفریتوں سے خطرہ ہے۔ ہم داستانوں او رکہانیوں میں ان جنوں اور بھوتوں کے بارے میں پڑھتے تھے جن کے قد آسمان کو چھوتے تھے اور جو انسانوں اور بستیوں کو روندتے چلے جاتے تھے۔ یہاں مہاتما بدھ کی ایک نظم ''پیڑ کاٹو گے'' یاد آتی ہے جو ڈھائی ہزار برس پرانی ہے اور جسے ہمارے ستیہ پال آنند نے اردو کا لباس پہنایا۔ اسے پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نظم آج کی ماحولیاتی تباہی کا ذکر کررہی ہے۔
ہم کئی دہائیوں سے گلوبل وارمنگ، اوزون کے پارہ پارہ ہوتے ہوئے غلاف کے بارے میں سن رہے ہیں۔ وہ باتیں جو دیوانوں کی باتیں محسوس ہوتی تھیں،آج ہم ان سے براہِ راست متاثر ہورہے ہیں۔ ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں، ہمارے کھیت اور ہماری ہریالی مرجھا رہی ہے۔ ایسے میں ہمیں دنیا کے ان چند اہم ادیبوں کی طرف دیکھنا چاہیے کہ وہ جنگ سے گزرے تو انھوں نے کیا محسوس کیا اور ان کی جنگ مخالف تحریریں ہمیں کیا بتاتی ہیں۔
ہم ارنسٹ ہیمنگوے کو پڑھتے ہیں۔ وہ ادب کا نوبیل انعام یافتہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران وہ ایمبولینس ڈرائیور تھا اور دو مرتبہ خوفناک گولہ باری کا نشانہ بنا۔ وہ محاذ جنگ پر دوبارہ بھیجا گیا تو پھر زخمی ہوا اور گھر بھیج دیا گیا۔ جنگ کے حوالے سے وہاں اس نے اپنی پہلی کہانی Soldiers Home لکھی۔ ہیمنگوے محاذ جنگ پر سپاہیوں کی کراہیں سنتا رہا اور ان کی اذیتیں دیکھتا رہا، خود ان سے گزرتا رہا۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ جسے ہمارے حکمران اور جرنیل حب وطن اور بہادری سے تعبیر کرتے ہیں، وہ کس طرح انسان کو غیر انسان بنادیتی ہے۔ اس کی تمام خوشیاں اور خواب چھین لیتی ہے۔
ہیمنگوے کے بہت بعد ہماری ملاقات Kewzaburo oe سے ہوتی ہے۔ یہ جاپانی ناول نگار بھی ادب کے نوبیل انعام سے نوزا گیا۔ اوے کہتا ہے کہ ہیروشیما نوٹس اور اس کے بعد اس کے ناول A Personal Matter جنگ کے خلاف اس کی جنگ ہے۔ نوبیل انعام ملنے سے بہت پہلے جنگ، جمہوریت اور جوہری ہتھیاروں کی مخالفت اس کی تحریروں کا بنیادی موضوع رہے ہیں۔ اس کا ناول The Silent Cry ایک مہا بیانیہ ہے جس کا تعلق دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے سے ہے۔ہیروشیما پر ایٹم بم کا گرایا جانا اس کے لیے ذاتی عذاب تھا۔ اس کا بیٹا Hikori اس بم کے اثرات کے سبب ذہنی طور سے معذور پیدا ہوا جس نے اس کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔
ابھی بات ان دو ادیبوں کی ہوئی جنھوں نے جنگ کے خلاف قلم اٹھایا اور نوبیل انعام سے سرفراز ہوئے۔ ہمیں کینیڈا کی ماگریٹ ایٹ ووڈ کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے جنگ اور جوہری ہتھیاروں کے خلاف ایسی مہم چلائی کہ دنیا کا سب سے بڑا ادبی انعام اس سے ہر سال دور ہوتا چلا گیا۔
ماحولیاتی توازن اور اس کا احترام دنیا کے ہر اس فرد کی ضرورت ہے جس کا مفاد اسلحے کی تجارت، تیل کے کنوؤں پر قبضے اور کمزور قوموں کو غلام بنانے سے وابستہ نہیں ہے۔ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں ایک کمال ناول حجاب امتیاز علی نے ''پاگل خانہ'' کے عنوان سے لکھا۔یہ ایک ایسا ناول ہے جسے ہمارے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ اسی طرح اختر جمال کا ''بھوپو شیما'' اور بعض دوسرے افسانے ماحولیات کے مسائل پر سوال اٹھاتے ہیں۔
وہ تصویر تو آپ نے بھی دیکھی ہوگی جس میں ڈیڑھ دو برس کا ایک شامی بچہ ساحل کی ریت پر منہ اوندھائے ابدی نیند سور ہا ہے۔ وہ خوفناک بمباری کے نتیجے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی جائے پناہ کی تلاش میں چلا تھا لیکن اب کبھی نہیں جاگے گا۔ ایسے میں ٹیگور کا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ ہر بچے کی پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ خدا انسان سے ابھی مایوس نہیں ہوا۔ ساحل پر ابدی نیند سوتے ہوئے اس بچے کو دیکھ کر کیا ہم یہ سمجھیں کہ خدا انسانوں سے مایوس ہوچکا ہے؟