یہ ہمارا بھیانک چہرہ ہے
پنچائیتوں کے فیصلوں پر مخالفین کی لڑکیوں کی عزتیں پامال کرنے کے کئی واقعات ہمارے ملک میں رونما ہوچکے
دنیا میں وہی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہمکنار ہوتی ہیں، جن کو عدل وانصاف باآسانی میسرہو اور جو معاشرے ان اوصاف سے محروم ہوتے ہیں، وہ رْوبہ زوال ہوکر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں غریب اور کمزور افراد عدل و انصاف کو ترستے ہیں۔ طاقتور اور بااثر افراد ہر قسم کا جرم کر کے بھی قانون کی گرفت سے آزاد، جب کہ غریب اورکمزور افراد حق پر ہونے کے باوجود بھی قانون کے دباؤ میں رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں بااثر افراد نے حیوانیت ودرندگی کی تمام حدود پار کرلیں۔ ظلم کے انتہائی بھیانک اور شرمناک واقعے نے زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کردی۔ بااثر مخالفین نے 16سالہ یتیم لڑکی کو بھرے بازار میں بے لباس کرکے اس پر تشدد کیا اور اسے بازار میں گھماتے رہے۔ لڑکی گھنٹہ بھر روتی چلاتی رہی اور مدد کے لیے پکارتی رہی، لیکن بااثر افراد کے خوف سے کوئی بھی مدد کو نہ آیا۔ یہ شرمناک واقعہ مہذب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیش آیا ہے۔
ہمارے ملک میں شاید کوئی نظام نہیں ہے۔ غریب عوام کا کوئی والی وارث نہیں۔ دولت اور طاقت کے نشے میں غرق درندے نما انسان اور ملک کی اشرافیہ کہلانے والے طبقے کے آگے تو پولیس اور قانون کے نفاذ کے ذمے داران ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ ''با اثر'' لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں با آسانی اور بلا خوف و خطر قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ غریب، کمزور اور مظلوم عوام کے لیے انصاف کا حصول نا ممکن ہے۔ عوام کسی شکایت پر تھانے جانے سے خوف کھاتے ہیں، کیونکہ قانون کے محافظ مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں اور اکثر بے قصور کو ہی لاک اپ میں ڈال کر ایف آئی آر درج کر دیتے ہیں۔
ڈی آئی خان واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ متاثرہ لڑکی جب بااثر غنڈوں کی سفاکیت وظلم کا نشانہ بننے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ علاقے کے تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئی تو مجرمان پہلے سے وہاں ایس ایچ او کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انھوں نے لڑکی کے بھائی کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا تھا اور ایس ایچ او نے نہ صرف اس واقعے کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا، بلکہ ان لوگوں کو تھانے میں بند کرنے کی دھمکیاں دیں۔پولیس نے ابتداء میں ملزمان کی بجائے متاثرہ خاندان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، تاہم بعد میں میڈیا پر خبر نشر ہونے کی وجہ سے وہ اصل ملزمان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوئی۔
لڑکی نے عدالت میں دوبارہ بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا پہلا بیان دلوایا۔ پولیس نے اسے دھمکیاں دیں کہ اگر پولیس کی مرضی کے مطابق بیان نہ دیا تو اس کے بھائی اور رشتے داروں کے خلاف مقدمہ درج کردیں گے۔ متاثرہ لڑکی نے بیان میں بتایا کہ تفتیشی افسر گالیاں نکالتا تھا اور ماں کو مقدمہ چلانے سے منع کرتا تھا اور بولنے نہیں دیتا تھا۔
چند سال سے سنتے آرہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا نظام ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے پاک ہوگیا ہے، جہاں اب کسی ناانصافی کا کوئی عمل دخل نہیں، لیکن کے پی کے میں مجرموں کا ساتھ دینے والے پولیس آفیسر نے ثابت کردیا کہ کے پی کے پولیس کی شفافیت کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا یہ کہتے ہیں کہ کے پی کے پولیس سیاسی دباؤں سے پاک اور دیگر صوبوں سے بہتر ہوگئی ہے تو انھیں خود آگے بڑھ کر مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے مظلوم لڑکی کے بھائی کے خلاف پرچہ کاٹنے والے پولیس آفیسرکو سزا دلوانا ہوگی، جو ابھی تک نہیں دلوائی گئی۔
واقعہ کے بعد متاثرہ خاندان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مجرموں کے تعلقات خیبرپختونخوا کے ایک وزیر سے ہیں ۔ اگرچہ وزیر موصوف نے اس الزام کی تردیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں اس معاملے میں ملوث نکلا تو مجھے پھانسی لگا دی جائے، لیکن تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جہانگیرترین اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو خط لکھ کر بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سطح پر سرپرستی کی جا رہی ہے ہیں اور بے حرمتی کرنے والے افراد کو مالی مدد بھی فراہم کی۔
ابھی اس الزام کی مکمل طور پر تفتیش بھی نہیں ہوئی تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تنقید کرنے کی وجہ سے داور خان کنڈی کو ہی پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ پولیس لڑکی پر شرمناک ظلم کرنے والے مرکزی ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ مرکزی ملزم کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور اگر وہ گرفتار ہو بھی جاتا ہے تو بھی نہیں لگتا کہ اسے سزا ہوجائے گی، کیونکہ جب خود پولیس اور عوامی نمایندے ہی مجرموں کی مدد کر رہے ہوں تو مجرموں کو کس طرح سزا مل سکتی ہے؟ اس معاشرے میں مجرموں کو اسی وقت سزا ملتی ہے جب مدمقابل مجرموں سے زیادہ بااثر ہو، ورنہ کمزور اور غریب آدمی تو حق پر ہونے کے باوجود برسوں خوار ہوکر بھی ہار جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں انسانیت کی بدترین تذلیل پہلی بار نہیں ہوئی۔ اسی ملک میں وڈیروں، جاگیرداروں اور دولت کے نشے میں چور بااثر سیاسی افراد غریبوں کی بیٹیوں کو گھروں سے اٹھاکر ان کی عصمتیں پامال کرتے ہیں۔ غریب گھرانوں کے جوان بیٹوں کو والدین کے سامنے گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو معمولی سی غلطی پر قتل کردیا جاتا ہے۔ کسی کا ہاتھ ٹوکے سے کاٹا جاتا ہے، کسی کو ٹریکٹر سے باندھ کر گھسیٹا جاتا ہے، کسی غریب کی فصل ہل چلا کر تباہ کردی جاتی ہے تو کسی پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
پنچائیتوں کے فیصلوں پر مخالفین کی لڑکیوں کی عزتیں پامال کرنے کے کئی واقعات ہمارے ملک میں رونما ہوچکے، لیکن جن مجرموں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے، وہ ہمیشہ اپنے اثرورسوخ اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے آزادانہ طور پر غریبوں کے جان و مال اور عزتوں سے کھیلتے پھرتے ہیں۔ ان کے نزدیک قانون کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ ہمارے پورے معاشرے کی یہی داستان ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آیا واقعہ ہمارا اور ہمارے پورے معاشرے کا بھیانک چہرہ ہے۔
یہ واقعہ بحیثیت مجموعی ہم سب کے لیے شرم کا باعث ہے۔ جس ملک میں قانون کے رکھوالے اور عوام کے محافظ خود ہی مجرموں کے ساتھ مل کر مظلوموں پر ستم ڈھانے لگیں، اس ملک کا قانون جنگل سے بھی بدتر ہے۔ اس ملک میں دہرا نظام ہے۔
غریب کے لیے قانون میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہے، لیکن امیر اور بااثر افراد کے لیے قانون موم کی ناک ہے، وہ جس طرف چاہیں موڑ دیں۔ ایسے واقعات روزانہ ہوتے ہیں، لیکن غریب اور متوسط طبقہ پولیس اور عدالتوں کے جھمیلوں سے ڈر کر طاقتور مجرمان کے آگے بے بس اور مزید مصیبت میں پھنسنے کے بجائے چپ سادھنے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ سیاست دان عوام کے سامنے تو مظلوم کو انصاف دلوانے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن پس پردہ طاقتور ظالم کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں بااثر افراد نے حیوانیت ودرندگی کی تمام حدود پار کرلیں۔ ظلم کے انتہائی بھیانک اور شرمناک واقعے نے زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کردی۔ بااثر مخالفین نے 16سالہ یتیم لڑکی کو بھرے بازار میں بے لباس کرکے اس پر تشدد کیا اور اسے بازار میں گھماتے رہے۔ لڑکی گھنٹہ بھر روتی چلاتی رہی اور مدد کے لیے پکارتی رہی، لیکن بااثر افراد کے خوف سے کوئی بھی مدد کو نہ آیا۔ یہ شرمناک واقعہ مہذب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیش آیا ہے۔
ہمارے ملک میں شاید کوئی نظام نہیں ہے۔ غریب عوام کا کوئی والی وارث نہیں۔ دولت اور طاقت کے نشے میں غرق درندے نما انسان اور ملک کی اشرافیہ کہلانے والے طبقے کے آگے تو پولیس اور قانون کے نفاذ کے ذمے داران ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ ''با اثر'' لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں با آسانی اور بلا خوف و خطر قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ غریب، کمزور اور مظلوم عوام کے لیے انصاف کا حصول نا ممکن ہے۔ عوام کسی شکایت پر تھانے جانے سے خوف کھاتے ہیں، کیونکہ قانون کے محافظ مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں اور اکثر بے قصور کو ہی لاک اپ میں ڈال کر ایف آئی آر درج کر دیتے ہیں۔
ڈی آئی خان واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ متاثرہ لڑکی جب بااثر غنڈوں کی سفاکیت وظلم کا نشانہ بننے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ علاقے کے تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئی تو مجرمان پہلے سے وہاں ایس ایچ او کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انھوں نے لڑکی کے بھائی کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا تھا اور ایس ایچ او نے نہ صرف اس واقعے کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا، بلکہ ان لوگوں کو تھانے میں بند کرنے کی دھمکیاں دیں۔پولیس نے ابتداء میں ملزمان کی بجائے متاثرہ خاندان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، تاہم بعد میں میڈیا پر خبر نشر ہونے کی وجہ سے وہ اصل ملزمان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوئی۔
لڑکی نے عدالت میں دوبارہ بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا پہلا بیان دلوایا۔ پولیس نے اسے دھمکیاں دیں کہ اگر پولیس کی مرضی کے مطابق بیان نہ دیا تو اس کے بھائی اور رشتے داروں کے خلاف مقدمہ درج کردیں گے۔ متاثرہ لڑکی نے بیان میں بتایا کہ تفتیشی افسر گالیاں نکالتا تھا اور ماں کو مقدمہ چلانے سے منع کرتا تھا اور بولنے نہیں دیتا تھا۔
چند سال سے سنتے آرہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا نظام ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے پاک ہوگیا ہے، جہاں اب کسی ناانصافی کا کوئی عمل دخل نہیں، لیکن کے پی کے میں مجرموں کا ساتھ دینے والے پولیس آفیسر نے ثابت کردیا کہ کے پی کے پولیس کی شفافیت کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا یہ کہتے ہیں کہ کے پی کے پولیس سیاسی دباؤں سے پاک اور دیگر صوبوں سے بہتر ہوگئی ہے تو انھیں خود آگے بڑھ کر مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے مظلوم لڑکی کے بھائی کے خلاف پرچہ کاٹنے والے پولیس آفیسرکو سزا دلوانا ہوگی، جو ابھی تک نہیں دلوائی گئی۔
واقعہ کے بعد متاثرہ خاندان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مجرموں کے تعلقات خیبرپختونخوا کے ایک وزیر سے ہیں ۔ اگرچہ وزیر موصوف نے اس الزام کی تردیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں اس معاملے میں ملوث نکلا تو مجھے پھانسی لگا دی جائے، لیکن تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جہانگیرترین اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو خط لکھ کر بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سطح پر سرپرستی کی جا رہی ہے ہیں اور بے حرمتی کرنے والے افراد کو مالی مدد بھی فراہم کی۔
ابھی اس الزام کی مکمل طور پر تفتیش بھی نہیں ہوئی تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تنقید کرنے کی وجہ سے داور خان کنڈی کو ہی پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ پولیس لڑکی پر شرمناک ظلم کرنے والے مرکزی ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ مرکزی ملزم کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور اگر وہ گرفتار ہو بھی جاتا ہے تو بھی نہیں لگتا کہ اسے سزا ہوجائے گی، کیونکہ جب خود پولیس اور عوامی نمایندے ہی مجرموں کی مدد کر رہے ہوں تو مجرموں کو کس طرح سزا مل سکتی ہے؟ اس معاشرے میں مجرموں کو اسی وقت سزا ملتی ہے جب مدمقابل مجرموں سے زیادہ بااثر ہو، ورنہ کمزور اور غریب آدمی تو حق پر ہونے کے باوجود برسوں خوار ہوکر بھی ہار جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں انسانیت کی بدترین تذلیل پہلی بار نہیں ہوئی۔ اسی ملک میں وڈیروں، جاگیرداروں اور دولت کے نشے میں چور بااثر سیاسی افراد غریبوں کی بیٹیوں کو گھروں سے اٹھاکر ان کی عصمتیں پامال کرتے ہیں۔ غریب گھرانوں کے جوان بیٹوں کو والدین کے سامنے گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو معمولی سی غلطی پر قتل کردیا جاتا ہے۔ کسی کا ہاتھ ٹوکے سے کاٹا جاتا ہے، کسی کو ٹریکٹر سے باندھ کر گھسیٹا جاتا ہے، کسی غریب کی فصل ہل چلا کر تباہ کردی جاتی ہے تو کسی پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
پنچائیتوں کے فیصلوں پر مخالفین کی لڑکیوں کی عزتیں پامال کرنے کے کئی واقعات ہمارے ملک میں رونما ہوچکے، لیکن جن مجرموں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے، وہ ہمیشہ اپنے اثرورسوخ اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے آزادانہ طور پر غریبوں کے جان و مال اور عزتوں سے کھیلتے پھرتے ہیں۔ ان کے نزدیک قانون کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ ہمارے پورے معاشرے کی یہی داستان ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آیا واقعہ ہمارا اور ہمارے پورے معاشرے کا بھیانک چہرہ ہے۔
یہ واقعہ بحیثیت مجموعی ہم سب کے لیے شرم کا باعث ہے۔ جس ملک میں قانون کے رکھوالے اور عوام کے محافظ خود ہی مجرموں کے ساتھ مل کر مظلوموں پر ستم ڈھانے لگیں، اس ملک کا قانون جنگل سے بھی بدتر ہے۔ اس ملک میں دہرا نظام ہے۔
غریب کے لیے قانون میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہے، لیکن امیر اور بااثر افراد کے لیے قانون موم کی ناک ہے، وہ جس طرف چاہیں موڑ دیں۔ ایسے واقعات روزانہ ہوتے ہیں، لیکن غریب اور متوسط طبقہ پولیس اور عدالتوں کے جھمیلوں سے ڈر کر طاقتور مجرمان کے آگے بے بس اور مزید مصیبت میں پھنسنے کے بجائے چپ سادھنے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ سیاست دان عوام کے سامنے تو مظلوم کو انصاف دلوانے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن پس پردہ طاقتور ظالم کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔