سرمایہ دارانہ نظام کا بحران

سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے ہمارے خطے میں بڑے پیمانے پر ایک بہت بڑی جنگ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

www.facebook.com/shah Naqvi

عالمی سطح پر ایسی سرگرمیوں کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے جس کے اثرات ہمارے خطے پر بہت دوررس ہوں گے۔ حقیقت میں ہم ایک دور سے نکل کر دوسرے میں داخل ہونے جا رہے ہیں یعنی ماضی کا ایک طویل المناک باب ختم دوسرا شروع ہونے والا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اب طویل محاذ آرائی کا دور ختم ہوا اور دنیا اب امن اور خوش حالی کا منہ دیکھے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا بلکہ ستر کی دہائی میں جب ہمارے خطے میں جس کشت و خون کا آغاز ہوا اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔

امکان غالب یہی ہے کہ یہ خونچکانی مزید بڑھے گی۔ وجہ اس خطے کے قدرتی وسائل ہیں۔ پہلے مشرق وسطی سے ایران تک تیل کے ذخائر تھے۔ اب ان میں سینٹرل ایشیا کے قدرتی وسائل بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جن میں صرف تیل نہیں بلکہ انتہائی قیمتی معدنیات بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ایسی نایاب اور قیمتی معدنیات جن پر مستقبل کی ترقی کا دارومدار ہے۔

یہ قیمتی قدرتی وسائل ہی تھے جن کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے برصغیر کے خطے کی تقسیم در تقسیم جاری ہے۔ پہلی عالمی جنگ عالمی منڈیوں پر قبضے کی جنگ تھی۔ فرانس اور برطانیہ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں یہ کشمکش بہت بڑے پیمانے پر سامنے آئی جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ مارے گئے اور یورپ کا بیشتر حصہ کھنڈر بن گیا۔ ان دو عالمی جنگوں سے سامراجی قوتوں نے سب سے بڑا سبق یہ سیکھا کہ اب کبھی کوئی جنگ یورپ کے اندر نہیں لڑی جائے گی۔ اب جنگ کا میدان یورپ سے باہر ہو گا۔

پوری دنیا میں اب اپنے اپنے مفادات کی جنگ مل کر لڑی جائے گی لیکن ایک دوسرے کے خلاف نہیں۔ جنگ کا میدان تیسری دنیا اور پسماندہ ملک ہوں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق بعید کے وسائل کو لوٹنے کے لیے جنگیں ویتنام کمبوڈیا' فلپائن' کوریا' انڈونیشیا میں چھیڑی گئیں جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے ایسا ہی لاطینی امریکا میں ہوا۔

برطانوی سامراج ہو یا امریکی سامراج دونوں نے غریب کمزور اقوام کے وسائل لوٹنے کے لیے قوموں کو رنگ نسل اور زبان پر تقسیم کر کے ان کو اپنا غلام بنا لیا۔ جب اس سے بھی بات نہ بنی تو قوموں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے خطوں میں نئے ملک بنانے شروع کر دیے۔ نئے ملک اور نئی سرحدوں نے قوموں کے اتحاد توڑ دیے۔ نام نہاد آزادی دیے جانے کے باوجود ان پر وہ حکمران مسلط کیے گئے جو اپنے بیرونی آقاؤں کے وفادار تھے۔ سامراج کے نو آزاد کردہ ملکوں میں اب پہلے سے بھی زیادہ بیدردی سے وسائل کی لوٹ مار شروع ہو گئی۔ یہ طریقہ واردات بہت موثر ثابت ہوا۔

اب غربت' بیروزگاری' بھوک' مہنگائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عوامی غصے کا ہدف بیرونی آقا نہیں مقامی حکمران تھے۔ سامراج کے آزاد کردہ تمام ملکوں میں تمام پالیسیاں چاہے وہ معاشی ہو یا خارجہ یا دفاعی مقامی حکمران کی جرات نہیں تھی کہ وہ ان کی اجازت اور پسند کے بغیر اپنے عوام اور اپنے ملک کے مفاد میں پالیسیاں اختیار کریں۔ اگر حکمران ایسا کرنے کی جرات بھی کریں تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ ان کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے ان کی جگہ ان کے اشاروں پر چلنے والے نئے حکمران آ جاتے ہیں۔

عوام سمجھتے ہیں کہ اب ان کی قسمت بدلے گی لیکن کہاں' حالات بد سے بدترین ہو جاتے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سامراجی لوٹ کھسوٹ اس انتہا پر پہنچ گئی کہ اب دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف ایک فیصد افراد ہیں ان میں سے بھی بیشتر امریکی اور یورپین ہیں۔ دنیا نے اس سے پہلے ایسا ہولناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ عالمی سامراج کے ہاتھوں اس لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ملکوں کی کل آبادی کا نصف کے قریب حصے کو بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔


اندازہ کریں کہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ بھارت کا یہ حال ہے کہ وہاں 70کروڑ افراد کو گھر کے اندر لیٹرین کی سہولت میسر نہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی برکت ہے جو دونوں ملکوں میں رائج ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کر رہی ہے جو دونوں ملکوں پر رائج ہے۔ اس جمہوریت میں آپ افراد اور چہرے بدل سکتے ہیں لیکن نظام نہیں بدل سکتے ۔ پاکستان اور بھارت کی اسمبلیوں میں زیادہ تر وہ لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں جو کرپٹ اور کسی نہ کسی جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔

اب تو ایم پی اے اور ایم این اے کا الیکشن لڑنے کے لیے کم از کم پانچ سے دس کروڑ چاہئیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور عوامی جمہوریت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت دھوکا اور فریب کے سوا کچھ نہیں جس میں عوام کی نمایندگی ارب پتی کھرب پتی کرتے ہیں۔ جب کہ عوامی جمہوریت میں عوام کی نمایندگی ان کے اپنے نمایندے مزدور کسان ڈاکٹر انجینئر صحافی استاد اور دانشور کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام کو روز گار کی گارنٹی گھر صحت تعلیم بجلی گیس پانی کی سہولتیں مفت یا بہت کم نرخوں پر ملتی ہیں۔

یہ کوئی تصوراتی بات نہیں بلکہ سابقہ سوویت یونین نے اس خواب کو 70سال حقیقت بنا کر دکھایا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے اگر یہ نظام ڈوبا تو اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی ڈوب جائے گی۔ اس خطرے کے تدارک کے لیے عالمی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے علمبردار نئے اتحاد بنا رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے ہمارے خطے میں بڑے پیمانے پر ایک بہت بڑی جنگ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کا اس جنگ میں ایک بڑا کردار ہے۔ اس وقت پاکستان میں سوویلین بالادستی کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ ابھی ہمیں ایک عرصہ اسی لولی لنگڑی جمہوریت کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا۔

غیر جمہوری قوتیں 2013-12ء میں نیگٹو فیز سے جزوی طور پر باہر نکل آئی ہیں' اب 2017ء میں یہ اس فیز سے مکمل طور پر باہر نکل آئیں گی۔

سیل فون:0346-4527997

نوٹ:پیارے قارئین آنکھ کے معاملات کی وجہ سے اگلے چند ہفتوں کی غیر حاضری کی پیشگی معذرت۔
Load Next Story