سیاسی صورتحال غیر معمولی چیلنجز

سارے سیاست دان، علمائے کرام، دانشور، تجزیہ کار اور بااثر قوتیں ملک میں امن و استحکام کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہوں

اہل سیاست اور طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھ کر سیاسی تصادم کا ہر امکان ختم کرنے کی امید پیدا کرنی چاہیے۔ فوٹو : فائل

مادر وطن کی سیاست دوراں کو وقت کے عجیب چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف سیاسی کشیدگی اور رسہ کشی اور دوسری جانب محاذ آرائی اور غیر یقینی صورتحال کے باعث ملکی معیشت بڑے بحران سے دوچار ہونے کے خطرات میں گھری ہوئی ہے۔

اگرچہ سیاسی مبصرین، تجزیہ کار اور اقتصادی ماہرین ایک اندوہ ناک منظرنامے کی نشاندہی کررہے ہیں، مگر فہمیدہ حلقے قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی طاقت سے بھی محروم نظر آتے ہیں کہ کیا ملکی سیاست کو بعض دشمن طاقتور داخلی قوتیں یا غیر مرئی عالمی خفیہ ہاتھ پاکستان کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کو طرف لے جارہا ہے یا ملکی سیاسی نظام کو برس ہا برس کی خرابیاں، طرز حکمرانی کے تضادات، عوام سے لاتعلق پاور پالیٹکس اور گروہی مفادات پر مبنی سیاسی کشمکش بے منزل سیاست کو بند گلی میں لے آئی ہے۔

ملک کو کثیر جہتی مسائل درپیش ہیں، ایک طرف فیض آباد دھرنے میںکسی بریک تھرو کی آخری کوششیں عروج پر ہیں، وزیر داخلہ احسن اقبال آپریشن کو حتمی آپشن قرار دے چکے ہیں، ادھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے استعفیٰ دینے یا نہ دینے کی اعصابی جنگ سے کاروباری اور تجارتی حلقوں کی تشویش دیدنی ہے، اخباری اطلاعات اور اسٹاک ایکسچینج ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ معیشت پر شدید مایوسی کا غلبہ ہے، غیر ملکی سرمایہ کار گومگو کی کیفیت میں ہیں کہ اپنا سرمایہ لے کر کہاں جائیں، ابتدائی تین روز مندی کے رہے اور آخری دو دنوں میں ریکوری اور گراوٹ کے اثرات بھی مکمل طور پر زائل نہیں ہوسکے، انڈیکس 40844 ہوگیا، جب کہ سرمایہ کاری مالیت میں 64 ارب 57 کروڑ 16 لاکھ روپے کی کمی واقع ہوئی اور سرمایہ کاروں کے 64 ارب ڈوب گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ جاری سیاسی کشمکش میں جمہوریت کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے، ایک خاتون مغربی مبصر نے 2012 میں اپنے ایک تجزیے میں کہا تھا کہ 2001 سے پاکستانی سیاست اور حکمرانی ڈس فنکشنل ہوچکی ہے، اس رپورٹ میں پاکستانی سیاسی سفر کو گم راہ کردہ قومی مسافت سے تعبیر کیا گیا تھا، کتنی بڑی ستم ظریفی اور درد انگیز صورتحال ہے کہ میڈیا خبردار کررہا ہے کہ ملک ایک اور لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن سانحہ کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اہل سیاست اور اہل علم و نظر، علما و مشائخ عظام کی ساری کوششیں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہی ہیں، ایک خلفشار ہے جو ملک وقوم کی جڑوں میں اتر کر پورے نظام حیات کے لیے سوالیہ نشان بن گیا ہے۔


یہ سوال کئی اطراف سے اٹھ رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ ابتذال، اخلاقی تنزلی، سیاسی بے سمتی، اضطراب، تشدد، دریدہ دہنی، فرسٹریشن اور دشنام طرازی کی پستیوں میں گرچکا ہے، کوئی ایسا مرد بحران سامنے نہیں آیا جو جمہوریت میں مکالمہ کو سرخرو کراسکے، متحارب گروپوں اور حکومت کو قومی ایشوز کے تصفیہ پر آمادہ کرسکے۔ کیا واقعی ہم اجتماعی ذہنی دیوالیہ پن کی نذر ہوگئے ہیں، دنیا ہمیں دہشتگردوں کی سرپرستی کے طعنے دیتی رہی ہے، ور ملکی سیاست کے اوراق حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی سے سیاہ ہورہے ہیں۔

سول سوسائٹی بھی عضو معطل ہے، حالانکہ دھرنوں سے نمٹنے کا یہ پہلا چیلنج نہیں ہے، تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں میں شرکا کی تعداد اور ان کی جارحانہ پیش قدمی غیر معمولی تھی، اس وقت بھی یہی کہا جاتا تھا کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، مگر وہ کچھ نہ ہوسکا، طوفان ٹل گیا۔ حکومت ابھی بھی سلیقہ، تدبر، معاملہ فہمی، حکمت اور غیر جذباتی انداز میں قوم کو سیاسی بحران اور ذہنی دباؤ سے نکال سکتی ہے، سیاست میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی، ضرورت احتیاط کی ہے مگر بزدلی کی نہیں، یہ بات ہر شہری کی زبان پر ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے کہ اگر کچھ کرلیا تو کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ کیا کاروبار اور امور ریاست اس پست ہمتی اور سیاسی قوت ارادی کے فقدان سے چلائے جاسکتے ہیِں۔ ن لیگ کی حکومت طے کرے کہ اسے قوم کو اس دلدل سے ہر قیمت پر جلد نکالنا ہے۔

سماجی ترقی معکوس ہے، زندگی کے معمولات بے ترتیب ہوگئے ہیں، ایک تشویش ہے کہ جو بڑھتی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور فیض آباد دھرنے کے قائدین کے مابین مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم ہو، کوئی خونزیزی نہ ہو، سیاست دان تند وتیز بیانات دینے سے گریز کریں۔ سیاست دان، دینی و مذہبی جماعتون کے قائدین، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مل کر سیاسی سیل رواں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ملک کسی قسم کی ٹریجڈی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے سیاست دان باہمی گفتگو، مشاورت اور صلح جوئی سے حل نہ کرسکیں۔

اہل سیاست اور طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھ کر سیاسی تصادم کا ہر امکان ختم کرنے کی امید پیدا کرنی چاہیے، گھر پھونک تماشا دیکھنے کا وقت نہیں۔ اس وقت سارے سیاست دان، علمائے کرام، دانشور، تجزیہ کار اور بااثر قوتیں ملک میں امن و استحکام کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ ملک داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹ رہا ہے، امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس دسمبر کے پہلے ہفتہ میں پاکستان آرہے ہیں، چین کے اہم وفد کی آمدہے، لہٰذا اس سے پہلے ملکی سیاسی درجہ حرارت میں فوری کمی قومی مفاد میں ہے۔
Load Next Story