جمہوری دروازے بند کیوں
ن لیگ کی موجودہ حکومت اور مسلم لیگ ن سے پیپلزپارٹی کے ملنے کے دروازے بند نہیں کیے۔
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ جو جمہوریت میں بات چیت کے دروازے بند کردے وہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر سیاست دان نہیں ہوسکتا ۔
یہ بات انھوں نے آصف علی زرداری کے بیان کے جواب میں کہی کہ میرے دروازے دھوکے بازیوں کے باعث نواز شریف پر بند ہوچکے ہیں اور میں ان سے فون پر بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ بھی شکر ہے کہ سابق صدر نے نواز شریف سے بات چیت کے دروازے بند کیے ہیں۔
ن لیگ کی موجودہ حکومت اور مسلم لیگ ن سے پیپلزپارٹی کے ملنے کے دروازے بند نہیں کیے۔ رہے عمران خان تو آصف زرداری نے ان کے سنگین الزامات کے باوجود ان کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے اور ویسے بھی عمران خان نے سابق صدر سے ملنے یا نہ ملنے کی کوئی بات نہیں کی اور کئی ماہ سے پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے بھی نواز شریف کی نا اہلی کے بعد آپس میں ملنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ پی ٹی آئی نے خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش ناکام ہوجانے کے بعد خود پیپلزپارٹی سے دوری اختیار کر رکھی ہے ویسے سیاسی مفاد ہو تو پی ٹی آئی اپنی سابقہ شدید مخالف ایم کیو ایم سے ملنے ان کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے یا عمران خان خورشید شاہ کے پیچھے بھی پریس بریفنگ میں کھڑا ہونا گوارا کرلیتے ہیں، جو ایک اچھی بات ہے، سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں میں نہ ملنے کی انا ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ جمہوریت میں سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کے باہمی رابطے اور ملاقاتوں سے ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔
نواز شریف نے تو اپنی شرافت کے باعث آصف زرداری اور عمران خان کے خلاف اپنی تقریروں میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے جیسے ماضی سے ان کے خلاف عمران خان استعمال کرتے آرہے ہیں اور اب عمران خان اپنے تمام جلسوں میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ زبان آصف زرداری، نواز شریف یا کسی اور رہنما نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کی، البتہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ اور آصف زرداری، نواز شریف کو لندن میں چھپا ہوا شیر یا نقلی شیر ضرور کہہ دیتے ہیں اور آصف زرداری عمران خان کو خان نہیں مانتے اور عمران نیازی قرار دیتے ہیں اور میاں شہباز شریف عمران خان کو نیازی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔
سیاست میں اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے کی ابتدا سترکی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جلسوں سے کی تھی اور پھر ان ہی مخالفین کو صلح کے بعد سفارت اور وزارت بھی دے دی تھی جن میں ممتاز دولتانہ اور خان عبدالقیوم خان شامل تھے۔
جمہوریت مادر پدر آزادی کا نام نہیں بلکہ برداشت اور رواداری کا نام ہے اور ایک دوسرے کی عزت بھی لازم ہے۔ کہتے ہیں جمہوریت میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کیے جاتے اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ 2013 کے انتخابات کے آخری دنوں میں عمران خان اسٹیج سے گرگئے تھے تو نواز شریف نے اسپتال جاکر ان کی نہ صرف عیادت کی تھی بلکہ اپنی انتخابی مہم ایک روز کے لیے منسوخ کردی تھی اور پھر وزیراعظم بن کر عمران خان سمیت تمام قومی رہنماؤں کی اہم قومی مسئلے پر وزیراعظم ہاؤس میں میزبانی بھی کی تھی جس میں عمران خان مجبوری میں شریک ہوئے تھے۔
گزشتہ چند سالوں سے ملکی سیاست میں تلخیاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور عمران خان نے کرپشن کے نام پر نواز شریف کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب آصف علی زرداری کو للکارا ہے۔ آصف زرداری احتساب عدالتوں سے رہائی کے بعد مطمئن تو ہیں مگر عمران خان اپنے جلسوں میں کرپشن کے سنگین الزامات عائد کررہے ہیں جب کہ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی نے بھی عمران خان پر الزام عائد کیا ہے کہ بنی گالا کے اخراجات اور جہانگیر ترین کے جہاز کے تمام اخراجات کے پی کے میں ہونے والی کرپشن کی رقم سے پورے کیے جارہے ہیں۔
پی پی کے اس سنگین الزام کے جواب میں عمران خان یا پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب سامنے نہیں آیا اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی 9 سالہ مبینہ کرپشن کو بنیاد بناکر اب عمران خان نے دسمبر سے پیپلزپارٹی اور اس کی سندھ حکومت کے خلاف سندھ میں لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔جس کے جواب میں پیپلزپارٹی بھی کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کی مبینہ کرپشن بے نقاب کرنا شروع کرے گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کے پی کے میں اپنی حکومت کی مبینہ کرپشن کی خبروں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ کے پی کے میں اپنا ہی قائم کردہ احتساب کمیشن ختم کراچکے ہیں جس پر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جے یو آئی ودیگر جماعتیں کڑی تنقید کرتی آرہی ہیں مگر ملک بھر میں کرپشن کے خلاف احتجاج اور تقریریں کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی حلیف حکومت پر عائد ہونے والے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ کے پی کے میں مبینہ کرپشن کی تردید یا تائید بھی نہیں کررہے۔
عمران خان ملک بھر میں تنہا پرواز جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی مخالف کسی جماعت کو معاف کرنے پر یقین نہیں رکھتے بس جماعت اسلامی ان کی تنقیدی تقاریر سے محفوظ ہے۔ جماعت اسلامی ہر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے مقابلے پر آکر اپنے ووٹ بینک کے مسلسل کم ہونے کا ثبوت دے رہی ہے اور کے پی کے میں سیاسی مفادات کے حصول میں مصروف ہے اور وہی عمران خان کی ایک اہم سیاسی جماعت رہ گئی ہے۔ عمران خان اب آصف زرداری کے پیچھے پڑگئے ہیں۔
ایم کیو ایم کے خلاف وہ کچھ نہیں بول رہے شاید انھیں سندھ میں ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری عمران خان پر اعتماد نہیں کرتے اور اسی لیے وہ مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر اپنی عارضی سیاست کو فروغ دیتے ہیں اور اچانک بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ویسے بھی وہ پنجاب میں بھی سیاسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں مگر انھوں نے مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی اور جماعت کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے مگر عمران خان نے اپنی تحریک انصاف کی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی جیسی قابل ذکر پارٹیوں سے محاذ آرائی جاری رکھی ہوئی ہے اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کو وہ اہمیت ہی نہیں دیتے ملک میں جو سیاسی فضا کشیدہ ہوچکی ہے اس سے سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ان میں باہمی ڈائیلاگ کی توقع دم توڑتی جا رہی ہے اور سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے پر دروازے بند کرنا جمہوریت ہی نہیں ملک کے لیے بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا۔
یہ بات انھوں نے آصف علی زرداری کے بیان کے جواب میں کہی کہ میرے دروازے دھوکے بازیوں کے باعث نواز شریف پر بند ہوچکے ہیں اور میں ان سے فون پر بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ بھی شکر ہے کہ سابق صدر نے نواز شریف سے بات چیت کے دروازے بند کیے ہیں۔
ن لیگ کی موجودہ حکومت اور مسلم لیگ ن سے پیپلزپارٹی کے ملنے کے دروازے بند نہیں کیے۔ رہے عمران خان تو آصف زرداری نے ان کے سنگین الزامات کے باوجود ان کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے اور ویسے بھی عمران خان نے سابق صدر سے ملنے یا نہ ملنے کی کوئی بات نہیں کی اور کئی ماہ سے پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے بھی نواز شریف کی نا اہلی کے بعد آپس میں ملنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ پی ٹی آئی نے خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش ناکام ہوجانے کے بعد خود پیپلزپارٹی سے دوری اختیار کر رکھی ہے ویسے سیاسی مفاد ہو تو پی ٹی آئی اپنی سابقہ شدید مخالف ایم کیو ایم سے ملنے ان کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے یا عمران خان خورشید شاہ کے پیچھے بھی پریس بریفنگ میں کھڑا ہونا گوارا کرلیتے ہیں، جو ایک اچھی بات ہے، سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں میں نہ ملنے کی انا ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ جمہوریت میں سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کے باہمی رابطے اور ملاقاتوں سے ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔
نواز شریف نے تو اپنی شرافت کے باعث آصف زرداری اور عمران خان کے خلاف اپنی تقریروں میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے جیسے ماضی سے ان کے خلاف عمران خان استعمال کرتے آرہے ہیں اور اب عمران خان اپنے تمام جلسوں میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ زبان آصف زرداری، نواز شریف یا کسی اور رہنما نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کی، البتہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ اور آصف زرداری، نواز شریف کو لندن میں چھپا ہوا شیر یا نقلی شیر ضرور کہہ دیتے ہیں اور آصف زرداری عمران خان کو خان نہیں مانتے اور عمران نیازی قرار دیتے ہیں اور میاں شہباز شریف عمران خان کو نیازی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔
سیاست میں اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے کی ابتدا سترکی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جلسوں سے کی تھی اور پھر ان ہی مخالفین کو صلح کے بعد سفارت اور وزارت بھی دے دی تھی جن میں ممتاز دولتانہ اور خان عبدالقیوم خان شامل تھے۔
جمہوریت مادر پدر آزادی کا نام نہیں بلکہ برداشت اور رواداری کا نام ہے اور ایک دوسرے کی عزت بھی لازم ہے۔ کہتے ہیں جمہوریت میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کیے جاتے اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ 2013 کے انتخابات کے آخری دنوں میں عمران خان اسٹیج سے گرگئے تھے تو نواز شریف نے اسپتال جاکر ان کی نہ صرف عیادت کی تھی بلکہ اپنی انتخابی مہم ایک روز کے لیے منسوخ کردی تھی اور پھر وزیراعظم بن کر عمران خان سمیت تمام قومی رہنماؤں کی اہم قومی مسئلے پر وزیراعظم ہاؤس میں میزبانی بھی کی تھی جس میں عمران خان مجبوری میں شریک ہوئے تھے۔
گزشتہ چند سالوں سے ملکی سیاست میں تلخیاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور عمران خان نے کرپشن کے نام پر نواز شریف کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب آصف علی زرداری کو للکارا ہے۔ آصف زرداری احتساب عدالتوں سے رہائی کے بعد مطمئن تو ہیں مگر عمران خان اپنے جلسوں میں کرپشن کے سنگین الزامات عائد کررہے ہیں جب کہ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی نے بھی عمران خان پر الزام عائد کیا ہے کہ بنی گالا کے اخراجات اور جہانگیر ترین کے جہاز کے تمام اخراجات کے پی کے میں ہونے والی کرپشن کی رقم سے پورے کیے جارہے ہیں۔
پی پی کے اس سنگین الزام کے جواب میں عمران خان یا پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب سامنے نہیں آیا اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی 9 سالہ مبینہ کرپشن کو بنیاد بناکر اب عمران خان نے دسمبر سے پیپلزپارٹی اور اس کی سندھ حکومت کے خلاف سندھ میں لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔جس کے جواب میں پیپلزپارٹی بھی کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کی مبینہ کرپشن بے نقاب کرنا شروع کرے گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کے پی کے میں اپنی حکومت کی مبینہ کرپشن کی خبروں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ کے پی کے میں اپنا ہی قائم کردہ احتساب کمیشن ختم کراچکے ہیں جس پر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جے یو آئی ودیگر جماعتیں کڑی تنقید کرتی آرہی ہیں مگر ملک بھر میں کرپشن کے خلاف احتجاج اور تقریریں کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی حلیف حکومت پر عائد ہونے والے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ کے پی کے میں مبینہ کرپشن کی تردید یا تائید بھی نہیں کررہے۔
عمران خان ملک بھر میں تنہا پرواز جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی مخالف کسی جماعت کو معاف کرنے پر یقین نہیں رکھتے بس جماعت اسلامی ان کی تنقیدی تقاریر سے محفوظ ہے۔ جماعت اسلامی ہر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے مقابلے پر آکر اپنے ووٹ بینک کے مسلسل کم ہونے کا ثبوت دے رہی ہے اور کے پی کے میں سیاسی مفادات کے حصول میں مصروف ہے اور وہی عمران خان کی ایک اہم سیاسی جماعت رہ گئی ہے۔ عمران خان اب آصف زرداری کے پیچھے پڑگئے ہیں۔
ایم کیو ایم کے خلاف وہ کچھ نہیں بول رہے شاید انھیں سندھ میں ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری عمران خان پر اعتماد نہیں کرتے اور اسی لیے وہ مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر اپنی عارضی سیاست کو فروغ دیتے ہیں اور اچانک بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ویسے بھی وہ پنجاب میں بھی سیاسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں مگر انھوں نے مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی اور جماعت کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے مگر عمران خان نے اپنی تحریک انصاف کی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی جیسی قابل ذکر پارٹیوں سے محاذ آرائی جاری رکھی ہوئی ہے اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کو وہ اہمیت ہی نہیں دیتے ملک میں جو سیاسی فضا کشیدہ ہوچکی ہے اس سے سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ان میں باہمی ڈائیلاگ کی توقع دم توڑتی جا رہی ہے اور سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے پر دروازے بند کرنا جمہوریت ہی نہیں ملک کے لیے بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا۔