زبانِ یار ِ مَن تُرکی……

انقرہ میں جس ادارے کا بھی دورہ کیا اُس کے سربراہ کو اچھی شخصیّت کا مالک اور خوش لباس و خوش کلام پایا۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

کونیہ سے ہم سڑک کے راستے انقرہ کے لیے روانہ ہوئے اور ساڑھے تین گھنٹے میں انقرہ پہنچ گئے، سڑک کے دونوں جانب فصلیں کٹ چکی تھیں اس لیے ہریالی نہیں تھی، اپنی موٹروے کے دونوں جانب ہرے بھرے کھیتوں اور باغات کے دیدہ زیب مناظربہت یاد آئے، ایسے خوبصورت مناظر دنیا کے چند ممالک میں ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم نے ہوٹل میں سامان رکھا اور لابی میں آکر صبح کا پروگرام طے کیا۔ سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے تمام لوگ اپنے اپنے کمروں میں جلدی سونے کے لیے چلے گئے۔

اگلی صبح ناشتے کے فورََا بعد سب لوگ لابی میں پہنچ گئے جہاں ہم اکھٹے ہو کرجعفر کی معیّت میں TIKA کے مرکزی دفتر کے لیے روانہ ہوئے،ٹیکا کے مرکزی دفتر میں نائب صدر اور ساؤتھ ایشیا کے متعلقہ حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا کہ یہاں معاملہ بالکل مختلف ہے، پاکستان کی محبت روایتی قوائدوضوابط اور پروٹوکول پر حاوی ہے، یہاں مذاکرات کا روایتی انداز اور کاروباری طریقۂ کار نہیں ہے۔ یہ کوئے یار ہے یہاں پیار کی حدّت اور جذبات کی شدّت کے آگے کوئی چیز نہیں ٹھہرسکتی۔ وائس پریزیڈنٹ جناب سوریا اور ڈاکٹر رحمان نوردن ترکی میں بات کررہے تھے، مترجم ترجمہ نہ بھی کرتا تو بھی ہم مفہوم بخوبی سمجھ رہے تھے۔

بڑے گرمجوش معانقوں کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوئے۔ ہماری اگلی ملاقات وزیر تعلیم سے تھی جن کی وزارت پورے ٹیکنیکل اور ووکیشنل سیکٹر کی انچارج ہے۔منسٹرانچارج پروفیسر ڈاکٹر اورہان اردم بڑی گرمجوشی سے ملے اور بیٹھتے ہی کہنے لگے''ملکوں کے تعلقات میں جذبات کا کوئی دخل نہیں ہوتا مگر پاکستان اس اصول سے مستثنیٰ ہے، پاکستان کا نام جہاں بھی آتا ہے ہم جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور اسی کیفیّت میں فیصلے کرتے ہیں''۔ راقم نے کہا اِس طرف بھی ایسا ہی حال ہے۔ محبّت اور عقیدت کی حدّت ہماری جانب بھی کم نہیں، جذبات دونوں طرف ایک جیسے ہیں۔ راقم نے وزیر صاحب کوپاکستان میں TVET (فنّی تعلیم و تربیّت) کی صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کیا اور پھر برادر ترکی کی ترقی پر اظہار ِ مسّرت کرتے ہوئے کہا ترکی کی ترّقی ہمارے لیے انتہائی مسّرت و افتخار کا باعث ہے، اسے ہم اپنی ہی ترّقی سمجھتے ہیں۔

ترکی میں پاکستان کے سفیر سائرس سجاد قاضی صاحب بھی وہیں پہنچ گئے اور ان سے بھی ملاقات ہو گئی۔ وزیر صاحب نے بڑی پرتکلّف چائے کا اہتمام کررکھا تھا مگر ان کا دفتر کیک پیسٹریوں اور مفرحّات سے زیادہ محبت کی خوشبو سے معطر تھا۔ ملاقات ختم ہوئی تو وزیر صاحب ہمارے ساتھ بلڈنگ سے نیچے اترے اور ہماری گاڑی تک چھوڑنے کے لیے آئے، اس کے بعد ہم پروگرام کے مطابق انقرہ کا پروفیشنل اور ٹیکنیکل کالج دیکھنے کے لیے چلے گئے۔کالج کے ڈائریکٹر ابراہیم اوکان نے ہمیں کلاس روم اور ورکشاپس کا دورہ کرایا جہاں، پلمبنگ، ویلڈنگ، وڈورک، آئی ٹی سمیت گیارہ ٹریڈز میں تربیّت دی جاتی ہے۔ طلبا وطالبات کو تھری ڈی پرنٹر پر تھری ڈی ماڈلز تیار کرنے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔

اس کے بعد ہمیں خواتین کے ایک ووکیشنل ادارے کا دورہ کرایا گیا، جسکی سربراہ مس نازاں نامی ایک بارعب خاتون تھیں۔ اس ادارے میں ایک طرف فیشن ڈیزاننگ، کوکنگ اور بیکنگ کی ٹریننگ دی جاتی ہے تو دوسری طرف گرافک ڈیزاننگ اور جوتے بنانے کی تربیّت بھی دی جاتی ہے۔ مس نازاں کی سیکنڈاِن کمانڈ مس شاداں بھی ساتھ ساتھ رہیں۔ وہ بڑی لحیم شعیم خاتوں تھیں اس ادارے میں صرف ایک مرد انسٹرکٹر نظر آیا ، میں نے مس نازاں اور مس شاداں سے کہاآپ دونوںخواتین کے رعب اور خوف سے یہ واحد مرد ٹیچر سہما سہما سا اور خوفزدہ سا لگ رہا ہے، آپ سے درخواست ہے کہ اس پر دستِ شفقت رکھیں، دونوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور مس نازاں نے کہا آپ فکر نہ کریں میں اس کا اپنے بیٹوں کیطرح خیال رکھتی ہوں۔

میرا بھتیجا ابوبکر بھی انقرہ کی Bilkent یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے۔ میں شام کو اسے ملنے کے لیے یونیورسٹی چلا گیا، پرائیوٹ سیکٹر کی یہ یونیورسٹی رینکنگ میں ترکی میں پہلے نمبر پر اور یورپ اور ایشیاء میں پہلی پندرہ یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کی عمارت ہزاروں ایکٹر پر مشتمل ہے۔ یہ ترکی کے ایک معروف بزنس مین جناب احسان دوداماجی نے 1984 میں قائم کی تھی۔ یونیورسٹی کے بانی نے 60 ارب کی رقم یونیورسٹی میں ریسرچ کے لیے مختص کر دی ہے۔ جہاں آجکل کمیونیکیشنز، انڈر واٹر ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، اکنامک اسٹرٹیجی، ڈیفنس، سیکوریٹی اور کئی دیگر سیکٹرز میں اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ انڈسٹری اور سیکوریٹی اداروں کی ضروریات کے لیے بھی بل کینٹ یونیورسٹی ریسرچ سینٹر کا کام کرتی ہے۔


ابو بکر کیڈٹ کالج حسن ابدال کا فارغ التحصیل ہے وہاں بھی وہ بڑا سوشل تھا، میں اس کے ہوسٹل پہنچا تو اس کے ساتھ اس کے دوستوں کے گروپ سے بھی ملاقات ہوئی۔ پاکستان سے آئے ہوئے تمام نوجوان طالبِ علم بڑے ذہین اور قابل نظر آئے۔ انھوں نے ملکی اور بین الاقوامی امور پر بڑے اچھے سوالات کیے، راقم انھیں بار بار اس بات کی تلقین کرتا رہا کہ آپ کے والدین کی آپ سے بڑی توقعات ہیں، انھیں مایوس نہ کرنااور دوسرا یہ کہ آپ یہاں پاکستان کے سفیر بھی ہیں،آپ کا ہزاروں ترک طلباء سے واسطہ پڑتا ہے، ترک قوم پاکستان سے بڑی محبت کرتی ہے، آپ کے طرزِ عمل سے ان کے دل میں پاکستان کی عزّت کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھنی چاہیے۔نوجوان طلباء کے ساتھ رات گئے تک گپ شپ رہی۔ ابوبکر نے مجھے یونیورسٹی کا مختصر سا راؤنڈ بھی لگوایا۔اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی دیکھکر خوشی بھی ہوئی اور رشک بھی کہ کاش ہم بھی۔۔۔۔

انقرہ میں جس ادارے کا بھی دورہ کیا اُس کے سربراہ کو اچھی شخصیّت کا مالک اور خوش لباس و خوش کلام پایا۔ اسکول ہوں ،کالج ہوں یا فنّی تربیّت کے ادارے ہر جگہ دفتروں، گیلریوںاور کلاس روموں میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے بڑے بڑے پورٹریٹ اور ان کی تقریروں کے اقتباسات آویزاں ہیں۔ اتا ترک کی خدمات کا سب اعتراف کرتے ہیں۔

ساٹھ لاکھ آبادی کے شہر انقرہ میں ٹرانسپورٹ کا بڑا شاندار نظام ہے، میٹرو بھی ہے اور ٹرام ٹرین بھی چلتی ہے۔ کسی بھی چوک پر ٹریفک کا اژدھام نہیں ہوتا، بہاؤ رکتا نہیں، رواں دواں رہتا ہے۔ ترکی میں تیروں کی طرح نوکدار چار میناروں والی انتہائی خوبصورت مساجد بڑی تعداد میں ہیں۔ مساجد کی تعمیر اور وہاں امام اور خطیب کی تعیناتی اور تنخواہ وغیرہ کے تمام انتظامات موجودہ حکومت نے اپنے ذمّے لے لیے ہیں، حکومت نے بڑے خوش الحان موذّن اور امام تعیّنات کیے ہیں، میں نے رات کو ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی کے پردے ہٹائے تو بالکل سامنے مسجد کی دیدہ زیب عمارت اور اس کے چاروں طرف چوکس محافظوں کی طرح کھڑے چار مینار نظر آئے، بوقتِ سحر اذان ہی کی آوازنے مجھے بیدار کیا، میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھا تو بالکل سامنے والی مسجد سے اذان کی آواز گونج رہی تھی، سوئے ہوؤں کو بیدار کرنے والی آواز، خالق و مالک کے حضور حاضری دینے کی آواز، میں نے فوراً وضو کیا، جیکٹ پہن کر گیارہویں منزل سے نیچے اترا ، ریسیپشن پر کھڑے ترک سے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور مرکزی دروازہ کھول کر سڑک پار کرگیا۔

مسجد کے سامنے پہنچا تو ایک گاڑی آکر رکی، اس میں سے پتلون کوٹ پہنے ایک جواں سال شخص نکلا، مجھے السلام علیکم کہا ، میں نے بھی بڑے جوش سے وعلیکم السلام کہا اور ہم دونوں مسجد میں داخل ہوگئے۔ سُنتّیں ادا کرنے کے بعد غور سے دیکھا تو وہی شخص گاؤن اور ٹوپی پہن کر امامت کے لیے محراب کیجانب بَڑھ رہا تھا، اس کے ساتھ بھی مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، نماز شروع ہوئی تو میں اس کی روح میں اترتی ہوئی تلاوت میں کھوگیا۔ دل چاہتا تھا وہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ کا کلام پڑھتا رہے اور ہم سنتے رہیں اور ہمارے دلوں کے تار اسی طرح ہلتے رہیں۔ مکّہ اور مدینہ کے علاوہ کہیں بھی نمازِ فجر کا اتنا سرور نہیں آیا جتنا انقرہ کی اس عام سی مسجد میں ملا ۔

دوسرے روز ہمارے لیے عشائیے کا اہتمام ٹِیکا کے وائس پریذیڈنٹ جناب ڈاکٹر بیرول چیتن کی طرف سے کیا گیا تھا، ڈاکٹر صاحب ایک عالم فاضل اور صاحبِ دانش شخص ہیں اور پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، جب انھیں معلوم ہوا کہ ہم حضرت مولانا کے مزار پر حاضری دیکر آئے ہیں تو بہت خوش ہوئے،کھانے کے دوران رومی اور اقبال پر بہت باتیں ہوئیں، راقم بھی چونکہ فکر ِ اقبال کا خوشہ چیں ہے، اس لیے اقبال ؒ کے ترکوں کے بارے میں کہے گئے جو اشعار یاد تھے، وہ اپنے میزبانوں کے ساتھ شئیر کر تا رہا۔ ڈاکٹر چیتن کے ساتھ پاکستان میں فنّی ہنر مندی کے شعبے کو مضبوط کرنے کی اہمیّت اور ضروریات پر بھی بات چیت ہوئی ۔ انھوں نے اپنے تعاون کے بارے میں ڈائریکٹر ڈاکٹر رحمان کو ترکی زبان میں عندیہ دے دیا، ہمیں زبان تو سمجھ نہ آئی لیکن گرمجوشی اور محبتّ کے جذبوں کی حدّت سے سب کچھ محسوس ہو تا رہا۔

جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کا ہر جگہ ذکر بھی سنتے رہے اور اس کے نشانات بھی نظر آتے رہے۔ انقرہ کی بڑی شاہراہ پر چلتے ہوئے جعفر بتاتا رہا '' یہ وہ پولیس ہیڈ کوارٹر ہے جس پر باغیوں نے بمباری کی تھی، یہ وہ ٹی وی اسٹیشن ہے جس پر باغیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس بغاوت کی مزاحمت میں جانوں کی قربانیاں دینے والوں کے جگہ جگہ فوٹو اور پورٹریٹ لگے ہوئے ہیں، کہیں اُس سولین ہیرو کے فوٹو ہیں جو آہنی ٹینکوں کے آگے لیٹ گیا اور اپنے ملک کے مستقبل کے خاطر جان دے دی اور کہیں اُس فوجی افسر کے فوٹو ہیں جس نے بغاوت کے اہم لیڈر ایک سینئر فوجی کمانڈر کو ہلاک کیا اور خود بھی جان سے ہار گیا''۔

بلاشبہ ترک عوام بیمثال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانوں کے پردے پھاڑتے ہوئے جہازوں اور آہنی ٹینکوں کے آگے سینہ سپر ہوگئے مگر یہ بلاوجہ نہیں ہو ا عوام کے اس تاریخ ساز کارنامے کے پیچھے ان کے رہنما طیّب اردوان کی ملک اور قوم کے لیے بے مثال خدمات اور ان کی جرأتمندانہ قیادت کا ر فرما تھی۔ ترک عوام صرف طیّب اردوان جیسے قد آور قائد کی کال پر ہی لبیک کہہ کر ٹینکوں کا رخ موڑسکتے ہیں، کسی اور ملک کا کوئی اور سیاسی لیڈر ایسی کال دے تو شائد عوام جانیں ہتھیلی پر رکھ کر باہرنکلنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
Load Next Story