نواز شریف کا لب ولہجہ
یہ تلخی محض فیصلے تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ براہ راست فیصلہ کرنے والے فریقین کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھارہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ)ن(کے سربراہ ابھی تک اپنے خلاف نااہلی کے عدالتی فیصلے سے باہر نہیں نکل سکے۔نواز شریف کا لب ولہجہ بتارہا ہے کہ وہ نہ صرف صدمے کی حالت میں ہیں بلکہ اس کو سیاسی و قانونی طور پر بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے لہجہ میں تلخی بڑھ رہی ہے۔یہ تلخی محض فیصلے تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ براہ راست فیصلہ کرنے والے فریقین کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھارہے ہیں۔
حالیہ ایک بیان میں انھوں نے ایک دفعہ پھر اپنی نااہلی اور جاری مقدمات کے حوالے سے کافی تلخ باتیں کی ہیں۔ اول انھوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت اور ججوں پر دوہرے معیار کا الزام لگایا ہے۔ان کے بقول ان کے ساتھ عدالت اور ججز انصاف نہیں بلکہ انتقام لے رہے ہیں۔دوئم ان کے بقول عدالتی فیصلوں اور ریمارکس میں ججز جو کچھ کہہ رہے ہیں یا جو ذبان استعمال کی جارہی ہے وہ وہی زبان ہے جو ان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔سوئم ان کے خلاف جو احتساب کا عمل جاری ہے وہ ڈرامہ ہے اور اس کا مقصد جبری بنیادوں پر ان کو سزا دلوانا ہے۔ چہارم یہ جو کچھ ہمارے خلاف ہورہا ہے یا جو سزا ہمیں دی جارہی ہے وہ سزا عدالت دے نہیں رہی بلکہ ان سے جبری بنیادوں پر کوئی اور دلوارہا ہے، یقینی طور پر ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔پنجم ان کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل نہ کرنے یا ان کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز اسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں پر اپنا مقدمہ سیاسی مخالفین، اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سمیت عدلیہ کے خلاف پیش کررہے ہیں۔ مریم نواز جو خود بھی جارحانہ مزاج رکھتی ہیں کے بقول ہم ابھی خاموش ہیں اور اگر ہماری زبان کھلی تو پس پردہ قوتیں یا ادارے بے نقاب ہونگے اور ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔نواز شریف اور مریم نواز کو اپنے سیاسی مخالفین سمیت اداروں سے تو گلہ ہی ہے، لیکن اب بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ان کی اپنی جماعت ان کی مزاحمت میں اس انداز سے ان کے ساتھ نہیں کھڑی جیسے وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ نواز شریف کو پارٹی کی مجموعی طاقت سے یہ ہی پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی اس نااہلی کے فیصلے کو قبول کرکے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔
لیکن نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو ان پر اورزیادہ دباؤ بڑھے گا' اس وقت وہ نااہلی کے بعد دوبارہ پارٹی کے صدر بنے ہیں اور وزیر اعظم کو بھی کنٹرول میں کیے ہوئے ہیں۔ اب حکمران جماعت اور خود نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو بھی راضی رکھا جائے اوراداروں کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ان سے ٹکراو نہیں چاہتے ۔لیکن یہ عمل کسی تضاد کے ساتھ ممکن نہیں ۔کیونکہ اس وقت حکومت عملی طور پر نواز شریف کے دباو کی وجہ سے ایک بڑی سیاسی الجھن کا شکار ہے کہ وہ کیا کچھ ایسا کرے کہ دونوں کو راضی رکھا جاسکے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا لہجہ بدستور روزانہ کی بنیاد پر خود حکومت کو بھی اداروں کے سامنے ایک کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے۔نواز شریف اور مریم نے جو انداز اختیار کیا ہوا ہے اس سے خود اداروں کہ اپنے اندر بھی ان کے لیے نرم گوشہ کم اور سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔
اس لیے جو لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اداروں کے طرز عمل میں بھی تلخی ہے اس کی وجہ بھی جوابی ردعمل کی سیاست ہے۔مسلم لیگ )ن(میں چوہدری نثار اور شہباز شریف سمیت جنہوں نے بھی نواز شریف کو مفاہمت کا مشورہ دیا ان پر اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی ہونے کا نعرہ لگایا گیا۔چوہدری نثار کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے،لیکن یہ چوہدری نثار جب اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان ایک مفاہمت کار کا کردار اد ا کرتے تھے تو نواز شریف کے لاڈلے بھی سمجھے جاتے تھے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز بغیر کسی تفریق کے براہ راست عدلیہ، ججوں، نیب، اداروں کے سربراہان سمیت اسٹیبلشمنٹ پر کھل کر تنقید کررہے ہیں تو اس سے اداروں کے ساتھ ٹکراو کی پالیسی سے کیسے گریز کیا جائے گا۔جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ نواز شریف اداروں سے ٹکراو کی پالیسی نہیں اختیار کریں گے، ان کو بھی ناکامی کا سامنا ہے۔اگرچہ مسلم لیگ ابھی نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے، لیکن اس متحد ہونے کے پیچھے بھی کئی کہانیاں سیاسی محاذ پر زیر بحث ہیں۔ ایک تقسیم تو بظاہر سب دیکھ رہے ہیں۔
یہ جو تقسیم کے عمل سے بچے ہوئے ہیں اس کی وجہ ابھی اس جماعت کی حکومت میں موجودگی ہے، نواز شریف کے ساتھ ان کا اقتدار بھی ختم ہوتا تو صورتحال کافی مختلف ہوسکتی تھی۔نواز شریف کو اگر لگتا ہے کہ قانون اور قانونی ادارے ان کے ساتھ انصاف نہیں کررہے تو اس کا راستہ بھی قانون کے اندر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ یہ حکمت عملی درست نہیں کہ قانونی اداروں کی ساکھ کو بنیاد بنا کر ایسا بحران پیدا کیا جائے۔ جو ایک بڑے قانونی اور سیاسی بحران کو پیدا کرنے کا سبب بنے۔نواز شریف کہ وہ ساتھی جو ان کو بار بار مزاحمت کی طرف لارہے ہیں وہ نہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی اس موجودہ حکومت یا سیاسی نظام کے۔نواز شریف اگر اپنی اسی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر کاربند رہے اوراسی تلخی کے انداز میں اپنے خیالات پیش کرتے رہے تو اس سے ان کی موجودہ مشکلا ت کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی۔
حالیہ ایک بیان میں انھوں نے ایک دفعہ پھر اپنی نااہلی اور جاری مقدمات کے حوالے سے کافی تلخ باتیں کی ہیں۔ اول انھوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت اور ججوں پر دوہرے معیار کا الزام لگایا ہے۔ان کے بقول ان کے ساتھ عدالت اور ججز انصاف نہیں بلکہ انتقام لے رہے ہیں۔دوئم ان کے بقول عدالتی فیصلوں اور ریمارکس میں ججز جو کچھ کہہ رہے ہیں یا جو ذبان استعمال کی جارہی ہے وہ وہی زبان ہے جو ان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔سوئم ان کے خلاف جو احتساب کا عمل جاری ہے وہ ڈرامہ ہے اور اس کا مقصد جبری بنیادوں پر ان کو سزا دلوانا ہے۔ چہارم یہ جو کچھ ہمارے خلاف ہورہا ہے یا جو سزا ہمیں دی جارہی ہے وہ سزا عدالت دے نہیں رہی بلکہ ان سے جبری بنیادوں پر کوئی اور دلوارہا ہے، یقینی طور پر ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔پنجم ان کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل نہ کرنے یا ان کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز اسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں پر اپنا مقدمہ سیاسی مخالفین، اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سمیت عدلیہ کے خلاف پیش کررہے ہیں۔ مریم نواز جو خود بھی جارحانہ مزاج رکھتی ہیں کے بقول ہم ابھی خاموش ہیں اور اگر ہماری زبان کھلی تو پس پردہ قوتیں یا ادارے بے نقاب ہونگے اور ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔نواز شریف اور مریم نواز کو اپنے سیاسی مخالفین سمیت اداروں سے تو گلہ ہی ہے، لیکن اب بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ان کی اپنی جماعت ان کی مزاحمت میں اس انداز سے ان کے ساتھ نہیں کھڑی جیسے وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ نواز شریف کو پارٹی کی مجموعی طاقت سے یہ ہی پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی اس نااہلی کے فیصلے کو قبول کرکے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔
لیکن نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو ان پر اورزیادہ دباؤ بڑھے گا' اس وقت وہ نااہلی کے بعد دوبارہ پارٹی کے صدر بنے ہیں اور وزیر اعظم کو بھی کنٹرول میں کیے ہوئے ہیں۔ اب حکمران جماعت اور خود نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو بھی راضی رکھا جائے اوراداروں کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ان سے ٹکراو نہیں چاہتے ۔لیکن یہ عمل کسی تضاد کے ساتھ ممکن نہیں ۔کیونکہ اس وقت حکومت عملی طور پر نواز شریف کے دباو کی وجہ سے ایک بڑی سیاسی الجھن کا شکار ہے کہ وہ کیا کچھ ایسا کرے کہ دونوں کو راضی رکھا جاسکے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا لہجہ بدستور روزانہ کی بنیاد پر خود حکومت کو بھی اداروں کے سامنے ایک کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے۔نواز شریف اور مریم نے جو انداز اختیار کیا ہوا ہے اس سے خود اداروں کہ اپنے اندر بھی ان کے لیے نرم گوشہ کم اور سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔
اس لیے جو لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اداروں کے طرز عمل میں بھی تلخی ہے اس کی وجہ بھی جوابی ردعمل کی سیاست ہے۔مسلم لیگ )ن(میں چوہدری نثار اور شہباز شریف سمیت جنہوں نے بھی نواز شریف کو مفاہمت کا مشورہ دیا ان پر اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی ہونے کا نعرہ لگایا گیا۔چوہدری نثار کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے،لیکن یہ چوہدری نثار جب اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان ایک مفاہمت کار کا کردار اد ا کرتے تھے تو نواز شریف کے لاڈلے بھی سمجھے جاتے تھے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز بغیر کسی تفریق کے براہ راست عدلیہ، ججوں، نیب، اداروں کے سربراہان سمیت اسٹیبلشمنٹ پر کھل کر تنقید کررہے ہیں تو اس سے اداروں کے ساتھ ٹکراو کی پالیسی سے کیسے گریز کیا جائے گا۔جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ نواز شریف اداروں سے ٹکراو کی پالیسی نہیں اختیار کریں گے، ان کو بھی ناکامی کا سامنا ہے۔اگرچہ مسلم لیگ ابھی نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے، لیکن اس متحد ہونے کے پیچھے بھی کئی کہانیاں سیاسی محاذ پر زیر بحث ہیں۔ ایک تقسیم تو بظاہر سب دیکھ رہے ہیں۔
یہ جو تقسیم کے عمل سے بچے ہوئے ہیں اس کی وجہ ابھی اس جماعت کی حکومت میں موجودگی ہے، نواز شریف کے ساتھ ان کا اقتدار بھی ختم ہوتا تو صورتحال کافی مختلف ہوسکتی تھی۔نواز شریف کو اگر لگتا ہے کہ قانون اور قانونی ادارے ان کے ساتھ انصاف نہیں کررہے تو اس کا راستہ بھی قانون کے اندر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ یہ حکمت عملی درست نہیں کہ قانونی اداروں کی ساکھ کو بنیاد بنا کر ایسا بحران پیدا کیا جائے۔ جو ایک بڑے قانونی اور سیاسی بحران کو پیدا کرنے کا سبب بنے۔نواز شریف کہ وہ ساتھی جو ان کو بار بار مزاحمت کی طرف لارہے ہیں وہ نہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی اس موجودہ حکومت یا سیاسی نظام کے۔نواز شریف اگر اپنی اسی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر کاربند رہے اوراسی تلخی کے انداز میں اپنے خیالات پیش کرتے رہے تو اس سے ان کی موجودہ مشکلا ت کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی۔