بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے
آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا۔
1896ء سے 1901ء کے پانچ سال کے عرصے میں ہندوستان خشک سالی کا شکار رہا۔ جس نے ہلاکت انگیز قحط کو جنم دیا اور قحط نے بے شمار لوگوں کو بیمار اور ہلاک کردیا۔ اس پانچ سالہ انسانی المیے میں روزانہ 4700 افراد ہلاک ہوئے۔ ہر روز 1896ء سے1901ء تک ۔ ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 8250000 تھی ۔ 1896ء کے شروع میں جنوبی اور مغربی ہندوستان کے تین لاکھ مربع میل علاقے میں ایک بظاہر ختم نہ ہونے والی خشک سالی رونما ہوئی۔ 1896-98ء میں المیہ عروج کو پہنچا اور قحط پڑگیا۔جس میں 60 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
خشک سالی اور قحط نے اکسٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔ اس کے فوری بعد مزید دو سال جاری رہنے والی خشک سالی اور قحط میں2250000 افراد ہلاک ہوگئے۔ لاوارث لاشوں سے گلیاں بھری ہوئیں تھیں اور بچے بے گھر ہوگئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کے پاس محتاج خانوں میں پناہ لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ حکومتی امداد سے چلنے والی یہ جنتیں جلد ہی جرائم کے جہنموں میں بدل گئیں۔ یہاں جسم فروشی ہونے لگی نیز لاعلاج بیماریوں کا شکار لوگ بھی پناہ لینے لگے۔ کم عمر لڑکیوں سے جبراً جسم فروشی کروائی جاتی اور بغیر کسی معاوضے کے بے پناہ کام کروایا جاتا۔
ایک ہندوستانی محتاج خانے کا دورہ کرنے والی انگریز عورت نے اپنے گھر والوں کے نام ایک خط میں لکھا '' برے مر د فاحشہ عورتیں، معصو م بچیاں اور سادہ لوح بچے ایک ہی جگہ اکٹھے کردیے گئے تھے۔ بہت سے لوگ کوڑھ کا اور بہت سے لوگ ناقابل بیان امراض کا شکار تھے۔ خداوند ان محتاج خانوں اور امدادی کیمپوں میں جانے والی بچیوں پر رحم کرے'' پہلے تو ہندوستان کے شدید خشک سالی کے شکار علاقوں کے لوگ ہر کھائے جاسکنے والی شے کھا گئے۔
اس سے کئی سال پہلے روس میں قحط پڑا تھا تو لوگوں نے بھوک مٹانے کے لیے درختوں کی چھال، تنکے اور مٹی تک کھا لی تھی۔ ہندوستان میں بھوکے لوگوں نے تھوہر کے کانٹے اور پودے، جڑیں اور ہرطرح کے پھل کھا لیے، یہاں تک کہ انھوں نے گھاس بھی کھالی، روزگارختم ہوگیا۔ جن خوش قسمت لوگوں کو کام مل جاتا وہ 75 سینٹ ماہانہ کماتے تھے۔ گند م کی قیمت 3.60 ڈا لر بتیس کلو تھی۔ مرد کام کی تلاش میں پیدل چل کر میلوں دور واقع شہروں کو جاتے تھے۔ کام بہت تھا لیکن لوگ ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر دو یا تین سینٹ کے عوض سارا سارا دن جسمانی محنت کرواتے۔ جسمانی طور پر صحت مند اور مضبوط مرد تو محنت سکتے تھے لیکن نیم فاقہ زدہ لوگوں کے لیے محنت کر نا ناممکن تھا وہ تو کئی دونوں کے فاقے کی وجہ سے مشکل سے چل پھرسکتے تھے۔
بھوک نے طول پکڑا تو وہی ناگزیر نتیجہ نکلا، مردم خوری۔ جیسا کہ پوری انسانی تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے۔ جب انسان بھوک سے تقریباً پاگل ہوجاتے ہیں تو انسانی گوشت کھانے پر اترآتے ہیں۔ ایک ہمہ گیر قحط کے دوران لاشیں ہر طرف پڑی ہوتی ہیں اور گوشت کے اس طرح کے سر چشمے کو دیر تک نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ سعادت حسن منٹو لکھتا ہے ''دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی تمام مسئلوں کا باپ اس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اس وقت پردہ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مر د کی دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔'' یہ دونوں مسئلے جیسا کہ آپ جانتے ہیں دو مختلف قسم کی بھوک ہیں جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت جتنے معاشرتی، مجلسی، سیاسی اور جنگی مسائل نظر آتے ہیں۔ ان کے عقب میں یہ ہی دو بھوک جلوہ گرہیں موجودہ جنگ کا خونی پردہ اگر اٹھایا جائے تو لاشوں کے انبار کے پیچھے آپ کو ملک گیری کے بھوک کے سوا کچھ اور نظر نہیں آئے گا۔
بھوک کسی قسم کی بھی ہو بہت خطر ناک ہے، آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا۔ روٹی کے فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آکر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے۔ دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے بھوک گدا گری سکھاتی ہے بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے، بھوک عصمت فروشی پر مجبورکرتی ہے، بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے اس کا حملہ بہت شدید اس کا وار بہت بھر پور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی آج کے نئے مسائل بھی گرے ہوئے، کل کے پرانے مسائل سے بنیادی طور پر مختلف نہیں جو آج کی برائیاں ہیں گذری ہوئی کل ہی ان کے بیج بوئے تھے ۔ انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہیں جو غلطی ایک مر دکرتا ہے دوسرا بھی کرسکتا ہے غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کی کھیتوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔ ہمارے حالات عارضی بدحواسی کا نتیجہ ہیں۔
نطشے نے کہا تھا کہ تاریخ کبھی کبھی ہمارے راستے کا پتھر بن جاتی ہے اورکوئی بڑا تخلیقی کارنامہ انجام دینے کے لیے بعض اوقات تاریخ کو بھولنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ معروف ادیب کرسٹوفرایشروڈ لکھتا ہے اسے سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اس کا تعلق انسانوں سے ہے انسانوں سے انسانی زندگی ہے، زندہ حقیقی مردوں اور عورتوں سے گوشت اور خون سے، مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے انسانوں کے مسئلے بیشتر مشتر ک ہوتے ہیں۔ ایک سے دکھ سکھ، ایک سی امیدیں اور مایوسیاں، ایک سے خواب اور ایک سی ہزیمتیں، ہمارے ملک میں ایک طرف و ہ لوگ ہیں جن کی دولت اور اختیارات جمع کرنے کی بھوک ختم ہی نہیں ہو پا رہی ہے۔ دوسری جانب وہ کروڑوں بھوکے، ننگے، بے اختیار لوگ ہیں جو ایک ایک روٹی کے لیے بھوکے مررہے ہیں۔اسی بھوک نے لوگوں کو بہت تڑپایا اور ترسایا اور لوگوں کو بہت ذلیل اور رسوا کیاہے ان کا چین اور سکون لوٹ لیا ہے جب کہ اسی بھوک نے ملک کی اشرافیہ کو وحشی اور درندہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
آئیں! ہم سب مل کر اس بھوک کوہی مارڈالیں تاکہ ملک کے کروڑوں غریب، بے بس اور بے کس لوگوں کو چین اور سکون اور پیٹ بھر کر روٹی مل سکے اور ملک کے درندے اور وحشی دوبارہ انسان بن سکیں۔
خشک سالی اور قحط نے اکسٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔ اس کے فوری بعد مزید دو سال جاری رہنے والی خشک سالی اور قحط میں2250000 افراد ہلاک ہوگئے۔ لاوارث لاشوں سے گلیاں بھری ہوئیں تھیں اور بچے بے گھر ہوگئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کے پاس محتاج خانوں میں پناہ لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ حکومتی امداد سے چلنے والی یہ جنتیں جلد ہی جرائم کے جہنموں میں بدل گئیں۔ یہاں جسم فروشی ہونے لگی نیز لاعلاج بیماریوں کا شکار لوگ بھی پناہ لینے لگے۔ کم عمر لڑکیوں سے جبراً جسم فروشی کروائی جاتی اور بغیر کسی معاوضے کے بے پناہ کام کروایا جاتا۔
ایک ہندوستانی محتاج خانے کا دورہ کرنے والی انگریز عورت نے اپنے گھر والوں کے نام ایک خط میں لکھا '' برے مر د فاحشہ عورتیں، معصو م بچیاں اور سادہ لوح بچے ایک ہی جگہ اکٹھے کردیے گئے تھے۔ بہت سے لوگ کوڑھ کا اور بہت سے لوگ ناقابل بیان امراض کا شکار تھے۔ خداوند ان محتاج خانوں اور امدادی کیمپوں میں جانے والی بچیوں پر رحم کرے'' پہلے تو ہندوستان کے شدید خشک سالی کے شکار علاقوں کے لوگ ہر کھائے جاسکنے والی شے کھا گئے۔
اس سے کئی سال پہلے روس میں قحط پڑا تھا تو لوگوں نے بھوک مٹانے کے لیے درختوں کی چھال، تنکے اور مٹی تک کھا لی تھی۔ ہندوستان میں بھوکے لوگوں نے تھوہر کے کانٹے اور پودے، جڑیں اور ہرطرح کے پھل کھا لیے، یہاں تک کہ انھوں نے گھاس بھی کھالی، روزگارختم ہوگیا۔ جن خوش قسمت لوگوں کو کام مل جاتا وہ 75 سینٹ ماہانہ کماتے تھے۔ گند م کی قیمت 3.60 ڈا لر بتیس کلو تھی۔ مرد کام کی تلاش میں پیدل چل کر میلوں دور واقع شہروں کو جاتے تھے۔ کام بہت تھا لیکن لوگ ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر دو یا تین سینٹ کے عوض سارا سارا دن جسمانی محنت کرواتے۔ جسمانی طور پر صحت مند اور مضبوط مرد تو محنت سکتے تھے لیکن نیم فاقہ زدہ لوگوں کے لیے محنت کر نا ناممکن تھا وہ تو کئی دونوں کے فاقے کی وجہ سے مشکل سے چل پھرسکتے تھے۔
بھوک نے طول پکڑا تو وہی ناگزیر نتیجہ نکلا، مردم خوری۔ جیسا کہ پوری انسانی تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے۔ جب انسان بھوک سے تقریباً پاگل ہوجاتے ہیں تو انسانی گوشت کھانے پر اترآتے ہیں۔ ایک ہمہ گیر قحط کے دوران لاشیں ہر طرف پڑی ہوتی ہیں اور گوشت کے اس طرح کے سر چشمے کو دیر تک نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ سعادت حسن منٹو لکھتا ہے ''دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی تمام مسئلوں کا باپ اس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اس وقت پردہ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مر د کی دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔'' یہ دونوں مسئلے جیسا کہ آپ جانتے ہیں دو مختلف قسم کی بھوک ہیں جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت جتنے معاشرتی، مجلسی، سیاسی اور جنگی مسائل نظر آتے ہیں۔ ان کے عقب میں یہ ہی دو بھوک جلوہ گرہیں موجودہ جنگ کا خونی پردہ اگر اٹھایا جائے تو لاشوں کے انبار کے پیچھے آپ کو ملک گیری کے بھوک کے سوا کچھ اور نظر نہیں آئے گا۔
بھوک کسی قسم کی بھی ہو بہت خطر ناک ہے، آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا۔ روٹی کے فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آکر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے۔ دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے بھوک گدا گری سکھاتی ہے بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے، بھوک عصمت فروشی پر مجبورکرتی ہے، بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے اس کا حملہ بہت شدید اس کا وار بہت بھر پور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی آج کے نئے مسائل بھی گرے ہوئے، کل کے پرانے مسائل سے بنیادی طور پر مختلف نہیں جو آج کی برائیاں ہیں گذری ہوئی کل ہی ان کے بیج بوئے تھے ۔ انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہیں جو غلطی ایک مر دکرتا ہے دوسرا بھی کرسکتا ہے غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کی کھیتوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔ ہمارے حالات عارضی بدحواسی کا نتیجہ ہیں۔
نطشے نے کہا تھا کہ تاریخ کبھی کبھی ہمارے راستے کا پتھر بن جاتی ہے اورکوئی بڑا تخلیقی کارنامہ انجام دینے کے لیے بعض اوقات تاریخ کو بھولنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ معروف ادیب کرسٹوفرایشروڈ لکھتا ہے اسے سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اس کا تعلق انسانوں سے ہے انسانوں سے انسانی زندگی ہے، زندہ حقیقی مردوں اور عورتوں سے گوشت اور خون سے، مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے انسانوں کے مسئلے بیشتر مشتر ک ہوتے ہیں۔ ایک سے دکھ سکھ، ایک سی امیدیں اور مایوسیاں، ایک سے خواب اور ایک سی ہزیمتیں، ہمارے ملک میں ایک طرف و ہ لوگ ہیں جن کی دولت اور اختیارات جمع کرنے کی بھوک ختم ہی نہیں ہو پا رہی ہے۔ دوسری جانب وہ کروڑوں بھوکے، ننگے، بے اختیار لوگ ہیں جو ایک ایک روٹی کے لیے بھوکے مررہے ہیں۔اسی بھوک نے لوگوں کو بہت تڑپایا اور ترسایا اور لوگوں کو بہت ذلیل اور رسوا کیاہے ان کا چین اور سکون لوٹ لیا ہے جب کہ اسی بھوک نے ملک کی اشرافیہ کو وحشی اور درندہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
آئیں! ہم سب مل کر اس بھوک کوہی مارڈالیں تاکہ ملک کے کروڑوں غریب، بے بس اور بے کس لوگوں کو چین اور سکون اور پیٹ بھر کر روٹی مل سکے اور ملک کے درندے اور وحشی دوبارہ انسان بن سکیں۔