افغانستان میں امریکا کی بمباری ہلاکتوں کا خدشہ
امریکی ڈرون طیاروں اور جنگی جہازوں نے پوست کے کھیتوں اور منشیارت ساز فیکٹریوں پر ہزاروں بم برسائے ہیں
امریکی فوج نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار کے خلاف بڑے فضائی آپریشن کے دوران پوست کے کھیتوں اور منشیات ساز فیکٹریوں پر ہزاروں بم برسائے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج نے افغانستان میں ایک اور نیا محاذ کھول لیا ہے، فوج نے منشیات کے خلاف گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے پوست کے کھیتوں اور منشیات تیار کرنے والی فیکٹریوں پر جدید ترین جنگی جہازوں اور ڈرون کے ذریعے ہزاروں بم برسائے ہیں جس میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے۔
یہ کارروائیاں امریکی ڈرون طیارے بی 52 اور جنگی جہاز اسٹیلتھ ایف 22 کے ذریعے افغان صوبے ہلمند کے دیہی علاقوں میں کی گئیں ہیں، ایف 22 طیارہ حملوں کے لیے پہلی بار افغانستان میں استعمال کیا گیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ حملوں سے قبل مقامی آبادی کا ایسی جگہوں سے انخلا کیا جائے بصورت دیگر ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔ہزاروں بم کے گرانے سے صاف ظاہر ہے کہ آپریشن بہت بڑے پیمانے پر شروع کیا گیا ہے، گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس افغانستان میں گرائے گئے بموں کی تعداد 3 گنا بڑھ گئی ہے، 31 اکتوبر تک امریکی فوج نے افغانستان میں 3554 ہتھیاروں کا اجرا کیا جبکہ 2016 میں یہ تعداد 1337 تھی۔
اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کے اختیارات میں اضافہ کیا تھا جس کے بعد سے طالبان کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے اور اب منشیات کے خلاف آپریشن بھی شروع ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ جنرل نکلسن نے دو روز قبل کہا تھا کہ افغانستان میں کم از کم 10 فیکٹریاں ہیروئن تیار کررہی ہیں، منشیات کے خلاف جلد کارروائی کی جائے گی کیوں کہ منشیات کی پیداوار طالبان کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اس آپریشن سے انہیں بہت بڑا دھچکا پہنچے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج نے افغانستان میں ایک اور نیا محاذ کھول لیا ہے، فوج نے منشیات کے خلاف گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے پوست کے کھیتوں اور منشیات تیار کرنے والی فیکٹریوں پر جدید ترین جنگی جہازوں اور ڈرون کے ذریعے ہزاروں بم برسائے ہیں جس میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے۔
یہ کارروائیاں امریکی ڈرون طیارے بی 52 اور جنگی جہاز اسٹیلتھ ایف 22 کے ذریعے افغان صوبے ہلمند کے دیہی علاقوں میں کی گئیں ہیں، ایف 22 طیارہ حملوں کے لیے پہلی بار افغانستان میں استعمال کیا گیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ حملوں سے قبل مقامی آبادی کا ایسی جگہوں سے انخلا کیا جائے بصورت دیگر ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔ہزاروں بم کے گرانے سے صاف ظاہر ہے کہ آپریشن بہت بڑے پیمانے پر شروع کیا گیا ہے، گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس افغانستان میں گرائے گئے بموں کی تعداد 3 گنا بڑھ گئی ہے، 31 اکتوبر تک امریکی فوج نے افغانستان میں 3554 ہتھیاروں کا اجرا کیا جبکہ 2016 میں یہ تعداد 1337 تھی۔
اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کے اختیارات میں اضافہ کیا تھا جس کے بعد سے طالبان کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے اور اب منشیات کے خلاف آپریشن بھی شروع ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ جنرل نکلسن نے دو روز قبل کہا تھا کہ افغانستان میں کم از کم 10 فیکٹریاں ہیروئن تیار کررہی ہیں، منشیات کے خلاف جلد کارروائی کی جائے گی کیوں کہ منشیات کی پیداوار طالبان کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اس آپریشن سے انہیں بہت بڑا دھچکا پہنچے گا۔