زمبابوے صدر موگابے کا 37 سالہ دور اقتدار ختم

عوامی مسائل کا حل اور جمہوریت کا احیاء ہی حکومتوں کی اصل ذمے داری ہے

رابرٹ موگابے کو ان کی ہی جماعت نے پارٹی کی سربراہی سے برطرف کیا تھا، فوٹو: فائل

TOKYO:
زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے 37 برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد مستعفی ہوگئے۔ زمبابوے میں ایک ہی شخص کے عہدۂ صدارت پر رہنے کا یہ طویل ترین عرصہ ہے۔

برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق رابرٹ موگابے کی جانب سے لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے کہا کہ مستعفی ہونے کا فیصلہ رضاکارانہ طور پر کیا ہے تاکہ انتقال اقتدار کا عمل آرام سے مکمل ہوسکے۔ زمبابوے کی پارلیمان کے اسپیکر جیکب مڈینڈا نے ان کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، ان کے اس اچانک فیصلے کے نتیجے میں ان کے مواخذے کا عمل ختم ہوگیا۔


پارلیمنٹ نے منگل کو ان کے مواخذے کی کارروائی شروع کردی تھی۔ صدر موگابے کے استعفے کے بعد عوام کی بڑی تعداد اور ارکان پارلیمنٹ کا سڑکوں پر جشن منانا اس بات کا مظہر ہے کہ ایک شخص کا مستقل اقتدار سے چمٹے رہنا جمہوری روایت کے منافی اور شخصی آمریت کا حصہ ہے جسے دنیا کے کسی بھی حصے میں پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ واضح رہے کہ رابرٹ موگابے گزشتہ دنوں فوج کی بغاوت اور عوامی احتجاج کے تواتر کے باوجود مستعفی ہونے کے خلاف مزاحمت کررہے تھے، جب کہ کچھ عرصہ قبل انھوں نے اپنے نائب صدر کو بھی برطرف کردیا تھا جس سے یہ شکوک بڑھ گئے تھے کہ وہ اپنا جانشین اپنی بیوی کو مقرر کرنا چاہتے ہیں، اس بات کو ان کی فوج نے ناپسند کیا اور حکومت پر قبضہ کرکے انھیں نظربند کردیا تھا۔ رابرٹ موگابے 1960 کی دہائی کے افریقی نو آبادی رہوڈیشیا جو آج زمبابوے کہلاتا ہے، کے ایک نڈر حریت پسند رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔

وہ اس وقت نو آبادیاتی نظام اور عالمی سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک مزاحمتی لیڈر قرار پائے تھے۔ صدر موگابے کے استعفیٰ کے بعد حکمراں جماعت نے اقتدار معزول نائب صدر کو منتقل کرنے کا اعلان کردیا، جب کہ امریکا نے زمبابوے کی صورتحال پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امید ہے زمبابوے میں شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ زمبابوے کی موجودہ سیاسی صورتحال اور موگابے کا استعفیٰ دنیا کی دیگر ریاستوں کے لیے ایک اشارہ ہے کہ حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ، طویل تر دورِ اقتدار کی شخصی آمریت ہمہ جہت مسائل کو جنم دیتی اور کرپشن کے در وا کرتی ہے۔ عوامی مسائل کا حل اور جمہوریت کا احیاء ہی حکومتوں کی اصل ذمے داری ہے۔
Load Next Story