گھریلو ناچاقی نے پورے خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا

’’اے اللہ اگر بیٹی دے تو اُس کے نصیب اچھے لکھنا‘‘۔

’’اے اللہ اگر بیٹی دے تو اُس کے نصیب اچھے لکھنا‘‘۔ فوٹو: فائل

لاہور:
سماج کے اندر بڑھتے ہوئے انتشار اور خلفشار نے عوام کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے معاشرے میں بڑھتا ہوا غصہ اور فرسٹریشن ناسور بن رہا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر ہتھیار اٹھانا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔

فیصل آباد میں اس طرح کے اندوہناک واقعہ نے شہریوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے جو ملک کے تیسرے بڑے شہر کے علاقے یسٰین آباد میں پیش آیا، جہاں لاہور کے رہائشی شخص عامر عبداللہ نے روٹھ کر میکے آئی بیوی کو منانے میں ناکامی پر روٹھی بیوی اور چار بچوں کو قتل کرکے خود کشی کر لی۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے تاج پورہ کے رہائشی 35 سالہ عامر عبداللہ کی بیوی 30 سالہ فرح شوہر سے ناچاقی کے باعث دو سال سے یسٰین آباد کی گلی نمبر 1 میں واقعہ اپنے ماموں احسان الحق کھوکھر کے مکان کی بالائی منزل پر چاروں بچوں سمیت رہائش پذیر تھی کہ اس کا شوہر عامر 10 فروری کو اسے منانے کے لیے آیا اور انکار پر طیش میں آکر اپنے پاس موجود دو پستولوں سے فائرنگ کرکے بیوی فرح کو گولیاں مارنے کے بعد چیخ وپکار کرنیوالے معصوم بچوں پر بھی اندھا دھند گولیاں برسا دیں جس کے نتیجے میں پانچ سالہ بیٹی نمرہ کوثر' دس سالہ بیٹاابوبکر اور آٹھ سالہ بیٹا عمار موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ 11 سالہ بیٹا حنظلہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال جا کر دم توڑ گیا۔

فائرنگ کی آواز سن کر عامر کا برادر نسبتی فرحان اور اس کی 12 سالہ بیٹی اوپر آئے تو عامر نے ان پر بھی فائرنگ کردی جس سے دونوں زخمی ہوگئے تاہم فرحان زخمی ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کو بچا کر کمرے سے باہر لانے میں کامیاب ہوگیا بیوی اور چار بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد عامر عبداللہ نے اپنی کنپٹی پر بھی گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔پانچ افراد کے قتل کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کی بڑی تعداد جائے وقوعہ پر پہنچ گئی بچوں کی نعشیں دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تھی جبکہ لواحقین نعشوں سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر روتے رہے۔


اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122 کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر زخمی فرحان اور آمنہ کو ہسپتال پہنچا دیا پوسٹ مارٹم کے بعد جب مقتولہ فرح اور بچوں کی نعشیں یسٰین آباد پہنچیں تو کہرام مچ گیا مقتولہ اور بچوں کو ایک دوسرے کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا جبکہ عامر عبداللہ کی نعش اس کے وارث لاہور لے گئے علاقے کی فضا تدفین کے موقع پر انتہائی سوگوار رہی بیوی بچوں کے بہیمانہ قتل کے بعد خود کشی کرنے والے عامر عبداللہ کے بارے میں معلوم ہو اہے کہ وہ ایف آئی اے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل بھی کاٹ چکا ہے عامر نے بیرون ملک بھی شادی کی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کی بیوی کے ساتھ اکثر ناراضی رہتی تھی اور اِسی وجہ سے وہ بے چاری دو سال قبل اپنے والدین کے پاس فیصل آباد آ گئی تھی جبکہ اسی دوران اس کے والدین کا انتقال بھی ہوگیا بعدازاں وہ اپنے ماموں کے ہاں منتقل ہوگئی۔

تھانہ بٹالہ کالونی کی پولیس نے خود کشی کرنے والے عامر عبداللہ کے خلاف مقتولہ فرح کے ماموں احسان الحق اور ممتاز احمد قوم کھوکھر کی مدعیت میں ملزم کے خلاف قتل' اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے جبکہ پولیس اس بارے میں بھی مصروف تفتیش ہے کہ ملزم کس طرح دو پسٹلز لاہور سے فیصل آباد لانے میں کامیاب ہوا اور کسی بھی جگہ پولیس نے تلاشی نہیں لی اور اس کو آتشیں اسلحہ فراہم کرنے والوں کا پتہ چلانے کے لیے بھی تحقیقات جاری ہیں۔ ایک معمولی گھریلو جھگڑے پر پانچ افراد چند سیکنڈ میں لقمہ اجل بن گئے لیکن معمولی جھگڑے پر قتل کا یہ فیصل آباد میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک ہونے کے علاوہ کریمینل ریکارڈ رکھنے والے افراد کی مناسب سرکوبی بھی کرنی چاہیے۔

معلوم ہوا ہے کہ عامر عبداللہ باقاعدہ فراڈیے رہ چکا ہے اور جیل بھی کاٹ چکا ہے۔ دوسری طرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی افراتفری، بے چینی اور لاقانونیت نے بھی لوگوں کو ڈپریشن اور دوسرے ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔ خاص طور پر جرائم پیشہ افراد کی باقاعدہ ذہنی تربیت ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے کیونکہ یہ افراد جیل کاٹنے یا سزا بھگتنے کے بعد بھی مجرمانہ ذہنیت کے مالک ہی رہتے ہیں اور ایک مستقل مائنڈ سیٹ کے ساتھ جرم کرنا ان کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ معمولی معمولی بات پر ہتھیار اٹھا لینا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حتیٰ کہ یہ اپنے خاندان اور بیوی بچوں کے خون کے دشمن بن جاتے ہیں اور بعد میں اپنے آپ کو ختم کر لیتے ہیں۔

ایسے افراد معاشرے میں مسلسل بگاڑ اور لاقانونیت کا باعث بن رہے ہیں اس طرح کے لرزہ خیز واقعات کے رونما ہونے سے متعلقہ رہائشی علاقوں کے مکینوں خصوصاً بچوں میں شدید خوف و ہراس پایا جا رہا ہے اور بچے ان المناک حادثوں کے مناظر دیکھنے کے باعث کئی کئی دن سو نہیں پائے۔ ذرائع کے مطابق قاتل عامر عبداللہ کئی مقدمات میں پولیس کو بھی مطلوب تھا۔ سفاک قاتل باپ نے جب اپنی شریک حیات اور جگر کے گوشوں پر فائرنگ کی تو وہ کھانے پینے میں مصروف تھے اور پتھر دل عامر عبداللہ لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں ہچکچایا کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے صفحہ ہستی سے مٹا رہا ہے۔ بزرگوں نے اِس لیے کہا ہے کہ اللہ اگر بیٹی دے تو اُس کے نصیب بھی اچھے لکھ دے۔
Load Next Story