مرحوم تاج محمد ابڑو 1
تاج محمد ابڑو بیک وقت اچھے منتظم اور مجلسی طور پر بذات خود ایک انجمن تھے۔
مرحوم تاج محمد ابڑو کی مجھ سے ہلکی پھلکی واقفیت 1945 میں پیدا ہوگئی تھی، جب وہ ڈی جی سندھ کالج کراچی میں ابھی زیر تعلیم تھا، تو اس کی آمد ورفت ہمارے لائٹ ہائوس سینما کے سامنے واقع ٹریڈ یونین آفس اور کمیونسٹ پارٹی والے دفتر میں شروع ہوگئی تھی، ان دنوں میری سرگرمیاں زیادہ تر ٹریڈ یونین سے وابستہ مزدور یونین سے متعلق تھیں، جب کہ تاج محمد اس وقت شاید مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا برائے نام رکن تھا، جس کا صدر اس وقت علی گوہر اور جنرل سیکریٹری عبدالستار شیخ تھا، ہمارا اس وقت مسلم لیگ سے ایک عارضی قسم کا تعلق طے پایا تھا، کیونکہ ہم پاکستان کو مسلم اکثریت والے علاقوں کے حق خود مختاری کے طور پر پیش کرچکے تھے۔
پھر پاکستان بننے کے بعد جب بڑے پیمانے پر پاکستان بھر میں گرفتاریاں شروع ہوگئیں تو ہم سب ٹریڈ یونین اور پارٹی کارکنوں کو گرفتار کرکے جیل میں بھیج دیا گیا۔ مارچ 1952 میں فیڈرل کورٹ کے فیصلے سوبھوگیان چندانی بنام کرائون کے مطابق میں آزاد ہوکر اپنے گائوں میں پہنچا تو تاج محمد ابڑو اور مولوی نذیر حسین جتوئی گائوں میں مجھے ملنے آئے، وہ مجھے دعوت دے گئے کہ میں جب بھی لاڑکانہ شہر میں آکر رہنا چاہوں تو تاج محمد ابڑو کے ہاں میری رہائش کا خاطر خواہ انتظام ہوگا، پھر جلد ہی صحت بحال ہونے پر میں سیدھا لاڑکانہ پہنچا اور تاج محمد ابڑو کے دفتر میں، جو لاڑکانہ ٹائون پولیس اسٹیشن کے قریب تھا، رہنے لگا۔
بعد ازاں وہاں پارٹی کا ایک سیل قائم کیاگیا، ہاری اور مزدور تحریکوں سے تو تاج محمد کا تعلق پہلے سے قائم تھا اور کامریڈ حیدر بخش جتوئی، مولوی نذیر حسین، دوست محمد ابڑو، نبی بخش تنیو، میر محمد شیخ کے علاوہ کئی دوسرے ہاری کارکن اور مزدور کارکن بھی اس کے پاس یہاں آتے جاتے رہتے، لہٰذا میری بھی ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، سیاسی اور علمی وادبی کتابیں پڑھنے کا شوق تو تاج محمد کو پہلے سے تھا لہٰذا میں نے اسے سندھی کہانیوں اور شاعری کی کچھ مزید کتابیں اور ترقی پسند سندھی رسالے، خاص طورپر نئی دنیا اور عثمان ڈیپلائی کے تراجم منگوانے پر آمادہ کیا اور پھر درحقیقت وہ تاج محمد ابڑو ہی تھا جس نے بذات خود گہری دلچسپی لے کر لاڑکانہ میں سندھی ادبی سنگت کی تنظیم بھی قائم کردی تھی جس کے اولین سرگرم کارکنوں میں ایاز قادری، جمال ابڑو، ہری دریانی دلگیر، انیس انصاری اویر وڈیرا، علی محمد عباسی شامل تھے۔
کچھ عرصے بعد میں اور تاج محمد دونوں سکھر گئے تو تاج محمد ابڑو مجھے سید شمس الدین شاہ کے پاس (جوکہ میرا ایک پرانا کلاس فیلو اور بعد میں خاکسار اور ہاری کمیٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا) چھوڑ کر خود لاڑکانہ واپس آگیا، اس زمانے میں قاضی فیض محمد، شمس الدین شاہ، مولوی نذیر حسین جتوئی اور دوسرے لوگوں کے درمیان طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف چل رہا تھا، جس کی وجہ سے دو ہاری کمیٹیاں بن گئی تھیں، اس لیے تاج محمد ابڑو نے شمس الدین شاہ کو کسانوں میں کام کرنے پر آمادہ کیا اور اس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ایک ہی ہاری کمیٹی تشکیل دی، جس کے بعد پھر کسی چھوٹے موٹے اختلاف کی بنیاد پر یہ ہاری کمیٹی دو ٹکڑے نہ ہوئی۔
تاج محمد ابڑو بیک وقت اچھے منتظم اور مجلسی طور پر بذات خود ایک انجمن تھے، ان کے ہاں سیاسی لیڈروں، روپوش کارکنوں اور ادیبوں کی ہمیشہ آمد ورفت رہتی تھی، ان کے تعلقات اس وقت کی تمام بڑی سیاسی شخصیتوں محمد ایوب کھوڑو، قاضی فضل اﷲ، علی محمد عباسی، کامریڈ حاجی پیرزادہ، نبی بخش تنیو اور اس وقت کی ایک نئی ابھرتی ہوئی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو سے قائم تھے۔ 1953 میں جب سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو اس کے لیے سندھی عوامی محاذ کی طرف سے بیالیس امیدوار مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقے کے عوام میں سے کھڑے کیے گئے، ان میں سات یا آٹھ امیدوار سائیں جی ایم سید گروپ کے بھی تھے۔
تاج محمد ابڑو نے ان انتخابات میں عوامی محاذ کے لیے دن رات کام کیا، خاص طورپر میرا الیکشن آفس جو پہلے ہی اس کے دفتر میں قائم تھا (مگر بعد میں اسے مولوی نذیر حسین کی ایک کرائے کی دکان میں منتقل کردیا گیا تھا) اس انتخابی مہم کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ ہم نے بڑی تگ و دو کے بعد اس الیکشن کے دوران تمام پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے نمائندے بٹھائے۔ آج کے دور میں آپ کو یہ جان کا تعجب ہوگا کہ کراچی سے ڈائو میڈیکل کالج کے ترقی پسند طالب علم ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر خواجہ معین اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی وغیرہ (جوکہ اب اپنے پیشے میں چوٹی کے ڈاکٹر ہیں) بھی اپنے کئی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ میرے علاقے میں سائیکلوں پر سوار ہوکر اور کئی جگہ میلوں پیدل چل کر اس الیکشن میں کام کرنے کے لیے آئے تھے۔
اس الیکشن میں کام کرنے کے لیے کراچی والا گروپ کامریڈ پوھو کی رہنمائی میں سر گرم عمل تھا اور لاڑکانہ والے کارکنوں میں مولوی نذیر حسین جتوئی، دوست محمد ابڑو، کامریڈ تاج محمد ابڑو، نبی بخش کھوسو اور ان کے ساتھ سندھ کے بے شمار ہاری کارکن بڑی سرگرمی سے کام کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن ہمیشہ سرمایہ دار امیدوار اپنی دولت کے بل بوتے پر جیتتے ہیں۔ مگر یہ غنیمت ہے کہ اس الیکشن میں ہم نے کل 18 ہزار درج ہونے والے ووٹوں میں سے 6 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ ان دنوں حکومت کی طرف سے میری سخت نگرانی جاری تھی، میں اکثر تاج محمد ابڑو سے کہا کرتا تھا کہ میری وجہ سے کہیں تمہیں بھی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑجائے، مگر ہمارا یہ دوست بڑا لاپرواہ واقع ہوا تھا، یہاں تک کہ اس کی محفلوں میں کئی بار ہر قسم کے لوگ پولیس افسروں سمیت بیٹھے رہتے تھے۔
جولائی 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تو مجھے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا مگر جولائی 1956 میں خرابی صحت کی بنا پر جب مجھے رہا کرکے اپنے گائوں میں نظر بند کردیا گیا تو اپنی اس نظر بندی کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ کامریڈ تاج محمد ابڑو جولائی یا اگست کے مہینے میں سندھی ادبی سنگت کی ایک بڑی کانفرنس لاڑکانہ میں بلا رہا ہے۔ تاج محمد ابڑو مرحوم اگرچہ خود نہیں لکھتا تھا مگر وہ بہت پڑھا لکھا اور اعلیٰ پایہ کا منتظم رہنما تھا۔ ون یونٹ قائم ہونے کے بعد جو کچھ سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں وہ بھی ختم ہوکر رہ گئیں اور اکتوبر 1958 میں ایوب خان کی فوجی آمریت قائم ہونے کے بعد تقریباً سارے سیاسی اور نظریاتی کارکن منتشر ہوکر رہ گئے۔
جب میں دوبارہ جیل سے رہائی کے بعد اپنے گائوں پہنچا اور تاج محمد ابڑو مجھ سے ملنے وہاں آیا تو اس نے بتایا کہ اب وہ بقاپور یونین کونسل کا ایک منتخب چیئرمین ہے، بی ڈی ممبر سے اس کا معاہدہ ہوچکا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ان کے قریبی تعلقات قائم ہیں۔ پھر 1964 میں جب ایوب خان نے صدارتی الیکشن لڑا تو بقول تاج محمد ابڑو، ذوالفقارعلی بھٹو بڑے تذبذب میں تھا کہ کس طرف جائے، مگر آخرکار اس کا جھکائو ایوب خان کی طرف ہوگیا اور اپنی جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس علاقے کے ووٹ ایوب خان کے حق میں ڈلواتا رہا، مگر تاج محمد ابڑو نے چوری چھپے بی ڈی ممبروں کے ووٹ اس کی مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں ڈلوائے، جس کی وجہ سے حکمران ٹولہ کافی عرصے تک اس کی طرف سے شاکی رہا۔
(جاری ہے)
پھر پاکستان بننے کے بعد جب بڑے پیمانے پر پاکستان بھر میں گرفتاریاں شروع ہوگئیں تو ہم سب ٹریڈ یونین اور پارٹی کارکنوں کو گرفتار کرکے جیل میں بھیج دیا گیا۔ مارچ 1952 میں فیڈرل کورٹ کے فیصلے سوبھوگیان چندانی بنام کرائون کے مطابق میں آزاد ہوکر اپنے گائوں میں پہنچا تو تاج محمد ابڑو اور مولوی نذیر حسین جتوئی گائوں میں مجھے ملنے آئے، وہ مجھے دعوت دے گئے کہ میں جب بھی لاڑکانہ شہر میں آکر رہنا چاہوں تو تاج محمد ابڑو کے ہاں میری رہائش کا خاطر خواہ انتظام ہوگا، پھر جلد ہی صحت بحال ہونے پر میں سیدھا لاڑکانہ پہنچا اور تاج محمد ابڑو کے دفتر میں، جو لاڑکانہ ٹائون پولیس اسٹیشن کے قریب تھا، رہنے لگا۔
بعد ازاں وہاں پارٹی کا ایک سیل قائم کیاگیا، ہاری اور مزدور تحریکوں سے تو تاج محمد کا تعلق پہلے سے قائم تھا اور کامریڈ حیدر بخش جتوئی، مولوی نذیر حسین، دوست محمد ابڑو، نبی بخش تنیو، میر محمد شیخ کے علاوہ کئی دوسرے ہاری کارکن اور مزدور کارکن بھی اس کے پاس یہاں آتے جاتے رہتے، لہٰذا میری بھی ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، سیاسی اور علمی وادبی کتابیں پڑھنے کا شوق تو تاج محمد کو پہلے سے تھا لہٰذا میں نے اسے سندھی کہانیوں اور شاعری کی کچھ مزید کتابیں اور ترقی پسند سندھی رسالے، خاص طورپر نئی دنیا اور عثمان ڈیپلائی کے تراجم منگوانے پر آمادہ کیا اور پھر درحقیقت وہ تاج محمد ابڑو ہی تھا جس نے بذات خود گہری دلچسپی لے کر لاڑکانہ میں سندھی ادبی سنگت کی تنظیم بھی قائم کردی تھی جس کے اولین سرگرم کارکنوں میں ایاز قادری، جمال ابڑو، ہری دریانی دلگیر، انیس انصاری اویر وڈیرا، علی محمد عباسی شامل تھے۔
کچھ عرصے بعد میں اور تاج محمد دونوں سکھر گئے تو تاج محمد ابڑو مجھے سید شمس الدین شاہ کے پاس (جوکہ میرا ایک پرانا کلاس فیلو اور بعد میں خاکسار اور ہاری کمیٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا) چھوڑ کر خود لاڑکانہ واپس آگیا، اس زمانے میں قاضی فیض محمد، شمس الدین شاہ، مولوی نذیر حسین جتوئی اور دوسرے لوگوں کے درمیان طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف چل رہا تھا، جس کی وجہ سے دو ہاری کمیٹیاں بن گئی تھیں، اس لیے تاج محمد ابڑو نے شمس الدین شاہ کو کسانوں میں کام کرنے پر آمادہ کیا اور اس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ایک ہی ہاری کمیٹی تشکیل دی، جس کے بعد پھر کسی چھوٹے موٹے اختلاف کی بنیاد پر یہ ہاری کمیٹی دو ٹکڑے نہ ہوئی۔
تاج محمد ابڑو بیک وقت اچھے منتظم اور مجلسی طور پر بذات خود ایک انجمن تھے، ان کے ہاں سیاسی لیڈروں، روپوش کارکنوں اور ادیبوں کی ہمیشہ آمد ورفت رہتی تھی، ان کے تعلقات اس وقت کی تمام بڑی سیاسی شخصیتوں محمد ایوب کھوڑو، قاضی فضل اﷲ، علی محمد عباسی، کامریڈ حاجی پیرزادہ، نبی بخش تنیو اور اس وقت کی ایک نئی ابھرتی ہوئی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو سے قائم تھے۔ 1953 میں جب سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو اس کے لیے سندھی عوامی محاذ کی طرف سے بیالیس امیدوار مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقے کے عوام میں سے کھڑے کیے گئے، ان میں سات یا آٹھ امیدوار سائیں جی ایم سید گروپ کے بھی تھے۔
تاج محمد ابڑو نے ان انتخابات میں عوامی محاذ کے لیے دن رات کام کیا، خاص طورپر میرا الیکشن آفس جو پہلے ہی اس کے دفتر میں قائم تھا (مگر بعد میں اسے مولوی نذیر حسین کی ایک کرائے کی دکان میں منتقل کردیا گیا تھا) اس انتخابی مہم کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ ہم نے بڑی تگ و دو کے بعد اس الیکشن کے دوران تمام پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے نمائندے بٹھائے۔ آج کے دور میں آپ کو یہ جان کا تعجب ہوگا کہ کراچی سے ڈائو میڈیکل کالج کے ترقی پسند طالب علم ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر خواجہ معین اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی وغیرہ (جوکہ اب اپنے پیشے میں چوٹی کے ڈاکٹر ہیں) بھی اپنے کئی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ میرے علاقے میں سائیکلوں پر سوار ہوکر اور کئی جگہ میلوں پیدل چل کر اس الیکشن میں کام کرنے کے لیے آئے تھے۔
اس الیکشن میں کام کرنے کے لیے کراچی والا گروپ کامریڈ پوھو کی رہنمائی میں سر گرم عمل تھا اور لاڑکانہ والے کارکنوں میں مولوی نذیر حسین جتوئی، دوست محمد ابڑو، کامریڈ تاج محمد ابڑو، نبی بخش کھوسو اور ان کے ساتھ سندھ کے بے شمار ہاری کارکن بڑی سرگرمی سے کام کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن ہمیشہ سرمایہ دار امیدوار اپنی دولت کے بل بوتے پر جیتتے ہیں۔ مگر یہ غنیمت ہے کہ اس الیکشن میں ہم نے کل 18 ہزار درج ہونے والے ووٹوں میں سے 6 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ ان دنوں حکومت کی طرف سے میری سخت نگرانی جاری تھی، میں اکثر تاج محمد ابڑو سے کہا کرتا تھا کہ میری وجہ سے کہیں تمہیں بھی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑجائے، مگر ہمارا یہ دوست بڑا لاپرواہ واقع ہوا تھا، یہاں تک کہ اس کی محفلوں میں کئی بار ہر قسم کے لوگ پولیس افسروں سمیت بیٹھے رہتے تھے۔
جولائی 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تو مجھے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا مگر جولائی 1956 میں خرابی صحت کی بنا پر جب مجھے رہا کرکے اپنے گائوں میں نظر بند کردیا گیا تو اپنی اس نظر بندی کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ کامریڈ تاج محمد ابڑو جولائی یا اگست کے مہینے میں سندھی ادبی سنگت کی ایک بڑی کانفرنس لاڑکانہ میں بلا رہا ہے۔ تاج محمد ابڑو مرحوم اگرچہ خود نہیں لکھتا تھا مگر وہ بہت پڑھا لکھا اور اعلیٰ پایہ کا منتظم رہنما تھا۔ ون یونٹ قائم ہونے کے بعد جو کچھ سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں وہ بھی ختم ہوکر رہ گئیں اور اکتوبر 1958 میں ایوب خان کی فوجی آمریت قائم ہونے کے بعد تقریباً سارے سیاسی اور نظریاتی کارکن منتشر ہوکر رہ گئے۔
جب میں دوبارہ جیل سے رہائی کے بعد اپنے گائوں پہنچا اور تاج محمد ابڑو مجھ سے ملنے وہاں آیا تو اس نے بتایا کہ اب وہ بقاپور یونین کونسل کا ایک منتخب چیئرمین ہے، بی ڈی ممبر سے اس کا معاہدہ ہوچکا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ان کے قریبی تعلقات قائم ہیں۔ پھر 1964 میں جب ایوب خان نے صدارتی الیکشن لڑا تو بقول تاج محمد ابڑو، ذوالفقارعلی بھٹو بڑے تذبذب میں تھا کہ کس طرف جائے، مگر آخرکار اس کا جھکائو ایوب خان کی طرف ہوگیا اور اپنی جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس علاقے کے ووٹ ایوب خان کے حق میں ڈلواتا رہا، مگر تاج محمد ابڑو نے چوری چھپے بی ڈی ممبروں کے ووٹ اس کی مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں ڈلوائے، جس کی وجہ سے حکمران ٹولہ کافی عرصے تک اس کی طرف سے شاکی رہا۔
(جاری ہے)