خواتین کی فلاح و بہبود …
اسلام نے توازن، اعتدال اور انصاف پر زور دیا ہے۔ بھروسہ اور یقین زندگی کے لیے لازمی ہیں۔
عورت کائنات کا خوبصورت ترین تحفہ ہے، عورت تخلیق کا سرچشمہ ہے وہ اپنے دائرہ عمل میں ایک دنیا کی تخلیق کرتی ہے، عورت سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے، وہ ایک ماں کے روپ میں کائنات کی مقدس ترین ہستی ہے۔ ہمارے رسول پاکؐ نے عورت کے احترام کا وہ مثالی درس دیا کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی معاشرے میں عورت کو یہ مقام نہیں دیا۔ ایک دور تھا کہ عورت کی حیثیت ایک غلام کی سی تھی۔ اسے بازاروں میں خریدوفروخت کے لیے لایا جاتا، اسے ظالمانہ حد تک مصیبتوں اور مشکلات سے دوچار کیا جاتا۔
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو عزت و احترام دیتا ہے۔ اس کے احترام اور تقدس کو مقدم سمجھتا ہے اور عورت کو اس کے حقوق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے جو حدود مقرر کی ہیں ان کا احترام کیا جائے تو ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میں خود بخود عورت کی عزت و احترام کیا جاتا ہے بلکہ اس کی ضروریات زندگی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس مغرب کا رویہ عورت سے بڑی حد تک ظالمانہ ہے۔ وہاں عورت کو جوانی میں خواہشات کی پیروی میں استعمال کیا جاتا ہے اور بڑھاپے میں اسے اولڈ ہاؤسوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اولاد اپنے والدین کو بڑھاپے میں چھوڑ دیتی ہے، اس سے زیادہ ظلم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت مثبت و فعال کردار ادا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے عورت کی تعلیم و تربیت بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تعلیم انسان کو جہاں دینی و دنیاوی علوم سکھاتی ہے وہیں اس بات کا احساس بھی دلاتی ہے کہ اس پر دینی و دنیاوی شعبوں میں کیا کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور پھر یہی شعبے فرائض کے عائد کرنے کے بعد اسے زندگی کو حسین اور معاشرے کو خوبصورت بنانے کے لیے کون کون سے حقوق دیتے ہیں۔
آج عورت چونکہ تعلیم یافتہ ہے اس لیے وہ اپنے فرائض سے مکمل طور پر بہرہ ور ہے اور گھر سے لے کر معاشی محنت تک، سیاست سے صحافت تک، تعلیم سے تربیت تک اور خدمت سے لے کر ترقی تک ہر شعبے میں اپنے فرائض ایک مستحکم کردار کے ساتھ ادا کرتے ہوئے ملک و معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، مگر افسوس! فرائض کی بجاآوری کے باوجود بھی عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے اور گھر کی چار دیواری سے لے کر سیاست کے میدانوں تک اس کا استحصال کیا جارہا ہے، گوکہ سابق حکومت نے زیریں ایوانوں سے لے کر ایوان بالا تک خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دے کر پاکستان میں ایک منصفانہ معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی مگر اس کے اثرات ابھی تک نچلی سطح تک نہیں پہنچ سکے اور معاشرے نے ابھی تک اس اقدام کو اور اس کی افادیت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
جب ہم شہروں میں رہنے والی خواتین کا اور دیہاتوں میں رہنے والی خواتین کا معاشرے میں مقام کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ دیہاتوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، شہروں میں بھی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے، خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، ان کی عصمت دری، ان پر تشدد اور بدچلنی وغیرت کے نام پر ان کے قتل کی خبروں سے مزین رسائل و اخبارات اس بات کی گواہی دیتے رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی اتنا متمدن اور تہذیب یافتہ نہیں ہوا جہاں انسانوں کو اپنے جذبات پر قابو حاصل ہو اور وہ اپنی غلط نفسانی خواہشات کی تکمیل پر معاشرے کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔
خواتین کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ خواتین میں تعلیم کو فروغ حاصل ہو اور معاشرے کو اس بات کی اہمیت کا احساس دلایا جاسکے کہ عورت کو تعلیم سے محروم رکھنا اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر تربیت سے محروم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آج کی تعلیم یافتہ بیٹی کل ماں بن کر مستقبل کے نونہالان کو صرف بہترین تربیت ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب مستقبل بھی دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
آج کی عورت صرف گھر کی چار دیواری میں رہ کر گھر کو جنت بنانے کا عمل انجام نہیں دیتی بلکہ اگر اسے موقع دیا جائے تو قومی و بین الاقوامی سطح پر عزم و ہمت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جس طرح خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا معاشرہ بھی دیگر ترقی یافتہ معاشروں کی طرح اتنا متمدن ہوجائے گا کہ یہاں کی عورت کو تمام حقوق حاصل ہوں گے اور وہ وقت معاشی و معاشرتی خوشحالی کا ایک سنہرا دور ہوگا۔ یہاں والدین کو بھی اپنی ذمے داری یاد رکھنی چاہیے۔ اسلام جیسے آفاقی مذہب نے جب اس بات کی تصدیق کردی کہ لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں اور اسلام نے جتنی آزادی دی اور حقوق عورت کو دیئے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیئے۔
اسلام نے توازن، اعتدال اور انصاف پر زور دیا ہے۔ بھروسہ اور یقین زندگی کے لیے لازمی ہیں۔ اس لیے عورت سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے نگہبان (مرد) کی خدمت کرے نہ کہ اس سے بھرپور مقابلہ کریں، اسلام میں عورت کے حقوق میں یہ شامل نہیں کہ وہ ہر کام میں مرد کے ساتھ ہوں۔
پاکستانی خواتین یورپ کی عورت کو آزاد اور خودمختار سمجھتی ہیں تو کیا وہاں عورت کی اتنی عزت ہے جتنی ہمارے معاشرے میں ہے؟ ہرگز نہیں۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے، بہن ہے تو رحمت ہے، بیوی ہے تو عظمت و عزت ہے، لیکن اس جنت، رحمت اور عظمت و عزت کا محافظ مرد ہے۔ مردو عورت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ آج ہر شعبے میں عورتیں اور مرد شانہ بشانہ کام کرتے نظر آتے ہیں اور مرد وعورت برابر کے حقوق رکھتے ہیں، دنیا کا ہر مذہب اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور جتنے حقوق اسلام نے عورت کو دیے ہیں اس کی نظیر ساری دنیا میں نہیں ملتی، لیکن پھر بھی حقوق سے عدم آگہی اور فرائض سے غیر ضروری واقفیت اور پھر اس واقفیت کو اپنے ماحول، اپنی عقل کی سطح پر لاکر بغیر سوچے سمجھے قبول کرنا ہی مسائل کو جنم دے رہا ہے، پاکستان میں عورت اور مرد بلاتفریق کئی شعبوں میں ساتھ کام کرتے نظر آتے ہیں حتیٰ کہ وزارت عظمیٰ جیسے اہم عہدے پر بھی خاتون فائز رہ چکی ہیں، سیاست، طب، ادب، تعلیم، کھیل، مذہب، وکالت، صحافت غرضیکہ تقریباً ہر شعبے میں عورت نے خود پر کیے گئے اعتماد کا مان رکھا اور ملک کے استحکام کے لیے اپنا انفرادی کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو عزت و احترام دیتا ہے۔ اس کے احترام اور تقدس کو مقدم سمجھتا ہے اور عورت کو اس کے حقوق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے جو حدود مقرر کی ہیں ان کا احترام کیا جائے تو ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میں خود بخود عورت کی عزت و احترام کیا جاتا ہے بلکہ اس کی ضروریات زندگی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس مغرب کا رویہ عورت سے بڑی حد تک ظالمانہ ہے۔ وہاں عورت کو جوانی میں خواہشات کی پیروی میں استعمال کیا جاتا ہے اور بڑھاپے میں اسے اولڈ ہاؤسوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اولاد اپنے والدین کو بڑھاپے میں چھوڑ دیتی ہے، اس سے زیادہ ظلم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت مثبت و فعال کردار ادا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے عورت کی تعلیم و تربیت بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تعلیم انسان کو جہاں دینی و دنیاوی علوم سکھاتی ہے وہیں اس بات کا احساس بھی دلاتی ہے کہ اس پر دینی و دنیاوی شعبوں میں کیا کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور پھر یہی شعبے فرائض کے عائد کرنے کے بعد اسے زندگی کو حسین اور معاشرے کو خوبصورت بنانے کے لیے کون کون سے حقوق دیتے ہیں۔
آج عورت چونکہ تعلیم یافتہ ہے اس لیے وہ اپنے فرائض سے مکمل طور پر بہرہ ور ہے اور گھر سے لے کر معاشی محنت تک، سیاست سے صحافت تک، تعلیم سے تربیت تک اور خدمت سے لے کر ترقی تک ہر شعبے میں اپنے فرائض ایک مستحکم کردار کے ساتھ ادا کرتے ہوئے ملک و معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، مگر افسوس! فرائض کی بجاآوری کے باوجود بھی عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے اور گھر کی چار دیواری سے لے کر سیاست کے میدانوں تک اس کا استحصال کیا جارہا ہے، گوکہ سابق حکومت نے زیریں ایوانوں سے لے کر ایوان بالا تک خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دے کر پاکستان میں ایک منصفانہ معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی مگر اس کے اثرات ابھی تک نچلی سطح تک نہیں پہنچ سکے اور معاشرے نے ابھی تک اس اقدام کو اور اس کی افادیت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
جب ہم شہروں میں رہنے والی خواتین کا اور دیہاتوں میں رہنے والی خواتین کا معاشرے میں مقام کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ دیہاتوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، شہروں میں بھی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے، خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، ان کی عصمت دری، ان پر تشدد اور بدچلنی وغیرت کے نام پر ان کے قتل کی خبروں سے مزین رسائل و اخبارات اس بات کی گواہی دیتے رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی اتنا متمدن اور تہذیب یافتہ نہیں ہوا جہاں انسانوں کو اپنے جذبات پر قابو حاصل ہو اور وہ اپنی غلط نفسانی خواہشات کی تکمیل پر معاشرے کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔
خواتین کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ خواتین میں تعلیم کو فروغ حاصل ہو اور معاشرے کو اس بات کی اہمیت کا احساس دلایا جاسکے کہ عورت کو تعلیم سے محروم رکھنا اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر تربیت سے محروم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آج کی تعلیم یافتہ بیٹی کل ماں بن کر مستقبل کے نونہالان کو صرف بہترین تربیت ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب مستقبل بھی دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
آج کی عورت صرف گھر کی چار دیواری میں رہ کر گھر کو جنت بنانے کا عمل انجام نہیں دیتی بلکہ اگر اسے موقع دیا جائے تو قومی و بین الاقوامی سطح پر عزم و ہمت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جس طرح خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا معاشرہ بھی دیگر ترقی یافتہ معاشروں کی طرح اتنا متمدن ہوجائے گا کہ یہاں کی عورت کو تمام حقوق حاصل ہوں گے اور وہ وقت معاشی و معاشرتی خوشحالی کا ایک سنہرا دور ہوگا۔ یہاں والدین کو بھی اپنی ذمے داری یاد رکھنی چاہیے۔ اسلام جیسے آفاقی مذہب نے جب اس بات کی تصدیق کردی کہ لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں اور اسلام نے جتنی آزادی دی اور حقوق عورت کو دیئے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیئے۔
اسلام نے توازن، اعتدال اور انصاف پر زور دیا ہے۔ بھروسہ اور یقین زندگی کے لیے لازمی ہیں۔ اس لیے عورت سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے نگہبان (مرد) کی خدمت کرے نہ کہ اس سے بھرپور مقابلہ کریں، اسلام میں عورت کے حقوق میں یہ شامل نہیں کہ وہ ہر کام میں مرد کے ساتھ ہوں۔
پاکستانی خواتین یورپ کی عورت کو آزاد اور خودمختار سمجھتی ہیں تو کیا وہاں عورت کی اتنی عزت ہے جتنی ہمارے معاشرے میں ہے؟ ہرگز نہیں۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے، بہن ہے تو رحمت ہے، بیوی ہے تو عظمت و عزت ہے، لیکن اس جنت، رحمت اور عظمت و عزت کا محافظ مرد ہے۔ مردو عورت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ آج ہر شعبے میں عورتیں اور مرد شانہ بشانہ کام کرتے نظر آتے ہیں اور مرد وعورت برابر کے حقوق رکھتے ہیں، دنیا کا ہر مذہب اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور جتنے حقوق اسلام نے عورت کو دیے ہیں اس کی نظیر ساری دنیا میں نہیں ملتی، لیکن پھر بھی حقوق سے عدم آگہی اور فرائض سے غیر ضروری واقفیت اور پھر اس واقفیت کو اپنے ماحول، اپنی عقل کی سطح پر لاکر بغیر سوچے سمجھے قبول کرنا ہی مسائل کو جنم دے رہا ہے، پاکستان میں عورت اور مرد بلاتفریق کئی شعبوں میں ساتھ کام کرتے نظر آتے ہیں حتیٰ کہ وزارت عظمیٰ جیسے اہم عہدے پر بھی خاتون فائز رہ چکی ہیں، سیاست، طب، ادب، تعلیم، کھیل، مذہب، وکالت، صحافت غرضیکہ تقریباً ہر شعبے میں عورت نے خود پر کیے گئے اعتماد کا مان رکھا اور ملک کے استحکام کے لیے اپنا انفرادی کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔