اندھی گولی
میں ان لوگوں پر حیران ہوتا ہوں جو صرف چھوٹوں کو نہیں بلکہ بڑوں کو بھی نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں اس لیے۔۔۔
سب سے پہلے شبنم شکیل کے لیے دعائے مغفرت، مرحومہ ایک منفرد اور باکمال شاعرہ تھیں اور جناب امجد اسلام امجد کا مرحومہ کی وفات پر لکھے گئے کالم سے پتہ چلا کہ ادب میں وہ کس قدر بلند مقام کی حامل تھیں۔ میں ان سے کبھی نہیں ملا اور نا ہی کبھی انھیں دیکھا۔ البتہ ریڈیو اور ٹیلیوژن پر نشر ہونے والے مشاعروں میں انھیں سنا بھی اور دیکھا بھی میرا ان سے صرف اس حد تک تعلق ہے کہ جس مکان میں وہ برسوں رہیں میں اب اس میں رہ رہا ہوں۔ میرے اسی تعلق نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں بھی مرحومہ کے لیے دعائے خیر میں شامل ہو جائوں۔ خداوند تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے۔ آمین
خبر یہ ہے کہ شہر حسن ابدال میں ایک چودہ سالہ بچی اپنے گھر کے صحن میں دن دیہاڑے اندھی گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئی جس کے باعث پولیس نے نامعلوم مجرم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے اور خیرسے مصروف تفتیش ہوگئی ہے۔ لواحقین کے مطابق نیلم بی بی اپنے گھر میں موجود تھی کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کی زد میں آ کر چل بسی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لڑکی کو 12بور رائفل کے دو فائر لگے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ نامعلوم مجرم بہت جلد گرفتار ہو جائینگے۔
بس میری پریشانی یہیںسے شروع ہوتی ہے کہ نامعلوم مجرم بہت جلد گرفتار ہوجائیں گے۔ جہاں معلوم مجرم گرفتار نہ ہوسکیں وہاں نامعلوم مجرم کیسے گرفتار ہوجائینگے یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے ۔ اس خبر کے اندر گولی کے لیے لفظ اندھا کا استعمال ہوا ہے جو پہلے صرف انصاف کے لیے بولا جاتا تھا یابولا جاتا ہے ۔ لفظ اندھا قانون کے لیے بھی بعض اوقات بولا جاتا ہے ۔ لیکن گولی کے لیے پہلی دفعہ یہ لفظ سنا تو برحق ہونے کے باوجود ذرا عجیب سا لگا۔ مجھے چاہیے کہ میں اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دوں کیونکہ اس وقت بہت سی عجیب وغریب باتیں ہورہی ہیں اور ان بہت ساری عجیب وغریب باتوں میں گولی کا اندھا ہونا بھی اگر شامل ہوگیا تو اس سے ہماری مجموعی صورت حال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑیگا۔
میں ان لوگوں پر حیران ہوتا ہوں جو صرف چھوٹوں کو نہیں بلکہ بڑوں کو بھی نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں اس لیے سوائے ضرورت کے گھر سے باہر نہ جایا کرو۔ اب ہم لوگوں کو کیا نصیحت کریں گے کہ گھر کے اندر بھی صحن میں نہ جایا کرو کیونکہ اندھی گولی کسی بھی سمت سے آسکتی ہے احتیاط لازم ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں نصیحت ہوتی تھی کہ ہمیشہ فٹ پاتھ کے اوپر چلنا چاہیے اور سڑک پر چلنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ حادثے سے بچا جاسکے۔ پھر ایک مرتبہ اخبار میں پڑھا کہ تیز رفتار ویگن فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور فٹ پاتھ پر چلنے والے ہر عمر اور جنس کے لوگوں کو کچل ڈالا۔ اس واقعے کے بعد کم از کم میں نے کسی کو یہ نصیحت نہیں کی کہ سڑک پر چلنے کی بجائے فٹ پا تھ پر چلا کرو کیونکہ ہمارے ملک میں ویگنیں سڑک پر چلنے کے علاوہ فٹ پاتھوں پر دوڑنے کا شوق بھی رکھتی ہیں۔
پھر ایک اندھی گولی کو خاطر میں کیوں لایا جائے۔ کیا وہ پانی کا ٹینکر اندھا تھا جو کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے احاطے میں جاکر پھٹا۔ وہ لوگ تو اپنے گھروں کے اندر تھے۔ گھروں کے اندر بیٹھے بیٹھے مرگئے۔ عباس ٹائون کے رہنے والے کیا گھروں سے باہر اور حالات سے لاپروائی کے باعث مارے گئے یا بے خبری میں مارے گئے۔ اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ گھر کے اندر کیا احتیاط کی جائے ۔ گھر کے اندر تو پرندے بھی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جانور بھی محفوظ سمجھتے ہیں۔ اب ہم جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے ہیں کہ گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔
چوری چکاری اور غنڈہ گردی کے خوف سے تو گھروں کو باہر سے تالے اور اپنی موجودگی میں اندر کی کنڈیاں لگانا خلاف معمول بات نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ اب اور کیا کیا جائے اندر اور باہر کا فرق تو رہنا چاہیے پہلے زمانے میں لوگ بلوئوں اور خانہ جنگی کے دوران بھی خود کو گھروں کے اندر محفوظ محسوس کرتے تھے۔z شہروں کے ارد گرد فصیلوں کو اپنی حفاظت کا ذریعہ گردانتے تھے جان کے دشمن بھی گھر کی دہلیزپر آ کے رک جایا کرتے تھے کیونکہ چادر وچاردیواری کا خیال رکھا جاتا تھا۔ گھر اور گھاٹ کا فرق بچے بچے کو معلوم تھا۔ لوگ گھر والے کی عزت گھر کے حساب سے اور گھاٹ والے کی عزت گھاٹ کے حساب سے کرتے تھے جو نہ گھر کا ہوتا اور نہ ہی گھاٹ کا اس کی کوئی پہچان نہیں ہوتی تھی۔
لگتا یوں ہے کہ ہم اپنی پہچان کھوتے جارہے ہیں اور پہچان کھونے کے لیے جس تیز رفتاری سے ہمیں بھگایا جارہا ہے لگتا یوں ہے کہ بہت جلد ہم قوم ،ملک، مذہب وملت کی حیثیت سے تو کیا ، ریوڑ کی حیثیت سے بھی نہیں جانے جاسکیں گے۔ کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں ہم قوم بھی چاہتے ہیں ملک بھی چاہتے ہیں اور مذہب وملت بھی چاہتے ہیں یہ ہمارا دشمن ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ ہم قوم بھی رہیں، ملک بھی رہیں اور مذہب وملت بھی رکھ سکیں۔ یہ وہ دشمن ہے جو اب ہمیں صحن کے اندر بھی نیلم بی بی بننے پر مجبور کر رہا ہے اس سے پہلے کہ نامعلوم مجرم کو آخری فتح نصیب ہو جائے ہمیں اُسے ڈھونڈ نکالنا چاہیئے تاکہ گھر اور گھاٹ دونوں کا حساب چکایا جاسکے۔
خدا ہمارا حامی وناصرہو۔ آمین۔
خبر یہ ہے کہ شہر حسن ابدال میں ایک چودہ سالہ بچی اپنے گھر کے صحن میں دن دیہاڑے اندھی گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئی جس کے باعث پولیس نے نامعلوم مجرم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے اور خیرسے مصروف تفتیش ہوگئی ہے۔ لواحقین کے مطابق نیلم بی بی اپنے گھر میں موجود تھی کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کی زد میں آ کر چل بسی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لڑکی کو 12بور رائفل کے دو فائر لگے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ نامعلوم مجرم بہت جلد گرفتار ہو جائینگے۔
بس میری پریشانی یہیںسے شروع ہوتی ہے کہ نامعلوم مجرم بہت جلد گرفتار ہوجائیں گے۔ جہاں معلوم مجرم گرفتار نہ ہوسکیں وہاں نامعلوم مجرم کیسے گرفتار ہوجائینگے یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے ۔ اس خبر کے اندر گولی کے لیے لفظ اندھا کا استعمال ہوا ہے جو پہلے صرف انصاف کے لیے بولا جاتا تھا یابولا جاتا ہے ۔ لفظ اندھا قانون کے لیے بھی بعض اوقات بولا جاتا ہے ۔ لیکن گولی کے لیے پہلی دفعہ یہ لفظ سنا تو برحق ہونے کے باوجود ذرا عجیب سا لگا۔ مجھے چاہیے کہ میں اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دوں کیونکہ اس وقت بہت سی عجیب وغریب باتیں ہورہی ہیں اور ان بہت ساری عجیب وغریب باتوں میں گولی کا اندھا ہونا بھی اگر شامل ہوگیا تو اس سے ہماری مجموعی صورت حال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑیگا۔
میں ان لوگوں پر حیران ہوتا ہوں جو صرف چھوٹوں کو نہیں بلکہ بڑوں کو بھی نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں اس لیے سوائے ضرورت کے گھر سے باہر نہ جایا کرو۔ اب ہم لوگوں کو کیا نصیحت کریں گے کہ گھر کے اندر بھی صحن میں نہ جایا کرو کیونکہ اندھی گولی کسی بھی سمت سے آسکتی ہے احتیاط لازم ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں نصیحت ہوتی تھی کہ ہمیشہ فٹ پاتھ کے اوپر چلنا چاہیے اور سڑک پر چلنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ حادثے سے بچا جاسکے۔ پھر ایک مرتبہ اخبار میں پڑھا کہ تیز رفتار ویگن فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور فٹ پاتھ پر چلنے والے ہر عمر اور جنس کے لوگوں کو کچل ڈالا۔ اس واقعے کے بعد کم از کم میں نے کسی کو یہ نصیحت نہیں کی کہ سڑک پر چلنے کی بجائے فٹ پا تھ پر چلا کرو کیونکہ ہمارے ملک میں ویگنیں سڑک پر چلنے کے علاوہ فٹ پاتھوں پر دوڑنے کا شوق بھی رکھتی ہیں۔
پھر ایک اندھی گولی کو خاطر میں کیوں لایا جائے۔ کیا وہ پانی کا ٹینکر اندھا تھا جو کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے احاطے میں جاکر پھٹا۔ وہ لوگ تو اپنے گھروں کے اندر تھے۔ گھروں کے اندر بیٹھے بیٹھے مرگئے۔ عباس ٹائون کے رہنے والے کیا گھروں سے باہر اور حالات سے لاپروائی کے باعث مارے گئے یا بے خبری میں مارے گئے۔ اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ گھر کے اندر کیا احتیاط کی جائے ۔ گھر کے اندر تو پرندے بھی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جانور بھی محفوظ سمجھتے ہیں۔ اب ہم جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے ہیں کہ گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔
چوری چکاری اور غنڈہ گردی کے خوف سے تو گھروں کو باہر سے تالے اور اپنی موجودگی میں اندر کی کنڈیاں لگانا خلاف معمول بات نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ اب اور کیا کیا جائے اندر اور باہر کا فرق تو رہنا چاہیے پہلے زمانے میں لوگ بلوئوں اور خانہ جنگی کے دوران بھی خود کو گھروں کے اندر محفوظ محسوس کرتے تھے۔z شہروں کے ارد گرد فصیلوں کو اپنی حفاظت کا ذریعہ گردانتے تھے جان کے دشمن بھی گھر کی دہلیزپر آ کے رک جایا کرتے تھے کیونکہ چادر وچاردیواری کا خیال رکھا جاتا تھا۔ گھر اور گھاٹ کا فرق بچے بچے کو معلوم تھا۔ لوگ گھر والے کی عزت گھر کے حساب سے اور گھاٹ والے کی عزت گھاٹ کے حساب سے کرتے تھے جو نہ گھر کا ہوتا اور نہ ہی گھاٹ کا اس کی کوئی پہچان نہیں ہوتی تھی۔
لگتا یوں ہے کہ ہم اپنی پہچان کھوتے جارہے ہیں اور پہچان کھونے کے لیے جس تیز رفتاری سے ہمیں بھگایا جارہا ہے لگتا یوں ہے کہ بہت جلد ہم قوم ،ملک، مذہب وملت کی حیثیت سے تو کیا ، ریوڑ کی حیثیت سے بھی نہیں جانے جاسکیں گے۔ کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں ہم قوم بھی چاہتے ہیں ملک بھی چاہتے ہیں اور مذہب وملت بھی چاہتے ہیں یہ ہمارا دشمن ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ ہم قوم بھی رہیں، ملک بھی رہیں اور مذہب وملت بھی رکھ سکیں۔ یہ وہ دشمن ہے جو اب ہمیں صحن کے اندر بھی نیلم بی بی بننے پر مجبور کر رہا ہے اس سے پہلے کہ نامعلوم مجرم کو آخری فتح نصیب ہو جائے ہمیں اُسے ڈھونڈ نکالنا چاہیئے تاکہ گھر اور گھاٹ دونوں کا حساب چکایا جاسکے۔
خدا ہمارا حامی وناصرہو۔ آمین۔