ایک اچھی روایت کا احیاء
ادیبوں اور شاعروں نے پاکستان بنانے اور اس کے استحکام میں اپنی نظموں، غزلوں اور تحریروں کے ذریعے اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں نظریاتی خلفشار، دہشت گردی اور کمرشل ازم نے ادبی محفلوں، مشاعروں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ لاہور، کراچی اور پشاور جیسے پر امن اور رنگا رنگ شہروں میں ادبی محفلیں بتدریج ختم ہونے لگیں۔ لاہور میں شاعروں، ادیبوں، ادبی نقادوں اور دانشوروں کی معروف اور تاریخی محفل پاک ٹی ہاؤس میں جمتی تھی، پاک ٹی ہاوس کچھ عرصے سے بند تھا۔ اگلے روز اس تاریخی بیٹھک کو دوبارہ کھول دیا گیا۔
مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اسے میٹرو بس کے برابر اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود بھی یہاں آیا کریں گے۔ ادیبوں اور شاعروں نے پاکستان بنانے اور اس کے استحکام میں اپنی نظموں، غزلوں اور تحریروں کے ذریعے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لاہور میں پاک ٹی ہاؤس کو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی کیونکہ یہاں لکھنے پڑھنے والے نامور لوگوں کی ایک کہکشاں جمع ہوتی تھی جن کو دیکھنے اور جن کی باتیں سننے کے لیے شعر و سخن سے دلچسپی رکھنے والے دیگر لوگ بھی جوق در جوق آیا کرتے تھے تاہم معاشرے میں جوں جوں کمرشل ازم کا غلبہ بڑھتا رہا، اس کے ساتھ ہی علم و ادب کی طرف توجہ میں کمی آتی گئی۔
پھر معاشرے میں انتہا پسندی، لسانیت اور صوبائیت نے زہر گھولنا شروع کیا، رہی سہی کسر دہشت گردی نے نکال دی۔ شاعر۔ ادیب، مصور، مجسمہ ساز، اداکار، گلوکار، سازندے اور فنوں لطیفہ سے متعلق دیگر افراد معاشرے میں اہمیت کھو بیٹھے۔ ان کی جگہ فرقہ پرستوں، لسانیت اور قومیت کے نام پر زہر پھیلانے والوں اور کاروباری افراد نے لے لی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی جہاں صدر کا علاقہ ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اجڑ رہا ہے، شہر میں قتل و غارت نے ہر ثقافتی سرگرمی کو ختم کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے پاک ٹی ہاؤس کو ادیبوں' شاعروں کے لیے کھولنا یقینا ایک خوشگوار کارنامہ ہے۔ اس سے پورے ملک میں اچھا پیغام جائے گا اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔
مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اسے میٹرو بس کے برابر اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود بھی یہاں آیا کریں گے۔ ادیبوں اور شاعروں نے پاکستان بنانے اور اس کے استحکام میں اپنی نظموں، غزلوں اور تحریروں کے ذریعے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لاہور میں پاک ٹی ہاؤس کو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی کیونکہ یہاں لکھنے پڑھنے والے نامور لوگوں کی ایک کہکشاں جمع ہوتی تھی جن کو دیکھنے اور جن کی باتیں سننے کے لیے شعر و سخن سے دلچسپی رکھنے والے دیگر لوگ بھی جوق در جوق آیا کرتے تھے تاہم معاشرے میں جوں جوں کمرشل ازم کا غلبہ بڑھتا رہا، اس کے ساتھ ہی علم و ادب کی طرف توجہ میں کمی آتی گئی۔
پھر معاشرے میں انتہا پسندی، لسانیت اور صوبائیت نے زہر گھولنا شروع کیا، رہی سہی کسر دہشت گردی نے نکال دی۔ شاعر۔ ادیب، مصور، مجسمہ ساز، اداکار، گلوکار، سازندے اور فنوں لطیفہ سے متعلق دیگر افراد معاشرے میں اہمیت کھو بیٹھے۔ ان کی جگہ فرقہ پرستوں، لسانیت اور قومیت کے نام پر زہر پھیلانے والوں اور کاروباری افراد نے لے لی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی جہاں صدر کا علاقہ ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اجڑ رہا ہے، شہر میں قتل و غارت نے ہر ثقافتی سرگرمی کو ختم کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے پاک ٹی ہاؤس کو ادیبوں' شاعروں کے لیے کھولنا یقینا ایک خوشگوار کارنامہ ہے۔ اس سے پورے ملک میں اچھا پیغام جائے گا اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔