پاکستان میں پلاسٹک اسکریپ کی خلاف ضابطہ درآمد
تاجرری سائیکلنگ سہولتیں نہ ہونے کے باوجود مضر صحت اسکریپ منگوا کر ڈمپ کررہے ہیں۔
پاکستان میں بنیادی ری سائیکلنگ سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود دنیا بھر سے مضرصحت پلاسٹک اسکریپ کی درآمدی سرگرمیاں جاری ہیں جوکراچی ولاہورکے گنجان آباد علاقوں شیر شاہ اور شادرہ کے وہ مقامی تاجر درآمدکرکے ڈمپ کررہے ہیں جن کے پاس اسکریپ ری سائیکلنگ کی مطلوبہ سہولتیں سرے سے ہی دستیاب نہیں ہی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ترمیمی امپورٹ پالیسی آرڈر 2009 کے آرٹیکل 242(1) کے تحت صرف مقامی مینوفیکچررزہی اپنے استعمال کیلیے بیسل کنونشن کے مطابق متعلقہ ملک سے کلیئرنس حاصل کرتے ہوئے غیرمضرصحت پلاسٹک اسکریپ درآمد کرنے کے مجاز ہیں لیکن پاکستان میں متعلقہ ذمے دار اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث درآمدی پالیسی آرڈر کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ موجودہ پالیسی میں مینوفیکچررز کی تعریف غیرواضح ہونے کے سبب سیلزٹیکس میں رجسٹرڈ کوئی بھی انفرادی سطح کی کمپنی کو محکمہ کسٹمز کے حکام مینوفیکچررر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ کسٹم حکام کوانفرادی سطح کی ایسی کمپنیوں کی مینوفیکچرنگ وری سائیکلنگ استعداد کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے۔ ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق پلاسٹک اسکریپ سے کسی بھی قسم کی پراڈکٹ کی مینوفیکچرنگ سے قبل اسکی جدید تقاضوں کے مطابق واشنگ ضروری ہے لیکن پاکستان میں اس معیار کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درآمد ہونیوالے مضرصحت پلاسٹک اسکریپ کی ایک بڑی مقدارپریشرپائپس کی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہو رہی ہے جو بین الاقوامی، پاکستانی اوربرطانوی معیار 3051/1991 اور 3505/1985, ASTM D-1785 -06 ISO-4422-1:1996. کی کھلی خلاف ورزی ہے، پلاسٹک اسکریپ کا یہ غیر قانونی معیار نہ صرف مضرِ صحت ہے بلکہ اس سے بنائی جانیوالی مصنوعات کے مارکیٹ میں آنے سے مقامی پلاسٹک کے صنعت کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدی پالیسی میں پلاسٹک مینوفیکچررزکی اصطلاح واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ترمیمی امپورٹ پالیسی آرڈر 2009 کے آرٹیکل 242(1) کے تحت صرف مقامی مینوفیکچررزہی اپنے استعمال کیلیے بیسل کنونشن کے مطابق متعلقہ ملک سے کلیئرنس حاصل کرتے ہوئے غیرمضرصحت پلاسٹک اسکریپ درآمد کرنے کے مجاز ہیں لیکن پاکستان میں متعلقہ ذمے دار اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث درآمدی پالیسی آرڈر کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ موجودہ پالیسی میں مینوفیکچررز کی تعریف غیرواضح ہونے کے سبب سیلزٹیکس میں رجسٹرڈ کوئی بھی انفرادی سطح کی کمپنی کو محکمہ کسٹمز کے حکام مینوفیکچررر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ کسٹم حکام کوانفرادی سطح کی ایسی کمپنیوں کی مینوفیکچرنگ وری سائیکلنگ استعداد کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے۔ ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق پلاسٹک اسکریپ سے کسی بھی قسم کی پراڈکٹ کی مینوفیکچرنگ سے قبل اسکی جدید تقاضوں کے مطابق واشنگ ضروری ہے لیکن پاکستان میں اس معیار کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درآمد ہونیوالے مضرصحت پلاسٹک اسکریپ کی ایک بڑی مقدارپریشرپائپس کی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہو رہی ہے جو بین الاقوامی، پاکستانی اوربرطانوی معیار 3051/1991 اور 3505/1985, ASTM D-1785 -06 ISO-4422-1:1996. کی کھلی خلاف ورزی ہے، پلاسٹک اسکریپ کا یہ غیر قانونی معیار نہ صرف مضرِ صحت ہے بلکہ اس سے بنائی جانیوالی مصنوعات کے مارکیٹ میں آنے سے مقامی پلاسٹک کے صنعت کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدی پالیسی میں پلاسٹک مینوفیکچررزکی اصطلاح واضح کرنے کی ضرورت ہے۔