احسان مند
سیاست میں آمروں کے باعث کامیاب ہونے والوں کو آمروں کی احسان فراموشی کسی صورت زیب نہیں دیتی
کرپشن کے الزام میں گرفتار پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر لگا یہ الزام پھر دہرایا ہے کہ وہ آمریت کی پیداوار ہیں اور انھوں نیوہیں سے سیاست سیکھی اور اسی لیے وہ آمرانہ مزاج کے حامل ہیں اور جمہوریت کا نام صرف اپنے مفاد کے لیے لیتے ہیں۔
یہ الزام پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سمیت دیگر بھی نواز شریف پر لگاتے رہتے ہیں اور انھیں یہ بھی پتا ہے کہ ان کی پارٹی کے بانی سمیت ان کی سابقہ قائد بھی اپنی سیاست کے لیے آمروں کی مرہون منت رہی ہیں اور نواز شریف اور عمران خان ہی نہیں موجود سیاست کے اہم سیکڑوں چہرے بھی ماضی میں آمروں کے ساتھی، معاون و مددگار بھی رہے ہیں۔
آج کی سیاست میں 1977 کی مارشل لا کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے بے شمار سیاستدان غیر جمہوری حکومتوں میں شامل رہ کر مقبول ہوئے اور آج وہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں موجود ہیں اور آمریت میں پروان چڑھنے والے یہ سیاستدان اب جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔
1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تھا جن کی کابینہ میں ایک نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے جو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں بھی تھے اور ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو مسلم لیگ کنونشن کا جنرل سیکریٹری بنوانے کے حامی تھے مگر صدر ایوب نے ڈپٹی کمشنروں کو اس طرح سیاست کا حصہ بنانے سے انکار کردیا تھا۔
زیڈ اے بھٹو کو شہرت ایوب کابینہ میں وزیر خارجہ بننے کے بعد ملی اور وہ آمر صدر کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھے، بعد میں 1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کے بعد دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ ایوب خان کی ناراضگی کے بعد بھٹو وزارت سے فارغ ہوئے اور انھوں نے معاہدہ تاشقند کی مخالفت سے اپنی سیاست شروع کی اور دعوے کرتے رہے کہ وہ معاہدہ تاشقند کی بلی تھیلے سے باہر نکالیں گے، مگر وہ بلی کبھی باہر نہ آسکی اور ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ کی غلطیوں سے ملک دولخت ہوا اور بھٹو صدر اور وزیراعظم ہی نہیں بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ ملک کے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بنے اور انھوں نے 1967 میں اپنی پیپلز پارٹی بھی قائم کی تھی، جو اپنے قیام کے 50 سال پورے کرچکی ہے، جس میں ایوب دور کا تو کوئی رہنما نہیں بلکہ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں میں شامل رہنے والے بے شمار رہنما آج بھی موجود ہیں۔
بدقسمتی سے آمر صدر کے زیر اثرسیاست میں آنے والے پیپلز پارٹی کے بانی دوسرے آمر صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت میں بھٹو کو پھانسی ہوئی اور ایوب خان کے بعد آنے والے آمر صدر جنرل یحییٰ کے آخری دور میں بھٹو وزیر خارجہ تھے جو اقوام متحدہ میں 1971 کی جنگ بندی کی قرارداد پھاڑ کر آگئے تھے، جس کے بعد ہی ملک کے دو ٹکڑے ممکن ہوئے تھے۔
جنرل ضیا الحق کے دور آمریت میں نواز شریف سیاست میں آئے اور پھر وہ پہلی بار پنجاب کے وزیر خزانہ ہی نہیں بلکہ جنرل ضیا نے انھیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوایا بلکہ انھیں اپنی زندگی کی دعا بھی دے ڈالی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیا کے فضائی حادثے کے بعد وزیراعظم بنیں، انھوں نے جنرل اسلم بیگ کو پہلی بار تمغہ جمہوریت عطا کیا مگر جلد ہی اپنی من مانیوں کے باعث برطرف ہوئیں، پھر میاں نواز شریف آئی جے آئی کی اکثریت سے غلام مصطفیٰ جتوئی کی جگہ فوجی مدد سے وزیراعظم بنائے گئے۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد نواز شریف کئی سال تک جنرل ضیا الحق کی برسی پر حاضری دیا کرتے تھے۔ پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد وہ صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف کو ناراض کر بیٹھے، پھر سپریم کورٹ سے بحال ہوئے۔ ان کی پہلے آصف نواز جنجوعہ سے نہیں بنی، پھر جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر مستعفی ہوئے، پھر بے نظیر کے بعد اقتدار میں دو تہائی اکثریت سے آئے مگر 1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ان کی غیر موجودگی میں برطرف کرکے پسند کا آرمی چیف لانا چاہا مگر اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد پہلی بار گرفتار ہوئے۔ سزا یاب ہوکر جنرل پرویز سے جلاوطنی کا معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے۔
اس سے قبل انھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ میں جنرل جہانگیر کرامت کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے میں ناکام رہے، جس کے بعد انھیں آمریت سے نفرت اور جمہوریت سے محبت ہوگئی اور انھیں اب آمر بہت برے لگنے لگے ہیں ۔ بھٹو اور نواز شریف دونوں سابق وزرائے اعظم آمروں کی وجہ سے سیاست میں نمایاں ہوئے۔
بھٹو نے صدر ایوب کی زندگی میں انھیں چھوڑ دیا تھا اور انھی کے خلاف تحریک چلائی تھی جب کہ نواز شریف کو جنرل ضیا الحق کے دنیا سے جانے کے کئی سال بعد اور جنرل پرویز مشرف سے ڈسے جانے کے بعد آمر برے لگے، جب کہ اسی آمر کے ہاتھوں جمہوری وزیراعظم جونیجو کی برطرفی نواز شریف کو بری نہیں لگی تھی اور وہ جھٹ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تھے ۔
بے نظیر بھٹو تیسری بار اقتدار میں آنے کے لیے جنرل پرویز مشرف سے کیے گئے این آر او کی خلاف ورزی کرکے 2007 میں وطن واپس آئیں اور انھوں نے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے کے لیے آمر صدر سے معاہدہ کیا تھا جس کے بعد ممکن تھا کہ جنرل پرویز کی صدارت میں وہ تیسری بار وزیراعظم بھی بن جاتیں۔ وزیراعظم جمالیآمر صدر پرویز مشرف کو باس کہتے نہیں تھکتے تھے اور 5 سال پنجاب میں حکومت کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز کو ایک نہیں دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا اعلان کیا تھا۔
اپنے سابق قائد نواز شریف کی مخالفت میں پیش پیش چوہدری برادران، شیخ رشید اور جنرل پرویز مشرف دور کے سیاسی وزیر پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت میں شامل ہیں مگر وہ جنرل پرویز پر تنقید نہیں کرتے۔ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں ان کی مکمل حمایت وزیراعظم بننے کے لیے کی تھی مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں اس قابل نہیں سمجھا اور وہ شہباز شریف اور مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بننے کا زیادہ اہل سمجھتے تھے۔
یہ الزام پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سمیت دیگر بھی نواز شریف پر لگاتے رہتے ہیں اور انھیں یہ بھی پتا ہے کہ ان کی پارٹی کے بانی سمیت ان کی سابقہ قائد بھی اپنی سیاست کے لیے آمروں کی مرہون منت رہی ہیں اور نواز شریف اور عمران خان ہی نہیں موجود سیاست کے اہم سیکڑوں چہرے بھی ماضی میں آمروں کے ساتھی، معاون و مددگار بھی رہے ہیں۔
آج کی سیاست میں 1977 کی مارشل لا کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے بے شمار سیاستدان غیر جمہوری حکومتوں میں شامل رہ کر مقبول ہوئے اور آج وہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں موجود ہیں اور آمریت میں پروان چڑھنے والے یہ سیاستدان اب جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔
1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تھا جن کی کابینہ میں ایک نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے جو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں بھی تھے اور ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو مسلم لیگ کنونشن کا جنرل سیکریٹری بنوانے کے حامی تھے مگر صدر ایوب نے ڈپٹی کمشنروں کو اس طرح سیاست کا حصہ بنانے سے انکار کردیا تھا۔
زیڈ اے بھٹو کو شہرت ایوب کابینہ میں وزیر خارجہ بننے کے بعد ملی اور وہ آمر صدر کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھے، بعد میں 1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کے بعد دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ ایوب خان کی ناراضگی کے بعد بھٹو وزارت سے فارغ ہوئے اور انھوں نے معاہدہ تاشقند کی مخالفت سے اپنی سیاست شروع کی اور دعوے کرتے رہے کہ وہ معاہدہ تاشقند کی بلی تھیلے سے باہر نکالیں گے، مگر وہ بلی کبھی باہر نہ آسکی اور ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ کی غلطیوں سے ملک دولخت ہوا اور بھٹو صدر اور وزیراعظم ہی نہیں بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ ملک کے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بنے اور انھوں نے 1967 میں اپنی پیپلز پارٹی بھی قائم کی تھی، جو اپنے قیام کے 50 سال پورے کرچکی ہے، جس میں ایوب دور کا تو کوئی رہنما نہیں بلکہ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں میں شامل رہنے والے بے شمار رہنما آج بھی موجود ہیں۔
بدقسمتی سے آمر صدر کے زیر اثرسیاست میں آنے والے پیپلز پارٹی کے بانی دوسرے آمر صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت میں بھٹو کو پھانسی ہوئی اور ایوب خان کے بعد آنے والے آمر صدر جنرل یحییٰ کے آخری دور میں بھٹو وزیر خارجہ تھے جو اقوام متحدہ میں 1971 کی جنگ بندی کی قرارداد پھاڑ کر آگئے تھے، جس کے بعد ہی ملک کے دو ٹکڑے ممکن ہوئے تھے۔
جنرل ضیا الحق کے دور آمریت میں نواز شریف سیاست میں آئے اور پھر وہ پہلی بار پنجاب کے وزیر خزانہ ہی نہیں بلکہ جنرل ضیا نے انھیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوایا بلکہ انھیں اپنی زندگی کی دعا بھی دے ڈالی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیا کے فضائی حادثے کے بعد وزیراعظم بنیں، انھوں نے جنرل اسلم بیگ کو پہلی بار تمغہ جمہوریت عطا کیا مگر جلد ہی اپنی من مانیوں کے باعث برطرف ہوئیں، پھر میاں نواز شریف آئی جے آئی کی اکثریت سے غلام مصطفیٰ جتوئی کی جگہ فوجی مدد سے وزیراعظم بنائے گئے۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد نواز شریف کئی سال تک جنرل ضیا الحق کی برسی پر حاضری دیا کرتے تھے۔ پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد وہ صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف کو ناراض کر بیٹھے، پھر سپریم کورٹ سے بحال ہوئے۔ ان کی پہلے آصف نواز جنجوعہ سے نہیں بنی، پھر جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر مستعفی ہوئے، پھر بے نظیر کے بعد اقتدار میں دو تہائی اکثریت سے آئے مگر 1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ان کی غیر موجودگی میں برطرف کرکے پسند کا آرمی چیف لانا چاہا مگر اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد پہلی بار گرفتار ہوئے۔ سزا یاب ہوکر جنرل پرویز سے جلاوطنی کا معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے۔
اس سے قبل انھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ میں جنرل جہانگیر کرامت کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے میں ناکام رہے، جس کے بعد انھیں آمریت سے نفرت اور جمہوریت سے محبت ہوگئی اور انھیں اب آمر بہت برے لگنے لگے ہیں ۔ بھٹو اور نواز شریف دونوں سابق وزرائے اعظم آمروں کی وجہ سے سیاست میں نمایاں ہوئے۔
بھٹو نے صدر ایوب کی زندگی میں انھیں چھوڑ دیا تھا اور انھی کے خلاف تحریک چلائی تھی جب کہ نواز شریف کو جنرل ضیا الحق کے دنیا سے جانے کے کئی سال بعد اور جنرل پرویز مشرف سے ڈسے جانے کے بعد آمر برے لگے، جب کہ اسی آمر کے ہاتھوں جمہوری وزیراعظم جونیجو کی برطرفی نواز شریف کو بری نہیں لگی تھی اور وہ جھٹ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تھے ۔
بے نظیر بھٹو تیسری بار اقتدار میں آنے کے لیے جنرل پرویز مشرف سے کیے گئے این آر او کی خلاف ورزی کرکے 2007 میں وطن واپس آئیں اور انھوں نے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے کے لیے آمر صدر سے معاہدہ کیا تھا جس کے بعد ممکن تھا کہ جنرل پرویز کی صدارت میں وہ تیسری بار وزیراعظم بھی بن جاتیں۔ وزیراعظم جمالیآمر صدر پرویز مشرف کو باس کہتے نہیں تھکتے تھے اور 5 سال پنجاب میں حکومت کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز کو ایک نہیں دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا اعلان کیا تھا۔
اپنے سابق قائد نواز شریف کی مخالفت میں پیش پیش چوہدری برادران، شیخ رشید اور جنرل پرویز مشرف دور کے سیاسی وزیر پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت میں شامل ہیں مگر وہ جنرل پرویز پر تنقید نہیں کرتے۔ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں ان کی مکمل حمایت وزیراعظم بننے کے لیے کی تھی مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں اس قابل نہیں سمجھا اور وہ شہباز شریف اور مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بننے کا زیادہ اہل سمجھتے تھے۔
سیاست میں آمروں کے باعث کامیاب ہونے والوں کو آمروں کی احسان فراموشی کسی صورت زیب نہیں دیتی، مگر سیاست میں رہنے کے لیے انھیں آمروں ہی کی نہیں اپنے سیاسی سابق قائدین کی مخالفت کرنا ہی پڑتی ہے، جو جمہوری اصول کہلاتی ہے۔