جمہوریہ چیک یورپی نسل پرستی کا چہرہ
جمہوریہ چیک میں بننے والی نئی حکومت کے سربراہ کو انتہاپسندی کے باعث یورپ کا ڈونلڈ ٹرمپ قرار دیا جارہا ہے۔
جنگ زدہ خطوں سے آنے والے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے جمہوریہ چیک نے ایک بار پھر انکار کردیا ہے۔ ان پناہ گزینوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ یورپ کے بے شمار ممالک میں تسلسل سے دائیں بازو کی انتہاپسند حکومتوں کی تشکیل سے یورپ میں مسلم دشمنی کی نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
جمہوریہ چیک میں تو اسلام دشمنی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں مقامی باشندے مسلمانوں کے ساتھ میل جول ہی پسند نہیں کرتے۔ اس نفرت کو فروغ دینے میں سب سے بڑا ہاتھ چیک میڈیا کا ہے، جو نہایت منظم طریقے سے مسلمانوں کو خون بہانے والے انتہاپسندوں کے روپ میں پیش کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ''ہم جمہوریہ چیک میں اسلام نہیں چاہتے۔'' کے نام سے بننے والا گروپ اس تعصب کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ پھر چیک صدر کے متعصبانہ بیانات بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے تو مسلم دشمنی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے مسلمانوں کو نازیوں کے مماثل ہی قرار دے ڈالا ہے۔
جمہوریہ چیک یورپ کا ایک اہم ملک ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد گیارہ ہزار کے لگ بھگ ہے، جو کل آبادی کا محض ایک فیصد بنتے ہیں۔ مگر پھر بھی سیاسی سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے اور ان کو سرحدوں کے باہر دھکیلنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے اسکول اور ان کے ریستوران بھی بند کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ مذہبی تقریبات منعقد کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
جمہوریہ چیک میں بننے والی نئی حکومت کے سربراہ کو انتہاپسندی کے باعث یورپ کا ڈونلڈ ٹرمپ قرار دیا جارہا ہے۔ اے این او پارٹی کے کم عمر لیڈر آندرے بابس مہاجرین مخالف منشور لے کر میدان میں اترے اور میدان مار لیا۔ بابس کی فتح یورپی یونین کی بقا کے لیے ہی نہیں مسلمانوں کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے۔ جمہوریہ چیک میں مسلمانوں کے استقبال کے لیے اب نفرت آمیز رویے کانٹوں کے ہار لیے کھڑے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس انتہاپسندی کو دنیا بھر میں مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے اس کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہی ہیں۔ جمہوریہ چیک میں اسلام کو بطور مذہب تسلیم کرنے کے باوجود بھی امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد پر مشتمل ہے لیکن ان کی قابلیت سے صرف نظر کرکے پوری تندہی سے اسلامی تشخص مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔قوم پرستی جمہوریہ چیک کی قدیم تاریخی روایت ہے۔
1620 میں وائٹ ماؤنٹ بیٹن کی جنگ میں شہنشاہ کے خلاف بغاوت ہوئی، جس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کی وجہ سے تین سو سال تک یہ ملک اندھیروں میں گم رہا۔ پہلی عالمی جنگ سے لے کر جمہوریہ چیک کے قیام تک یہاں علاقائی قومیت کا روایتی تصور، لسانی قومیت سے بدل چکا تھا۔ اب صرف چیک زبان بولنے والوں کو ہی شہری تسلیم کیا جانے لگا۔
جرمن زبان بولنے والوں سے اتنی نفرت کی گئی کہ انھیں عفریت اور شیطان کے القابات سے نوازا گیا، یہاں تک کہ جرمن زبان بولنے والے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ 2004 میں جب چیک یورپی یونین کا حصہ بننے لگا تو جمہوریہ چیک کے صدر نے اس بات کی ضمانت مانگی کہ ماضی میں یہاں سے بے دخل کیے گئے جرمن اپنی ملکیت پر کوئی دعویٰ نہیں کریں گے۔
وسطی یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جمہوریہ چیک کے باشندے بھی آج تک اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ کوئی بھی بیرونی طاقت اپنا تسلط قائم کر کے انھیں تباہ کرسکتی ہے۔ اب بھی چیک میں لسانی قومیت کا تصور راسخ ہے، جس کی رو سے جو چیک زبان نہیں بول سکتے ان سے چھٹکارا پا لینا ہی بہتر ہے۔ اسی نظریہ نے ملک کے سیاسی کھیل میں ہمیشہ نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
جمہوریہ چیک کی متعصبانہ تاریخ میں اب جو موڑ آیا ہے اس کا نشانہ مسلم پناہ گزین ہیں۔ صدر میلون زمان تو یہاں مسلم دشمنی کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کے بقول پناہ گزینوں کو یہاں کسی نے مدعو نہیں کیا، یہ ایک سونامی کی طرح ہیں، ان پر قابو نہ پایا گیا تو یہ جمہوریہ چیک کو ختم کردیں گے۔
ان کے خیال میں بہتر معاشی ذرایع کے لیے یہاں آنے والے مسلمان دراصل یورپ کے خلاف اسلام پسندوں کو جمع کرنے کے ارادے سے آ رہے ہیں، یوں یہ سب یورپ کے مجرم ہیں۔ صدر زمان کے قریبی ساتھی تو یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ جمہوریہ چیک میں مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے حراستی مراکز اور گیس چیمبر قائم کیے جائیں۔ ملک کے سربراہ خارجہ امور مسلمانوں کو خطرناک غیرملکی خون قرار دے رہے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت گزشتہ سال مشرق وسطیٰ اور افریقا سے یہاں آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف، جمہوریہ چیک کے چھیانوے فیصد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوام متحدہ سے چیک کے قانون میں ایسی تبدیلیاں لانے کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے صدر زمان اور دیگر نسل پرستانہ سوچ رکھنے والوں کو سزا دی جاسکے۔ چیک میں موجود مسلم پناہ گزین مخالف گروپ کو فیس بک پر بے حد پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ اس تنظیم نے سوا لاکھ دستخطوں کے ساتھ ایک پٹیشن صدر کو جمع کروائی جس میں مسلم پناہ گزینوں کو سرحد سے باہر دھکیلنے کو کہا گیا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کے حق میں بولنے والے چند فیصد لوگوں کے خلاف بھی مظاہرے کیے گئے اور انھیں جمہوریہ چیک کا غدار قرار دیا گیا۔
مسلم پناہ گزینوں کو فیس بک پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، جس کے خلاف شکایت درج کروانے پر پولیس کا موقف ہوتا ہے کہ یہ معاملہ فیس بک انتظامیہ کا ہے، وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یونیسیف میں چیک ری پبلک کے سربراہ نے ٹی وی پروگرام 168 آور میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب وہ افریقا میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی امداد کے لیے جاتے ہیں تو جمہوریہ چیک کے عوام کی جانب سے انھیں لاتعداد ای میل موصول ہوتی ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ ان کو بچانے کی کوششیں نہ کرو، ان کو مرنے دو، یہ مریں گے تو ہم زیادہ ہوجائیں گے، ان کے مرنے سے ہی یورپ پر پناہ گزینوں کا بوجھ کم ہوگا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق دیگر یورپی ملکوں کے مقابلے میں چیک میں انتہائی درجے کا نسلی تعصب پایا جاتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریہ چیک ہی نہیں، پورے یورپ میں مسلمانوں کی بقا خطرے میں ہے۔ اسلام کو بطور مذہب تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا جانے لگا ہے۔ اس وجہ سے مسلم پناہ گزینوں کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
جمہوریہ چیک تو اس حوالے سے صرف ایک مثال ہے، گزشتہ چند سال میں یورپ کے کئی اہم ملکوں میں انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتیں تشکیل میں آئی ہیں، ان کی سوچ بھی کم و بیش یہی ہے۔ پولینڈ، آسٹریا، نیدرلینڈ، سوئیڈن، یونان سمیت کئی ممالک پناہ گزینوں کے خلاف پالیسی پر گامزن ہیں۔ انھیں بیماریاں لانے کا باعث اور بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ مسلم ممالک میں بڑھتی ہوئی شورشوں کے باعث 2015 میں جب ایک لاکھ پناہ گزین یورپ میں داخل ہوئے، اسی وقت سے سرحدیں بند کرنے کا کیا جانے والا مطالبہ اب زور پکڑچکا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے بچاؤ اور فرار کے سارے راستے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بند کیے جارہے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کیسی ترقی ہے؟ کیسی گلوبلائزیشن ہے؟ اگر اس کا مطلب صرف استحصال ہے تو یہ ترقی انسانیت کے لیے کبھی فلاح کا موجب نہیں بن سکے گی۔
جمہوریہ چیک میں تو اسلام دشمنی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں مقامی باشندے مسلمانوں کے ساتھ میل جول ہی پسند نہیں کرتے۔ اس نفرت کو فروغ دینے میں سب سے بڑا ہاتھ چیک میڈیا کا ہے، جو نہایت منظم طریقے سے مسلمانوں کو خون بہانے والے انتہاپسندوں کے روپ میں پیش کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ''ہم جمہوریہ چیک میں اسلام نہیں چاہتے۔'' کے نام سے بننے والا گروپ اس تعصب کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ پھر چیک صدر کے متعصبانہ بیانات بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے تو مسلم دشمنی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے مسلمانوں کو نازیوں کے مماثل ہی قرار دے ڈالا ہے۔
جمہوریہ چیک یورپ کا ایک اہم ملک ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد گیارہ ہزار کے لگ بھگ ہے، جو کل آبادی کا محض ایک فیصد بنتے ہیں۔ مگر پھر بھی سیاسی سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے اور ان کو سرحدوں کے باہر دھکیلنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے اسکول اور ان کے ریستوران بھی بند کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ مذہبی تقریبات منعقد کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
جمہوریہ چیک میں بننے والی نئی حکومت کے سربراہ کو انتہاپسندی کے باعث یورپ کا ڈونلڈ ٹرمپ قرار دیا جارہا ہے۔ اے این او پارٹی کے کم عمر لیڈر آندرے بابس مہاجرین مخالف منشور لے کر میدان میں اترے اور میدان مار لیا۔ بابس کی فتح یورپی یونین کی بقا کے لیے ہی نہیں مسلمانوں کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے۔ جمہوریہ چیک میں مسلمانوں کے استقبال کے لیے اب نفرت آمیز رویے کانٹوں کے ہار لیے کھڑے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس انتہاپسندی کو دنیا بھر میں مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے اس کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہی ہیں۔ جمہوریہ چیک میں اسلام کو بطور مذہب تسلیم کرنے کے باوجود بھی امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد پر مشتمل ہے لیکن ان کی قابلیت سے صرف نظر کرکے پوری تندہی سے اسلامی تشخص مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔قوم پرستی جمہوریہ چیک کی قدیم تاریخی روایت ہے۔
1620 میں وائٹ ماؤنٹ بیٹن کی جنگ میں شہنشاہ کے خلاف بغاوت ہوئی، جس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کی وجہ سے تین سو سال تک یہ ملک اندھیروں میں گم رہا۔ پہلی عالمی جنگ سے لے کر جمہوریہ چیک کے قیام تک یہاں علاقائی قومیت کا روایتی تصور، لسانی قومیت سے بدل چکا تھا۔ اب صرف چیک زبان بولنے والوں کو ہی شہری تسلیم کیا جانے لگا۔
جرمن زبان بولنے والوں سے اتنی نفرت کی گئی کہ انھیں عفریت اور شیطان کے القابات سے نوازا گیا، یہاں تک کہ جرمن زبان بولنے والے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ 2004 میں جب چیک یورپی یونین کا حصہ بننے لگا تو جمہوریہ چیک کے صدر نے اس بات کی ضمانت مانگی کہ ماضی میں یہاں سے بے دخل کیے گئے جرمن اپنی ملکیت پر کوئی دعویٰ نہیں کریں گے۔
وسطی یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جمہوریہ چیک کے باشندے بھی آج تک اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ کوئی بھی بیرونی طاقت اپنا تسلط قائم کر کے انھیں تباہ کرسکتی ہے۔ اب بھی چیک میں لسانی قومیت کا تصور راسخ ہے، جس کی رو سے جو چیک زبان نہیں بول سکتے ان سے چھٹکارا پا لینا ہی بہتر ہے۔ اسی نظریہ نے ملک کے سیاسی کھیل میں ہمیشہ نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
جمہوریہ چیک کی متعصبانہ تاریخ میں اب جو موڑ آیا ہے اس کا نشانہ مسلم پناہ گزین ہیں۔ صدر میلون زمان تو یہاں مسلم دشمنی کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کے بقول پناہ گزینوں کو یہاں کسی نے مدعو نہیں کیا، یہ ایک سونامی کی طرح ہیں، ان پر قابو نہ پایا گیا تو یہ جمہوریہ چیک کو ختم کردیں گے۔
ان کے خیال میں بہتر معاشی ذرایع کے لیے یہاں آنے والے مسلمان دراصل یورپ کے خلاف اسلام پسندوں کو جمع کرنے کے ارادے سے آ رہے ہیں، یوں یہ سب یورپ کے مجرم ہیں۔ صدر زمان کے قریبی ساتھی تو یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ جمہوریہ چیک میں مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے حراستی مراکز اور گیس چیمبر قائم کیے جائیں۔ ملک کے سربراہ خارجہ امور مسلمانوں کو خطرناک غیرملکی خون قرار دے رہے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت گزشتہ سال مشرق وسطیٰ اور افریقا سے یہاں آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف، جمہوریہ چیک کے چھیانوے فیصد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوام متحدہ سے چیک کے قانون میں ایسی تبدیلیاں لانے کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے صدر زمان اور دیگر نسل پرستانہ سوچ رکھنے والوں کو سزا دی جاسکے۔ چیک میں موجود مسلم پناہ گزین مخالف گروپ کو فیس بک پر بے حد پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ اس تنظیم نے سوا لاکھ دستخطوں کے ساتھ ایک پٹیشن صدر کو جمع کروائی جس میں مسلم پناہ گزینوں کو سرحد سے باہر دھکیلنے کو کہا گیا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کے حق میں بولنے والے چند فیصد لوگوں کے خلاف بھی مظاہرے کیے گئے اور انھیں جمہوریہ چیک کا غدار قرار دیا گیا۔
مسلم پناہ گزینوں کو فیس بک پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، جس کے خلاف شکایت درج کروانے پر پولیس کا موقف ہوتا ہے کہ یہ معاملہ فیس بک انتظامیہ کا ہے، وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یونیسیف میں چیک ری پبلک کے سربراہ نے ٹی وی پروگرام 168 آور میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب وہ افریقا میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی امداد کے لیے جاتے ہیں تو جمہوریہ چیک کے عوام کی جانب سے انھیں لاتعداد ای میل موصول ہوتی ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ ان کو بچانے کی کوششیں نہ کرو، ان کو مرنے دو، یہ مریں گے تو ہم زیادہ ہوجائیں گے، ان کے مرنے سے ہی یورپ پر پناہ گزینوں کا بوجھ کم ہوگا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق دیگر یورپی ملکوں کے مقابلے میں چیک میں انتہائی درجے کا نسلی تعصب پایا جاتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریہ چیک ہی نہیں، پورے یورپ میں مسلمانوں کی بقا خطرے میں ہے۔ اسلام کو بطور مذہب تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا جانے لگا ہے۔ اس وجہ سے مسلم پناہ گزینوں کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
جمہوریہ چیک تو اس حوالے سے صرف ایک مثال ہے، گزشتہ چند سال میں یورپ کے کئی اہم ملکوں میں انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتیں تشکیل میں آئی ہیں، ان کی سوچ بھی کم و بیش یہی ہے۔ پولینڈ، آسٹریا، نیدرلینڈ، سوئیڈن، یونان سمیت کئی ممالک پناہ گزینوں کے خلاف پالیسی پر گامزن ہیں۔ انھیں بیماریاں لانے کا باعث اور بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ مسلم ممالک میں بڑھتی ہوئی شورشوں کے باعث 2015 میں جب ایک لاکھ پناہ گزین یورپ میں داخل ہوئے، اسی وقت سے سرحدیں بند کرنے کا کیا جانے والا مطالبہ اب زور پکڑچکا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے بچاؤ اور فرار کے سارے راستے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بند کیے جارہے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کیسی ترقی ہے؟ کیسی گلوبلائزیشن ہے؟ اگر اس کا مطلب صرف استحصال ہے تو یہ ترقی انسانیت کے لیے کبھی فلاح کا موجب نہیں بن سکے گی۔